Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of Uhud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور وہ وقت یاد کیجئے ، جب آپ صبح کو اپنے گھروں کے پاس سے نکلے ، مسلمانوں کو لڑائی کے لیے مناسب ٹھکا نوں پر لے جاتے ہوئے اور اللہ بڑا سننے والا ہے ، بڑاجاننے والاہے ۔ “ اور اسی سورت میںاللہ عزوجل کا فرمان ” اور ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو ، تمہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہوگے ۔ اگر تمہیں کوئی زخم پہنچ جائے تو ان لوگوں کو بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے اور ہم ان دنوں کی الٹ پھیر تو لوگوں کے درمیان کرتے ہی رہتے ہیں ، تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ کو شہید بنائے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا اور تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو میل کچیل سے صاف کردے اور کافروں کو مٹادے ۔ کیا تم اس گمان میں ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ، حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو نہیں جانا جنہوں نے جہاد کیا اور نہ صبر کرنے والوں کو جانا اور تم تو موت کی تمنا کررہے تھے اس سے پہلے کہ اس کے سامنے آؤ ۔ سوا س کو اب تم نے خوب کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور یقینا تم سے اللہ نے سچ کردکھایا اپنا وعدہ ، جب کہ تم انہیں اس کے حکم سے کررہے تھے ، یہاں تک کہ جب تم خود ہی کمزور پڑگئے اور آپس میں جھگڑنے لگے ۔ حکم رسول کے بارے میں اور تم نے نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ نے دکھا دیا تھا جو کچھ کہ تم چاہتے تھے ۔ پھر اللہ نے تم کو ان میں سے پھیر دیا تاکہ تمہاری پوری آ زمائش کرے اور اللہ نے تم سے درگزر کی اور اللہ ایمان لانے والوں کے حق میں بڑا فضل والا ہے “ ( اور آیت ) ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ مت خیال کرو ۔ “ آخر آیت تک ۔تشریح:آیات مذکورہ میں جنگ احد کے کچھ مختلف کوائف پر اشارات ہیں مورخہ17شوال 3ھ میں احد پہاڑ کے قریب یہ جنگ ہوئی آنحضرتﷺ کا لشکر ایک ہزار مردوں پر مشتمل تھا جس میں سے تین سو منافق واپس لوٹ گئے تھے مشرکین کا لشکر تین ہزار تھا رسول اللہ ﷺ نے پچاس سپاہیوں کا ایک دستہ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی ما تحتی میں احد کی ایک گھاٹی کی حفاظت پر مقرر فرمایا تھا اور تاکید کی تھی کہ ہمارا حکم آئے بغیر ہر گز یہ گھاٹی نہ چھوڑیں ہماری ہار ہو یا جیت ہو تم لوگ یہیں جمے رہو جب شروع میں مسلمانوں کو فتح ہونے لگی تو ان لشکریوں میں سے اکثر نے فتح ہو جانے کے خیال میں وہ درہ خالی چھوڑ دیا جس سے مشرکین نے پلٹ کر مسلمانوں کی پشت پر حملہ کیا اور مسلمانوں کو وہ نقصان عظیم پہنچا جو تاریخ میں مشہور ہے احادیث ذیل میں جنگ احد سے متعلق کو ائف بیان کئے گئے ہیں حافظ صاحب فرماتے ہیں: قَالَ الْعُلَمَاءُ وَكَانَ فِي قِصَّةِ أُحُدٍ وَمَا أُصِيبَ بِهِ الْمُسْلِمُونَ فِيهَا مِنَ الْفَوَائِدِ وَالْحِكَمِ الرَّبَّانِيَّةِ أَشْيَاءٌ عَظِيمَةٌ مِنْهَا تَعْرِيفُ الْمُسْلِمِينَ سُوءَ عَاقِبَةِ الْمَعْصِيَةِ وَشُؤْمِ ارْتِكَابِ النَّهْيِ لِمَا وَقَعَ مِنْ تَرْكِ الرُّمَاةِ مَوْقِفَهُمُ الَّذِي أَمَرَهُمُ الرَّسُولُ أَنْ لَا يَبْرَحُوا مِنْهُ وَمِنْهَا أَنَّ عَادَةَ الرُّسُلِ أَنْ تُبْتَلَى وَتَكُونَ لَهَا الْعَاقِبَةُ كَمَا تَقَدَّمَ فِي قِصَّةِ هِرَقْلَ مَعَ أَبِي سُفْيَانَ وَالْحِكْمَةُ فِي ذَلِكَ أَنَّهُمْ لَوِ انْتَصَرُوا دَائِمًا دَخَلَ فِي الْمُؤْمِنِينَ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ وَلَمْ يَتَمَيَّزِ الصَّادِقُ مِنْ غَيْرِهِ وَلَوِ انْكَسَرُوا دَائِمًا لَمْ يَحْصُلِ الْمَقْصُودُ مِنَ الْبَعْثَةِ فَاقْتَضَتِ الْحِكْمَةُ الْجَمْعَ بَيْنَ الْأَمْرَيْنِ لِتَمْيِيزِ الصَّادِقِ مِنَ الْكَاذِبِ وَذَلِكَ أَنَّ نِفَاقَ الْمُنَافِقِينَ كَانَ مَخْفِيًّا عَنِ الْمُسْلِمِينَ فَلَمَّا جَرَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ وَأَظْهَرَ أَهْلُ النِّفَاقِ مَا أَظْهَرُوهُ مِنَ الْفِعْلِ وَالْقَوْلِ عَادَ التَّلْوِيحُ تَصْرِيحًا وَعَرَفَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّ لَهُمْ عَدُوًّا فِي دُورِهِمْ فَاسْتَعَدُّوا لَهُمْ وَتَحَرَّزُوا مِنْهُمْ الخ( فتحالباری)یعنی علماء نے کہا ہے کہ احد کے واقعہ میں بہت سے فوائد اور بہت سی حکمتیں ہیں جو اہمیت کے لحاظ سے بڑی عظمت رکھتی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ مسلمانوں کو معصیت اور منہیات کے ارتکاب کا نتیجہ بد بدلا دیا جائے تا کہ آئندہ وہ ایسا نہ کریں کچھ تیر اندازوں کو رسول اللہ ﷺ نے ایک گھاٹی پر مقرر فرما کر سخت تاکید فرمائی تھی کہ ہماری جیت ہو یا ہار ہمارا حکم آئے بغیر تم اس گھاٹی سے مت ہٹنا‘مگر انہوں نے نافرمانی کی اور مسلمانوں کی اول مرحلہ پر فتح دیکھ کر وہ اموال غنیمت لوٹنے کے خیال سے گھاٹی کو چھوڑ کر میدان میں آ گئے اس نافرمانی کا جو خمیازہ سارے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا وہ معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ نافرمانی اور معصیت کے ارتکاب کا نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے اور ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے کہ رسولوں کو آزمایا جاتا ہے اور آخر انجام بھی ان ہی کی فتخ ہوتی ہے جیسا کہ ہرقل اور ابوسفیان کے قصہ میں گزر چکا ہے اگر ہمیشہ رسولوں کے لئے مدد ہی ہوتی رہے تو مومنوں میں غیر مومن بھی داخل ہوسکتے ہیں اور صادق اور کاذب لوگوں میں تمیز اٹھ سکتی ہے اور اگر وہ ہمیشہ ہارتے ہی رہیں تو بعثت کا مقصود فوت ہو جاتا ہے پس حکمت الٰہی کا تقاضا و شکست ہر دور کے درمیان ہوا تاکہ صادق اور کاذب میں فرق ہوتا رہے منافقیں کا نفاق پہلے مسلمانوں پر محفی تھا اس امتحان نے ان کو ظاہر کر دیا اور انہوں نے اپنے قول اور فعل سے کھلے طور پر اپنے نفاق کو ظاہر کر دیا تب مسلمانوں پر ظاہر ہوگیا کہ ان کے گھر وں ہی میں ان کے دشمن چھپے ہوئے ہیں جن سے پرہیز کرنا لازم ہے آج کل بھی ایسے نام نہاد مسلمان موجود ہیں جو نمازو روزہ کرتے ہیں مگر وقت آنے پر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کرتے رہتے ہیں ایسے لوگوں سے ہر وقت چوکنا رہنا ضروری ہے نفاق بہت ہی برا والا حصہ ’’ویل‘‘سزا کے لیے تجویز ہونا بتلایا ہے ہر مسلمان کو پانچوں وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے اللھم اعوذبک من النفاق و الشقاق وسوء الا خلاق اے اللہ!میں نفاق سے اور آپس کی پھوٹ سے اور برے اخلاق سے تیری پناہ چاہتا ہوں آمین یا رب العالمین
4048.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کے چچا غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے تو انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کے ہمراہ پہلی ہی لڑائی میں غیر حاضر رہا، اگر اللہ تعالٰی نے کسی اور لڑائی میں مجھے نبی ﷺ کے ساتھ شرکت کا موقع دیا تو اللہ تعالٰی دیکھے گا کہ میں کتنی بے جگری سے لڑتا ہوں۔ پھر جب غزوہ اُحد کا موقع آیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں افراتفری پھیل گئی تو انہوں نے کہا: اے اللہ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا ہے میں تیرے حضور اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور جو مشرکین نے کردار ادا کیا ہے میں اس سے اظہار بے زاری کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ ؓ سے ملاقات ہوئی۔ ان سے کہا: اے سعد! تم کہاں جا رہے ہو؟ میں اُحد کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ پھر وہ جنگ میں کود پڑے اور شہید ہو گئے۔ ان کی لاش شناخت نہیں ہو رہی تھی۔ آخر ان کی بہن نے ایک تل اور انگلی کے پوروں سے انہیں پہچانا۔ انہیں نیزوں، تلواروں اور تیروں کے اَسی (80) سے زیادہ زخم لگے تھے۔
تشریح:
1۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس بن نضر ؓ غزوہ بدر کے وقت مدینہ طیبہ میں موجود تھے۔ شاید اپنے کسی کام کے لیے کہیں باہر گئے ہوں۔ اگرچہ غزوہ بدر سے پہلے بھی کفار کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں لیکن غزوہ بدر پہلی جنگ عظیم تھی جو کفر و اسلام کے درمیان برپا ہوئی۔ 2۔ حضرت انس بن نضر ؓنے احد کے دامن میں جنت کی خوشبو کو سونگھار یہ خوشبو حقیقی تھی یا اسے مجازی معنی پر محمول کیا جائے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے دونوں معنی بیان کیے ہیں لیکن ہمارے نزدیک اسے مجازی معنی پر محمول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اسے ظاہری اور حقیقی معنی پر محمول کرنے میں عافیت ہے روایات میں ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ جنت کو دیکھتا اور اس کی مہک سے محفوظ ہوتا ہے خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اگر مرنے والا مقرب لوگوں میں سے ہے تو اس کے لیے خوشبو ئیں جنت کی نعمتیں اور آرام و سکون ہو گا۔‘‘ (الواقعة:88۔89)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3896
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4048
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4048
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4048
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
اور سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور وہ وقت یاد کیجئے ، جب آپ صبح کو اپنے گھروں کے پاس سے نکلے ، مسلمانوں کو لڑائی کے لیے مناسب ٹھکا نوں پر لے جاتے ہوئے اور اللہ بڑا سننے والا ہے ، بڑاجاننے والاہے ۔ “ اور اسی سورت میںاللہ عزوجل کا فرمان ” اور ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو ، تمہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہوگے ۔ اگر تمہیں کوئی زخم پہنچ جائے تو ان لوگوں کو بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے اور ہم ان دنوں کی الٹ پھیر تو لوگوں کے درمیان کرتے ہی رہتے ہیں ، تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ کو شہید بنائے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا اور تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو میل کچیل سے صاف کردے اور کافروں کو مٹادے ۔ کیا تم اس گمان میں ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ، حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو نہیں جانا جنہوں نے جہاد کیا اور نہ صبر کرنے والوں کو جانا اور تم تو موت کی تمنا کررہے تھے اس سے پہلے کہ اس کے سامنے آؤ ۔ سوا س کو اب تم نے خوب کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور یقینا تم سے اللہ نے سچ کردکھایا اپنا وعدہ ، جب کہ تم انہیں اس کے حکم سے کررہے تھے ، یہاں تک کہ جب تم خود ہی کمزور پڑگئے اور آپس میں جھگڑنے لگے ۔ حکم رسول کے بارے میں اور تم نے نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ نے دکھا دیا تھا جو کچھ کہ تم چاہتے تھے ۔ پھر اللہ نے تم کو ان میں سے پھیر دیا تاکہ تمہاری پوری آ زمائش کرے اور اللہ نے تم سے درگزر کی اور اللہ ایمان لانے والوں کے حق میں بڑا فضل والا ہے “ ( اور آیت ) ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ مت خیال کرو ۔ “ آخر آیت تک ۔تشریح:آیات مذکورہ میں جنگ احد کے کچھ مختلف کوائف پر اشارات ہیں مورخہ17شوال 3ھ میں احد پہاڑ کے قریب یہ جنگ ہوئی آنحضرتﷺ کا لشکر ایک ہزار مردوں پر مشتمل تھا جس میں سے تین سو منافق واپس لوٹ گئے تھے مشرکین کا لشکر تین ہزار تھا رسول اللہ ﷺ نے پچاس سپاہیوں کا ایک دستہ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی ما تحتی میں احد کی ایک گھاٹی کی حفاظت پر مقرر فرمایا تھا اور تاکید کی تھی کہ ہمارا حکم آئے بغیر ہر گز یہ گھاٹی نہ چھوڑیں ہماری ہار ہو یا جیت ہو تم لوگ یہیں جمے رہو جب شروع میں مسلمانوں کو فتح ہونے لگی تو ان لشکریوں میں سے اکثر نے فتح ہو جانے کے خیال میں وہ درہ خالی چھوڑ دیا جس سے مشرکین نے پلٹ کر مسلمانوں کی پشت پر حملہ کیا اور مسلمانوں کو وہ نقصان عظیم پہنچا جو تاریخ میں مشہور ہے احادیث ذیل میں جنگ احد سے متعلق کو ائف بیان کئے گئے ہیں حافظ صاحب فرماتے ہیں: قَالَ الْعُلَمَاءُ وَكَانَ فِي قِصَّةِ أُحُدٍ وَمَا أُصِيبَ بِهِ الْمُسْلِمُونَ فِيهَا مِنَ الْفَوَائِدِ وَالْحِكَمِ الرَّبَّانِيَّةِ أَشْيَاءٌ عَظِيمَةٌ مِنْهَا تَعْرِيفُ الْمُسْلِمِينَ سُوءَ عَاقِبَةِ الْمَعْصِيَةِ وَشُؤْمِ ارْتِكَابِ النَّهْيِ لِمَا وَقَعَ مِنْ تَرْكِ الرُّمَاةِ مَوْقِفَهُمُ الَّذِي أَمَرَهُمُ الرَّسُولُ أَنْ لَا يَبْرَحُوا مِنْهُ وَمِنْهَا أَنَّ عَادَةَ الرُّسُلِ أَنْ تُبْتَلَى وَتَكُونَ لَهَا الْعَاقِبَةُ كَمَا تَقَدَّمَ فِي قِصَّةِ هِرَقْلَ مَعَ أَبِي سُفْيَانَ وَالْحِكْمَةُ فِي ذَلِكَ أَنَّهُمْ لَوِ انْتَصَرُوا دَائِمًا دَخَلَ فِي الْمُؤْمِنِينَ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ وَلَمْ يَتَمَيَّزِ الصَّادِقُ مِنْ غَيْرِهِ وَلَوِ انْكَسَرُوا دَائِمًا لَمْ يَحْصُلِ الْمَقْصُودُ مِنَ الْبَعْثَةِ فَاقْتَضَتِ الْحِكْمَةُ الْجَمْعَ بَيْنَ الْأَمْرَيْنِ لِتَمْيِيزِ الصَّادِقِ مِنَ الْكَاذِبِ وَذَلِكَ أَنَّ نِفَاقَ الْمُنَافِقِينَ كَانَ مَخْفِيًّا عَنِ الْمُسْلِمِينَ فَلَمَّا جَرَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ وَأَظْهَرَ أَهْلُ النِّفَاقِ مَا أَظْهَرُوهُ مِنَ الْفِعْلِ وَالْقَوْلِ عَادَ التَّلْوِيحُ تَصْرِيحًا وَعَرَفَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّ لَهُمْ عَدُوًّا فِي دُورِهِمْ فَاسْتَعَدُّوا لَهُمْ وَتَحَرَّزُوا مِنْهُمْ الخ( فتحالباری)یعنی علماء نے کہا ہے کہ احد کے واقعہ میں بہت سے فوائد اور بہت سی حکمتیں ہیں جو اہمیت کے لحاظ سے بڑی عظمت رکھتی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ مسلمانوں کو معصیت اور منہیات کے ارتکاب کا نتیجہ بد بدلا دیا جائے تا کہ آئندہ وہ ایسا نہ کریں کچھ تیر اندازوں کو رسول اللہ ﷺ نے ایک گھاٹی پر مقرر فرما کر سخت تاکید فرمائی تھی کہ ہماری جیت ہو یا ہار ہمارا حکم آئے بغیر تم اس گھاٹی سے مت ہٹنا‘مگر انہوں نے نافرمانی کی اور مسلمانوں کی اول مرحلہ پر فتح دیکھ کر وہ اموال غنیمت لوٹنے کے خیال سے گھاٹی کو چھوڑ کر میدان میں آ گئے اس نافرمانی کا جو خمیازہ سارے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا وہ معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ نافرمانی اور معصیت کے ارتکاب کا نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے اور ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے کہ رسولوں کو آزمایا جاتا ہے اور آخر انجام بھی ان ہی کی فتخ ہوتی ہے جیسا کہ ہرقل اور ابوسفیان کے قصہ میں گزر چکا ہے اگر ہمیشہ رسولوں کے لئے مدد ہی ہوتی رہے تو مومنوں میں غیر مومن بھی داخل ہوسکتے ہیں اور صادق اور کاذب لوگوں میں تمیز اٹھ سکتی ہے اور اگر وہ ہمیشہ ہارتے ہی رہیں تو بعثت کا مقصود فوت ہو جاتا ہے پس حکمت الٰہی کا تقاضا و شکست ہر دور کے درمیان ہوا تاکہ صادق اور کاذب میں فرق ہوتا رہے منافقیں کا نفاق پہلے مسلمانوں پر محفی تھا اس امتحان نے ان کو ظاہر کر دیا اور انہوں نے اپنے قول اور فعل سے کھلے طور پر اپنے نفاق کو ظاہر کر دیا تب مسلمانوں پر ظاہر ہوگیا کہ ان کے گھر وں ہی میں ان کے دشمن چھپے ہوئے ہیں جن سے پرہیز کرنا لازم ہے آج کل بھی ایسے نام نہاد مسلمان موجود ہیں جو نمازو روزہ کرتے ہیں مگر وقت آنے پر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کرتے رہتے ہیں ایسے لوگوں سے ہر وقت چوکنا رہنا ضروری ہے نفاق بہت ہی برا والا حصہ ’’ویل‘‘سزا کے لیے تجویز ہونا بتلایا ہے ہر مسلمان کو پانچوں وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے اللھم اعوذبک من النفاق و الشقاق وسوء الا خلاق اے اللہ!میں نفاق سے اور آپس کی پھوٹ سے اور برے اخلاق سے تیری پناہ چاہتا ہوں آمین یا رب العالمین
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کے چچا غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے تو انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کے ہمراہ پہلی ہی لڑائی میں غیر حاضر رہا، اگر اللہ تعالٰی نے کسی اور لڑائی میں مجھے نبی ﷺ کے ساتھ شرکت کا موقع دیا تو اللہ تعالٰی دیکھے گا کہ میں کتنی بے جگری سے لڑتا ہوں۔ پھر جب غزوہ اُحد کا موقع آیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں افراتفری پھیل گئی تو انہوں نے کہا: اے اللہ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا ہے میں تیرے حضور اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور جو مشرکین نے کردار ادا کیا ہے میں اس سے اظہار بے زاری کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ ؓ سے ملاقات ہوئی۔ ان سے کہا: اے سعد! تم کہاں جا رہے ہو؟ میں اُحد کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ پھر وہ جنگ میں کود پڑے اور شہید ہو گئے۔ ان کی لاش شناخت نہیں ہو رہی تھی۔ آخر ان کی بہن نے ایک تل اور انگلی کے پوروں سے انہیں پہچانا۔ انہیں نیزوں، تلواروں اور تیروں کے اَسی (80) سے زیادہ زخم لگے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس بن نضر ؓ غزوہ بدر کے وقت مدینہ طیبہ میں موجود تھے۔ شاید اپنے کسی کام کے لیے کہیں باہر گئے ہوں۔ اگرچہ غزوہ بدر سے پہلے بھی کفار کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں لیکن غزوہ بدر پہلی جنگ عظیم تھی جو کفر و اسلام کے درمیان برپا ہوئی۔ 2۔ حضرت انس بن نضر ؓنے احد کے دامن میں جنت کی خوشبو کو سونگھار یہ خوشبو حقیقی تھی یا اسے مجازی معنی پر محمول کیا جائے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے دونوں معنی بیان کیے ہیں لیکن ہمارے نزدیک اسے مجازی معنی پر محمول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اسے ظاہری اور حقیقی معنی پر محمول کرنے میں عافیت ہے روایات میں ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ جنت کو دیکھتا اور اس کی مہک سے محفوظ ہوتا ہے خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اگر مرنے والا مقرب لوگوں میں سے ہے تو اس کے لیے خوشبو ئیں جنت کی نعمتیں اور آرام و سکون ہو گا۔‘‘ (الواقعة:88۔89)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: "اور جب آپ صبح دم اپنے گھر سے نکلے اور مسلمانوں کو جنگ کے لیے مورچوں پر بٹھا رہ تھے اور اللہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔"
