Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of Uhud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور وہ وقت یاد کیجئے ، جب آپ صبح کو اپنے گھروں کے پاس سے نکلے ، مسلمانوں کو لڑائی کے لیے مناسب ٹھکا نوں پر لے جاتے ہوئے اور اللہ بڑا سننے والا ہے ، بڑاجاننے والاہے ۔ “ اور اسی سورت میںاللہ عزوجل کا فرمان ” اور ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو ، تمہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہوگے ۔ اگر تمہیں کوئی زخم پہنچ جائے تو ان لوگوں کو بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے اور ہم ان دنوں کی الٹ پھیر تو لوگوں کے درمیان کرتے ہی رہتے ہیں ، تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ کو شہید بنائے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا اور تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو میل کچیل سے صاف کردے اور کافروں کو مٹادے ۔ کیا تم اس گمان میں ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ، حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو نہیں جانا جنہوں نے جہاد کیا اور نہ صبر کرنے والوں کو جانا اور تم تو موت کی تمنا کررہے تھے اس سے پہلے کہ اس کے سامنے آؤ ۔ سوا س کو اب تم نے خوب کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور یقینا تم سے اللہ نے سچ کردکھایا اپنا وعدہ ، جب کہ تم انہیں اس کے حکم سے کررہے تھے ، یہاں تک کہ جب تم خود ہی کمزور پڑگئے اور آپس میں جھگڑنے لگے ۔ حکم رسول کے بارے میں اور تم نے نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ نے دکھا دیا تھا جو کچھ کہ تم چاہتے تھے ۔ پھر اللہ نے تم کو ان میں سے پھیر دیا تاکہ تمہاری پوری آ زمائش کرے اور اللہ نے تم سے درگزر کی اور اللہ ایمان لانے والوں کے حق میں بڑا فضل والا ہے “ ( اور آیت ) ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ مت خیال کرو ۔ “ آخر آیت تک ۔تشریح:آیات مذکورہ میں جنگ احد کے کچھ مختلف کوائف پر اشارات ہیں مورخہ17شوال 3ھ میں احد پہاڑ کے قریب یہ جنگ ہوئی آنحضرتﷺ کا لشکر ایک ہزار مردوں پر مشتمل تھا جس میں سے تین سو منافق واپس لوٹ گئے تھے مشرکین کا لشکر تین ہزار تھا رسول اللہ ﷺ نے پچاس سپاہیوں کا ایک دستہ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی ما تحتی میں احد کی ایک گھاٹی کی حفاظت پر مقرر فرمایا تھا اور تاکید کی تھی کہ ہمارا حکم آئے بغیر ہر گز یہ گھاٹی نہ چھوڑیں ہماری ہار ہو یا جیت ہو تم لوگ یہیں جمے رہو جب شروع میں مسلمانوں کو فتح ہونے لگی تو ان لشکریوں میں سے اکثر نے فتح ہو جانے کے خیال میں وہ درہ خالی چھوڑ دیا جس سے مشرکین نے پلٹ کر مسلمانوں کی پشت پر حملہ کیا اور مسلمانوں کو وہ نقصان عظیم پہنچا جو تاریخ میں مشہور ہے احادیث ذیل میں جنگ احد سے متعلق کو ائف بیان کئے گئے ہیں حافظ صاحب فرماتے ہیں: قَالَ الْعُلَمَاءُ وَكَانَ فِي قِصَّةِ أُحُدٍ وَمَا أُصِيبَ بِهِ الْمُسْلِمُونَ فِيهَا مِنَ الْفَوَائِدِ وَالْحِكَمِ الرَّبَّانِيَّةِ أَشْيَاءٌ عَظِيمَةٌ مِنْهَا تَعْرِيفُ الْمُسْلِمِينَ سُوءَ عَاقِبَةِ الْمَعْصِيَةِ وَشُؤْمِ ارْتِكَابِ النَّهْيِ لِمَا وَقَعَ مِنْ تَرْكِ الرُّمَاةِ مَوْقِفَهُمُ الَّذِي أَمَرَهُمُ الرَّسُولُ أَنْ لَا يَبْرَحُوا مِنْهُ وَمِنْهَا أَنَّ عَادَةَ الرُّسُلِ أَنْ تُبْتَلَى وَتَكُونَ لَهَا الْعَاقِبَةُ كَمَا تَقَدَّمَ فِي قِصَّةِ هِرَقْلَ مَعَ أَبِي سُفْيَانَ وَالْحِكْمَةُ فِي ذَلِكَ أَنَّهُمْ لَوِ انْتَصَرُوا دَائِمًا دَخَلَ فِي الْمُؤْمِنِينَ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ وَلَمْ يَتَمَيَّزِ الصَّادِقُ مِنْ غَيْرِهِ وَلَوِ انْكَسَرُوا دَائِمًا لَمْ يَحْصُلِ الْمَقْصُودُ مِنَ الْبَعْثَةِ فَاقْتَضَتِ الْحِكْمَةُ الْجَمْعَ بَيْنَ الْأَمْرَيْنِ لِتَمْيِيزِ الصَّادِقِ مِنَ الْكَاذِبِ وَذَلِكَ أَنَّ نِفَاقَ الْمُنَافِقِينَ كَانَ مَخْفِيًّا عَنِ الْمُسْلِمِينَ فَلَمَّا جَرَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ وَأَظْهَرَ أَهْلُ النِّفَاقِ مَا أَظْهَرُوهُ مِنَ الْفِعْلِ وَالْقَوْلِ عَادَ التَّلْوِيحُ تَصْرِيحًا وَعَرَفَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّ لَهُمْ عَدُوًّا فِي دُورِهِمْ فَاسْتَعَدُّوا لَهُمْ وَتَحَرَّزُوا مِنْهُمْ الخ( فتحالباری)یعنی علماء نے کہا ہے کہ احد کے واقعہ میں بہت سے فوائد اور بہت سی حکمتیں ہیں جو اہمیت کے لحاظ سے بڑی عظمت رکھتی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ مسلمانوں کو معصیت اور منہیات کے ارتکاب کا نتیجہ بد بدلا دیا جائے تا کہ آئندہ وہ ایسا نہ کریں کچھ تیر اندازوں کو رسول اللہ ﷺ نے ایک گھاٹی پر مقرر فرما کر سخت تاکید فرمائی تھی کہ ہماری جیت ہو یا ہار ہمارا حکم آئے بغیر تم اس گھاٹی سے مت ہٹنا‘مگر انہوں نے نافرمانی کی اور مسلمانوں کی اول مرحلہ پر فتح دیکھ کر وہ اموال غنیمت لوٹنے کے خیال سے گھاٹی کو چھوڑ کر میدان میں آ گئے اس نافرمانی کا جو خمیازہ سارے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا وہ معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ نافرمانی اور معصیت کے ارتکاب کا نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے اور ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے کہ رسولوں کو آزمایا جاتا ہے اور آخر انجام بھی ان ہی کی فتخ ہوتی ہے جیسا کہ ہرقل اور ابوسفیان کے قصہ میں گزر چکا ہے اگر ہمیشہ رسولوں کے لئے مدد ہی ہوتی رہے تو مومنوں میں غیر مومن بھی داخل ہوسکتے ہیں اور صادق اور کاذب لوگوں میں تمیز اٹھ سکتی ہے اور اگر وہ ہمیشہ ہارتے ہی رہیں تو بعثت کا مقصود فوت ہو جاتا ہے پس حکمت الٰہی کا تقاضا و شکست ہر دور کے درمیان ہوا تاکہ صادق اور کاذب میں فرق ہوتا رہے منافقیں کا نفاق پہلے مسلمانوں پر محفی تھا اس امتحان نے ان کو ظاہر کر دیا اور انہوں نے اپنے قول اور فعل سے کھلے طور پر اپنے نفاق کو ظاہر کر دیا تب مسلمانوں پر ظاہر ہوگیا کہ ان کے گھر وں ہی میں ان کے دشمن چھپے ہوئے ہیں جن سے پرہیز کرنا لازم ہے آج کل بھی ایسے نام نہاد مسلمان موجود ہیں جو نمازو روزہ کرتے ہیں مگر وقت آنے پر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کرتے رہتے ہیں ایسے لوگوں سے ہر وقت چوکنا رہنا ضروری ہے نفاق بہت ہی برا والا حصہ ’’ویل‘‘سزا کے لیے تجویز ہونا بتلایا ہے ہر مسلمان کو پانچوں وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے اللھم اعوذبک من النفاق و الشقاق وسوء الا خلاق اے اللہ!میں نفاق سے اور آپس کی پھوٹ سے اور برے اخلاق سے تیری پناہ چاہتا ہوں آمین یا رب العالمین
4047.
حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی تھی اور ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا تھا تو ہمارا ثواب اللہ کے ذمے ہو گیا۔ پھر ہم میں سے کچھ حضرات ایسے تھے جو گزر گئے جبکہ انہوں نے اپنے ثواب سے اس دنیا میں کچھ نہ دیکھا۔ ان میں سے حضرت مصعب بن عمیر ؓ بھی ہیں۔ وہ اُحد کی جنگ میں شہید ہوئے۔ انہوں نے اپنے ترکے میں صرف ایک دھاری دار چادر چھوڑی۔ جب ہم اس چادر سے ان کا سر ڈھاپنتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور جب ان کے پاؤں ڈھانپے جاتے تو ان کا سر ننگا ہو جاتا۔ نبی ﷺ نے ہمیں فرمایا: ’’اس چادر سے ان کا سر چھپا دو اور ان کے پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دو۔‘‘ اور ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان کے عمل کا بدلہ دنیا میں مل رہا ہے اور وہ اس سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
تشریح:
1۔ ’’ہمارا اجر اللہ کے ذمے ہو گیا۔‘‘ اس سے مراد اخروی اجرو ثواب ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم اور مہربانی کے طور پر اس اجر کو خود پر لازم اور واجب کیا ہے۔ اس سے مراد واجب شرعی نہیں جس کی کوتاہی سے مکلف اجتناب کرتا ہے اور’’اپنے اجر سے کچھ نہ کھایا‘‘ سے مراد دنیوی اجر ہے۔ 2۔ چونکہ اس حدیث میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی شہادت کا ذکر ہے جو میدان احد میں ہوئی تھی اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اس کی تفصیل ہم کتاب الرقاق حدیث 6448۔ میں بیان کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3895
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4047
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4047
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4047
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
اور سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور وہ وقت یاد کیجئے ، جب آپ صبح کو اپنے گھروں کے پاس سے نکلے ، مسلمانوں کو لڑائی کے لیے مناسب ٹھکا نوں پر لے جاتے ہوئے اور اللہ بڑا سننے والا ہے ، بڑاجاننے والاہے ۔ “ اور اسی سورت میںاللہ عزوجل کا فرمان ” اور ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو ، تمہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہوگے ۔ اگر تمہیں کوئی زخم پہنچ جائے تو ان لوگوں کو بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے اور ہم ان دنوں کی الٹ پھیر تو لوگوں کے درمیان کرتے ہی رہتے ہیں ، تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ کو شہید بنائے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا اور تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو میل کچیل سے صاف کردے اور کافروں کو مٹادے ۔ کیا تم اس گمان میں ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ، حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو نہیں جانا جنہوں نے جہاد کیا اور نہ صبر کرنے والوں کو جانا اور تم تو موت کی تمنا کررہے تھے اس سے پہلے کہ اس کے سامنے آؤ ۔ سوا س کو اب تم نے خوب کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور یقینا تم سے اللہ نے سچ کردکھایا اپنا وعدہ ، جب کہ تم انہیں اس کے حکم سے کررہے تھے ، یہاں تک کہ جب تم خود ہی کمزور پڑگئے اور آپس میں جھگڑنے لگے ۔ حکم رسول کے بارے میں اور تم نے نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ نے دکھا دیا تھا جو کچھ کہ تم چاہتے تھے ۔ پھر اللہ نے تم کو ان میں سے پھیر دیا تاکہ تمہاری پوری آ زمائش کرے اور اللہ نے تم سے درگزر کی اور اللہ ایمان لانے والوں کے حق میں بڑا فضل والا ہے “ ( اور آیت ) ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ مت خیال کرو ۔ “ آخر آیت تک ۔تشریح:آیات مذکورہ میں جنگ احد کے کچھ مختلف کوائف پر اشارات ہیں مورخہ17شوال 3ھ میں احد پہاڑ کے قریب یہ جنگ ہوئی آنحضرتﷺ کا لشکر ایک ہزار مردوں پر مشتمل تھا جس میں سے تین سو منافق واپس لوٹ گئے تھے مشرکین کا لشکر تین ہزار تھا رسول اللہ ﷺ نے پچاس سپاہیوں کا ایک دستہ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی ما تحتی میں احد کی ایک گھاٹی کی حفاظت پر مقرر فرمایا تھا اور تاکید کی تھی کہ ہمارا حکم آئے بغیر ہر گز یہ گھاٹی نہ چھوڑیں ہماری ہار ہو یا جیت ہو تم لوگ یہیں جمے رہو جب شروع میں مسلمانوں کو فتح ہونے لگی تو ان لشکریوں میں سے اکثر نے فتح ہو جانے کے خیال میں وہ درہ خالی چھوڑ دیا جس سے مشرکین نے پلٹ کر مسلمانوں کی پشت پر حملہ کیا اور مسلمانوں کو وہ نقصان عظیم پہنچا جو تاریخ میں مشہور ہے احادیث ذیل میں جنگ احد سے متعلق کو ائف بیان کئے گئے ہیں حافظ صاحب فرماتے ہیں: قَالَ الْعُلَمَاءُ وَكَانَ فِي قِصَّةِ أُحُدٍ وَمَا أُصِيبَ بِهِ الْمُسْلِمُونَ فِيهَا مِنَ الْفَوَائِدِ وَالْحِكَمِ الرَّبَّانِيَّةِ أَشْيَاءٌ عَظِيمَةٌ مِنْهَا تَعْرِيفُ الْمُسْلِمِينَ سُوءَ عَاقِبَةِ الْمَعْصِيَةِ وَشُؤْمِ ارْتِكَابِ النَّهْيِ لِمَا وَقَعَ مِنْ تَرْكِ الرُّمَاةِ مَوْقِفَهُمُ الَّذِي أَمَرَهُمُ الرَّسُولُ أَنْ لَا يَبْرَحُوا مِنْهُ وَمِنْهَا أَنَّ عَادَةَ الرُّسُلِ أَنْ تُبْتَلَى وَتَكُونَ لَهَا الْعَاقِبَةُ كَمَا تَقَدَّمَ فِي قِصَّةِ هِرَقْلَ مَعَ أَبِي سُفْيَانَ وَالْحِكْمَةُ فِي ذَلِكَ أَنَّهُمْ لَوِ انْتَصَرُوا دَائِمًا دَخَلَ فِي الْمُؤْمِنِينَ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ وَلَمْ يَتَمَيَّزِ الصَّادِقُ مِنْ غَيْرِهِ وَلَوِ انْكَسَرُوا دَائِمًا لَمْ يَحْصُلِ الْمَقْصُودُ مِنَ الْبَعْثَةِ فَاقْتَضَتِ الْحِكْمَةُ الْجَمْعَ بَيْنَ الْأَمْرَيْنِ لِتَمْيِيزِ الصَّادِقِ مِنَ الْكَاذِبِ وَذَلِكَ أَنَّ نِفَاقَ الْمُنَافِقِينَ كَانَ مَخْفِيًّا عَنِ الْمُسْلِمِينَ فَلَمَّا جَرَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ وَأَظْهَرَ أَهْلُ النِّفَاقِ مَا أَظْهَرُوهُ مِنَ الْفِعْلِ وَالْقَوْلِ عَادَ التَّلْوِيحُ تَصْرِيحًا وَعَرَفَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّ لَهُمْ عَدُوًّا فِي دُورِهِمْ فَاسْتَعَدُّوا لَهُمْ وَتَحَرَّزُوا مِنْهُمْ الخ( فتحالباری)یعنی علماء نے کہا ہے کہ احد کے واقعہ میں بہت سے فوائد اور بہت سی حکمتیں ہیں جو اہمیت کے لحاظ سے بڑی عظمت رکھتی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ مسلمانوں کو معصیت اور منہیات کے ارتکاب کا نتیجہ بد بدلا دیا جائے تا کہ آئندہ وہ ایسا نہ کریں کچھ تیر اندازوں کو رسول اللہ ﷺ نے ایک گھاٹی پر مقرر فرما کر سخت تاکید فرمائی تھی کہ ہماری جیت ہو یا ہار ہمارا حکم آئے بغیر تم اس گھاٹی سے مت ہٹنا‘مگر انہوں نے نافرمانی کی اور مسلمانوں کی اول مرحلہ پر فتح دیکھ کر وہ اموال غنیمت لوٹنے کے خیال سے گھاٹی کو چھوڑ کر میدان میں آ گئے اس نافرمانی کا جو خمیازہ سارے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا وہ معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ نافرمانی اور معصیت کے ارتکاب کا نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے اور ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے کہ رسولوں کو آزمایا جاتا ہے اور آخر انجام بھی ان ہی کی فتخ ہوتی ہے جیسا کہ ہرقل اور ابوسفیان کے قصہ میں گزر چکا ہے اگر ہمیشہ رسولوں کے لئے مدد ہی ہوتی رہے تو مومنوں میں غیر مومن بھی داخل ہوسکتے ہیں اور صادق اور کاذب لوگوں میں تمیز اٹھ سکتی ہے اور اگر وہ ہمیشہ ہارتے ہی رہیں تو بعثت کا مقصود فوت ہو جاتا ہے پس حکمت الٰہی کا تقاضا و شکست ہر دور کے درمیان ہوا تاکہ صادق اور کاذب میں فرق ہوتا رہے منافقیں کا نفاق پہلے مسلمانوں پر محفی تھا اس امتحان نے ان کو ظاہر کر دیا اور انہوں نے اپنے قول اور فعل سے کھلے طور پر اپنے نفاق کو ظاہر کر دیا تب مسلمانوں پر ظاہر ہوگیا کہ ان کے گھر وں ہی میں ان کے دشمن چھپے ہوئے ہیں جن سے پرہیز کرنا لازم ہے آج کل بھی ایسے نام نہاد مسلمان موجود ہیں جو نمازو روزہ کرتے ہیں مگر وقت آنے پر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کرتے رہتے ہیں ایسے لوگوں سے ہر وقت چوکنا رہنا ضروری ہے نفاق بہت ہی برا والا حصہ ’’ویل‘‘سزا کے لیے تجویز ہونا بتلایا ہے ہر مسلمان کو پانچوں وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے اللھم اعوذبک من النفاق و الشقاق وسوء الا خلاق اے اللہ!میں نفاق سے اور آپس کی پھوٹ سے اور برے اخلاق سے تیری پناہ چاہتا ہوں آمین یا رب العالمین
حدیث ترجمہ:
حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی تھی اور ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا تھا تو ہمارا ثواب اللہ کے ذمے ہو گیا۔ پھر ہم میں سے کچھ حضرات ایسے تھے جو گزر گئے جبکہ انہوں نے اپنے ثواب سے اس دنیا میں کچھ نہ دیکھا۔ ان میں سے حضرت مصعب بن عمیر ؓ بھی ہیں۔ وہ اُحد کی جنگ میں شہید ہوئے۔ انہوں نے اپنے ترکے میں صرف ایک دھاری دار چادر چھوڑی۔ جب ہم اس چادر سے ان کا سر ڈھاپنتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور جب ان کے پاؤں ڈھانپے جاتے تو ان کا سر ننگا ہو جاتا۔ نبی ﷺ نے ہمیں فرمایا: ’’اس چادر سے ان کا سر چھپا دو اور ان کے پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دو۔‘‘ اور ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان کے عمل کا بدلہ دنیا میں مل رہا ہے اور وہ اس سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ’’ہمارا اجر اللہ کے ذمے ہو گیا۔‘‘ اس سے مراد اخروی اجرو ثواب ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم اور مہربانی کے طور پر اس اجر کو خود پر لازم اور واجب کیا ہے۔ اس سے مراد واجب شرعی نہیں جس کی کوتاہی سے مکلف اجتناب کرتا ہے اور’’اپنے اجر سے کچھ نہ کھایا‘‘ سے مراد دنیوی اجر ہے۔ 2۔ چونکہ اس حدیث میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی شہادت کا ذکر ہے جو میدان احد میں ہوئی تھی اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اس کی تفصیل ہم کتاب الرقاق حدیث 6448۔ میں بیان کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: "اور جب آپ صبح دم اپنے گھر سے نکلے اور مسلمانوں کو جنگ کے لیے مورچوں پر بٹھا رہ تھے اور اللہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔"
نیز اللہ تعالٰی نے فرمایا: "(مسلمانو!) نہ تم کم زوری دکھاؤ اور غم نہ کھاؤ اگر فی الواقع تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔ اگر تمہیں زخم لگے ہیں تو ایسے ہی زخم کافروں کو بھی لگ چکے ہیں اور ہم یہ دن لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں اور (یہ اس لیے بھی) تاکہ اللہ تعالٰی ان لوگوں کو جان لے (ظاہر کر دے) جو سچے دل سے ایمان لائے ہیں اور تاکہ تم میں سے کچھ لوگوں کو مقام شہادت ملے۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا اور اس لیے بھی کہ وہ اس آزمائش کے ذریعے سے اہل ایمان کو پاک صاف کر کے چھانٹ لے اور کفر کو ملیامیٹ کر دے۔ کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے جبکہ ابھی تک اللہ تعالٰی نے یہ نہیں جانا (ظاہر نہیں کیا) کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں؟ بلاشبہ اس سے پہلے تم شہادت کی آرزو کیا کرتے تھے کہ وہ تمہیں نصیب ہو، سو اب تم نے اسے بچشم خود دیکھ لیا ہے۔"