نیز اللہ تعالٰی نے فرمایا: "(مسلمانو!) نہ تم کم زوری دکھاؤ اور غم نہ کھاؤ اگر فی الواقع تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔ اگر تمہیں زخم لگے ہیں تو ایسے ہی زخم کافروں کو بھی لگ چکے ہیں اور ہم یہ دن لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں اور (یہ اس لیے بھی) تاکہ اللہ تعالٰی ان لوگوں کو جان لے (ظاہر کر دے) جو سچے دل سے ایمان لائے ہیں اور تاکہ تم میں سے کچھ لوگوں کو مقام شہادت ملے۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا اور اس لیے بھی کہ وہ اس آزمائش کے ذریعے سے اہل ایمان کو پاک صاف کر کے چھانٹ لے اور کفر کو ملیامیٹ کر دے۔ کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے جبکہ ابھی تک اللہ تعالٰی نے یہ نہیں جانا (ظاہر نہیں کیا) کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں؟ بلاشبہ اس سے پہلے تم شہادت کی آرزو کیا کرتے تھے کہ وہ تمہیں نصیب ہو، سو اب تم نے اسے بچشم خود دیکھ لیا ہے۔"
نیز اللہ تعالٰی نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالٰی نے جو تم سے وعدہ کر رکھا تھا اسے پورا کر دیا جبکہ تم کفار کو اللہ کے حکم سے خوب قتل کر رہے تھے ۔۔ کیونکہ وہ مومنوں کے لیے بڑے فضل والا ہے۔"ارشاد باری تعالٰی ہے: "اور جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ خیال کرو۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسان بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن طلحہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا اور ان سے انس ؓ نے کہ ان کے چچا (انس بن نضر) بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے، پھر انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ پہلی ہی لڑائی میں غیر حاضر رہا۔ اگر حضور ﷺ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی اور لڑائی میں شرکت کا موقع دیا تو اللہ دیکھے گا کہ میں کتنی بے جگری سے لڑتا ہوں۔ پھر غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کی جماعت میں افراتفری پیدا ہوگئی تو انہوں نے کہا، اے اللہ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور مشرکین نے جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس سے اپنی بیزاری ظاہر کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے۔ راستے میں حضرت سعد بن معاذ ؓ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے کہا، سعد! کہاں جارہے ہو؟ میں تو احد پہاڑی کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ اس کے بعدوہ آگے بڑھے اور شہید کردیئے گئے۔ ان کی لاش پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ آخر ان کی بہن نے ایک تل یا ان کی انگلیوں کے پور سے ان کی لاش کو پہچانا۔ انکو اسّی (80) پر کئی زخم بھالے اور تلوار اور تیر وں کے لگے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ابن شکوال نے کہا اس شخص کا نام عمیر بن حمام ؓ تھا۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ عمیر بن حمام ؓ نے جنگ احد کے دن کچھ کھجوریں نکالیں ان کو کھانے لگے پھر کہنے لگے ان کھجورں کے تمام کرنے تک اگر میں جیتا رہا تو یہ بڑی لمبی زندگی ہو گی چنانچہ جاکر لڑنے لگے اور مارے گئے۔ اسد الغابہ میں ہے کہ عمیر بدر کے دن مارے گئے اور یہ سب انصار میں پہلے شخص تھے جو اللہ کی راہ میں جنگ میں مارے گئے۔ ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ عمیر بن حمام ؓ جب کافروں سے جنگ بدر میں بھڑ گئے تو یہ کہنے لگے کہ اللہ کے پاس جاتا ہوں۔ توشہ ووشہ کچھ نہیں البتہ خدا کا ڈر اور آخرت میں کام آنے والا عمل اور جہاد پر صبر ہے۔ بے شک خدا کا ڈر نہایت مضبوط کرنے والا امر ہے۔ انس بن نضر انصاری ؓ کو عمر بن خطاب ؓ ملے جو گھبرائے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا بڑا غضب ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ شہید ہو گئے۔ انس ؓ نے کہا کہ پھر اب ہم تم زندہ رہ کر کیا کریں گے۔ آنحضرت ﷺ کا خدا تو زندہ ہے۔ اس دین پر لڑ کر مرو جس پر پیغمبر لڑ ے یہ کہہ کر انس بن نضر ؓ کافروں کی صف میں گھس گئے اور لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ کہتے ہیں احد کی جنگ میں کافروں کا جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ نے سنبھالا اس کو حضرت علی ؓنے مارا۔ پھر عثمان بن ابی طلحہ نے اس کو امیر حمزہ نے مارا۔ پھر ابو سعید بن ابی طلحہ نے اس کو سعد بن ابی وقاص ؓ نے مارا۔ پھر نافع بن طلحہ بن ابی طلحہ نے اس کو عاصم بن ثابت انصاری ؓ نے مارا۔ پھر حارث بن طلحہ بن ابی طلحہ نے اس کو بھی عاصم نے مارا۔ پھر کلاب بن ابی طلحہ نے اس کو زبیر ؓ نے مارا ۔ پھر جلاس بن طلحہ نے پھر ارطاۃ بن شرحبیل نے اس کو حضرت علی ؓ نے مارا ۔ پھر شریح بن قارض نے وہ بھی مارا گیا۔ پھر صواب ایک غلام نے اس کو سعد بن ابی وقاص ؓ یا حضرت علی ؓ یا قزمان ؓ نے مارا۔ اس کے بعد کافر بھاگ نکلے (وحیدی) اس حدیث کے ذیل میں حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم کی ایک اور تقریر درج کی جاتی ہے جو توجہ سے پڑھنے کے لائق ہے۔ فرماتے ہیں۔ مسلمانو! ہمارے باپ دادا نے ایسی ایسی بہادریاں کرکے خون بہا کر اسلام کو دنیا میں پھیلایا تھا اور اتنا بڑا وسیع ملک حاصل کیا تھا جس کی حد مغرب میں تونس اور اندلس یعنی ہسپانیہ تک اور مشرق میں چین برہما تک اور شمال میں روس تک اور جنوب میں ولایات روم وایران و توران و ہندوستان وعرب وشام ومصر وافریقہ ان کے زیر نگیں تھیں۔ ہماری عیاشی اور بے دینی نے اب یہ نوبت پہنچائی ہے کہ خاص عرب کے سوا حل اور بلاد بھی کافروں کے قبضے میں آرہے ہیں اور ملک تو اب جا چکے ہیں اب جتنا رہ گیا ہے اس کو بنا لو خواب غفلت سے بیدار ہو تو قرآ ن وحدیث کو مضبوط تھا مو۔ وما علینا إلا البلاغ(وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): His uncle (Anas bin An-Nadr) was absent from the battle of Badr and he said, "I was absent from the first battle of the Prophet (ﷺ) (i.e. Badr battle), and if Allah should let me participate in (a battle) with the Prophet (ﷺ), Allah will see how strongly I will fight." So he encountered the day of Uhud battle. The Muslims fled and he said, "O Allah! I appeal to You to excuse me for what these people (i.e. the Muslims) have done, and I am clear from what the pagans have done." Then he went forward with his sword and met Sa’d bin Mu'adh (RA) (fleeing), and asked him, "Where are you going, O Sa’d? I detect a smell of Paradise before Uhud." Then he proceeded on and was martyred. No-body was able to recognize him till his sister recognized him by a mole on his body or by the tips of his fingers. He had over 80 wounds caused by stabbing, striking or shooting with arrows.