نیز اللہ تعالٰی نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالٰی نے جو تم سے وعدہ کر رکھا تھا اسے پورا کر دیا جبکہ تم کفار کو اللہ کے حکم سے خوب قتل کر رہے تھے ۔۔ کیونکہ وہ مومنوں کے لیے بڑے فضل والا ہے۔"ارشاد باری تعالٰی ہے: "اور جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ خیال کرو۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق بن سلمہ نے اور ان سے خباب بن الارت ؓ نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی تھی، ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا تھی۔ اس کا ثواب اللہ کے ذمے تھا۔ پھر ہم میں سے بعض لوگ تو وہ تھے جو گزر گئے اور کوئی اجر انہوں نے اس دنیا میں نہیں دیکھا، انہیں میں سے مصعب بن عمیر ؓ بھی تھے۔ احد کی لڑائی میں انہوں نے شہادت پائی تھی۔ ایک دھاری دار چادر کے سوا اور کوئی چیز ان کے پاس نہیں تھی (اور وہی ان کا کفن بنی) جب ہم اس سے ان کا سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں چھپاتے تو سر کھل جاتا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ سر چادر سے چھپا دو اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دو۔ یا حضور ﷺ نے یہ الفاظ فرمائے تھے کہ ألقوا علی رجله من الإذخر بجائے اجعلوا علی رجله الإذخر کے اور ہم بعض وہ تھے جنہیں ان کے اس عمل کا بدلہ (اسی دنیا میں) مل رہا ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Khabbab bin Al-Art: We migrated in the company of Allah's Apostle, seeking Allah's Pleasure. So our reward became due and sure with Allah. Some of us have been dead without enjoying anything of their rewards (here), and one of them was Mus'ab bin 'Umar who was martyred on the day of the battle of Uhud, and did not leave anything except a Namira (i.e. a sheet in which he was shrouded). If we covered his head with it, his feet became naked, and if we covered his feet with it, his head became naked. So the Prophet (ﷺ) said to us, "Cover his head with it and put some Idhkhir (i.e. a kind of grass) over his feet or throw Idhkhir over his feet." But some amongst us have got the fruits of their labor ripened, and they are collecting them. Narrated Anas (RA): His uncle (Anas bin An-Nadr) was absent from the battle of Badr and he said, "I was absent from the first battle of the Prophet (ﷺ) (i.e. Badr battle), and if Allah should let me participate in (a battle) with the Prophet, Allah will see how strongly I will fight." So he encountered the day of Uhud battle. The Muslims fled and he said, "O Allah ! I appeal to You to excuse me for what these people (i.e. the Muslims) have done, and I am clear from what the pagans have done." Then he went forward with his sword and met Sad bin Mu'adh (fleeing), and asked him, "Where are you going, O Sad? I detect a smell of Paradise before Uhud." Then he proceeded on and was martyred. No-body was able to recognize him till his sister recognized him by a mole on his body or by the tips of his fingers. He had over 8O wounds caused by stabbing, striking or shooting with arrows.