باب: غزوئہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوئہ احزاب ہے ۔ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ غزوئہ خندق شوال 4 ھ میں ہوا تھا۔
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of Al-Khandaq or Al-Ahzab Battle)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
احزاب حزب کی جمع ہے ۔ حزب گروہ کو کہتے ہیں ۔ اس جنگ میں ابو سفیان عرب کے بہت سے گروہوں کو بہکا کر مسلمانوں پر چڑھا لایا تھا اس لیے اس کا نام جنگ احزاب ہوا۔ آنحضرت ﷺنے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے سے مدینہ کے گرد خندق کھدوائی ۔ اس کے کھودنے میں آپ بذات خاص بھی شریک رہے ۔ کافروں کا لشکردس ہزارکا تھا اور مسلمان کل تین ہزار تھے ۔ بیس دن تک کافر مسلمانوں کو گھیرے رہے۔ آخر اللہ تعالی نے ان پر آندھی بھیجی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ابو سفیان کو ندامت ہوئی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اب سے کافر ہم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ ہم ہی ان پر چڑھائی کریں گے ۔ فتح الباری میں ہے کہ جنگ خندق 5 ھ میں ہوئی ۔ 4 ھ ایک اور حساب سے ہے جن کی تفصیل فتح الباری میں دیکھی جا سکتی ہے۔
4101.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم خندق کے دن زمین کھود رہے تھے۔ اچانک ایک سخت چٹان نمودار ہوئی۔ صحابہ كرام ؓ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی: خندق میں ایک سخت چٹان نکل آئی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں خود اتر کر اسے دور کرتا ہوں۔‘‘ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے تو (بھوک کی وجہ سے) آپ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے اور ہم بھی تین دن سے بھوکے پیاسے تھے۔ نبی ﷺ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور جب اس چٹان پر ماری تو مارتے ہی وہ ریت کی طرح ریزہ ریزہ ہو گئی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔ پھر میں نے گھر آ کر اپنی بیوی سے کہا: آج میں نے نبی ﷺ کو اس حالت میں دیکھا ہے جو مجھ سے برداشت نہیں ہو سکی۔ کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس کچھ جو ہیں اور ایک بکری کا بچہ ہے۔ میں نے جلدی سے بکری کا بچہ ذبح کیا اور میری بیوی نے جو پیسے۔ پھر ہم نے گوشت کے ٹکڑے ہنڈیا میں رکھے۔ اس کے بعد میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آٹا گوندھا جا چکا تھا اور گوشت چولہے پر پکنے کے قریب تھا۔ میں نے آپ سے گزارش کی: اللہ کے رسول! گھر کھانے کے لیے تھوڑا سا کھانا تیار ہے۔ آپ ایک دو آدمیوں کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کھانا کس قدر ہے؟‘‘ میں نے آپ کو سب کچھ بتا دیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ تو مقدار میں بہت اور معیار میں بہت عمدہ اور پاکیزہ ہے۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بس اپنی بیوی سے کہو کہ میرے آنے سے پہلے ہنڈیا چولہے سے نہ اتارے اور نہ تنور سے روٹی نکالے۔‘‘ پھر آپ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: ’’سب لوگ چلیں۔‘‘ چنانچہ تمام مہاجرین اور انصار تیار ہو گئے۔ جب حضرت جابر ؓ گھر پہنچے تو اپنی بیوی سے کہا: اب کیا ہو گا؟ نبی ﷺ تو تمام مہاجرین اور انصار کو ساتھ لے کر تشریف لا رہے ہیں۔ ان کی بیوی نے پوچھا: کیا آپ ﷺ نے تم سے کچھ دریافت کیا تھا؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس دوران میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا: ’’سب اندر آ جاؤ لیکن ازدہام نہ کرو۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے روٹیوں کے ٹکڑے کیے اور ان پر گوشت ڈالنے لگے۔ جب آپ ہنڈیا اور تنور سے کچھ نکالتے تو انہیں ڈھانپ دیتے۔ آپ ﷺ نے وہ کھانا اپنے صحابہ کرام ؓ کے قریب کر دیا۔ اسی طرح آپ مسلسل روٹیوں کے ٹکڑے کرتے رہے اور ان پر گوشت ڈالتے رہے حتی کہ تمام صحابہ کرام ؓ سیر ہو گئے اور کھانا بھی بچ گیا۔ (آخر میں) آپ ﷺ نے حضرت جابر کی بیوی سے فرمایا: ’’اب یہ کھانا تم خود بھی کھاؤ اور لوگوں کو ہدیہ بھی بھیجو کیونکہ لوگ آج کل فاقے میں مبتلا ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا جب ہم خندق کھودرہے تھے تو اچانک ایک چٹان نمودار ہوئی جس پر کدال کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی تو آپ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی، اور بسم اللہ پڑھ کر اسے چٹان پر مارا تو اس کا تیسرا حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: ’’مجھے ملک شام کی چابیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اس وقت اس کے سرخ محلات کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر آپ نے دوسری ضرب لگائی تو اس کا دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: ’’مجھے ایران کی کنجیاں سونپ دی گئی ہیں اللہ کی قسم! میں اب اس ملک کے سفید محلات کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر اللہ کا نام لے کر تیسری ضرب لگائی تو پوری چٹان ٹوٹ گئی۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا:’’مجھے ملک یمن کی چابیاں دی گئی ہیں۔ اللہ قسم! میں اس مقام پر کھڑا صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔‘‘ (مسند احمد:303/4) 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس، دس صحابہ کرام پر مشتمل گروپ تشکیل دیے اور ایک گروپ کو دس ہاتھ خندق کھودنے کی ذمہ داری سونپی گئی خندق کھودتے کھودتے ایک سخت چٹان آئی جس نے کدال توڑدیے۔ صحابہ کرام ؓ نے حضرت سلمان ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تاکہ اس صورت حال سے نمٹا جا سکے، چنانچہ آپ نے کدال لے کر ضرب لگائی تو چٹان میں دراڑیں پڑ گئیں اور اس سے چمک پیدا ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے نعرہ تکبیربلند کیا اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ نے بھی اللہ اکبر کہا، آپ نے فرمایا: ’’میں نے اس چمک میں شام کے محلات کو دیکھا۔ میرے پاس جبرئیل آئے اور انھوں نے کہا: ایک دن آپ کی امت ان محلات پر قابض ہو جائے گی۔‘‘ چنانچہ مسلمان اس بشارت سے بہت خوش ہوئے۔ (فتح الباري:496/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3948
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4101
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4101
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4101
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
ابو سفیان نے مشرکین مکہ یہود مدینہ اور قبائل کو ساتھ ملا کرمدینہ طیبہ کا محاصرہ کر لیا اس لیے اسے غزوہ احزاب کہتے ہیں۔ حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کے ایک طرف خندق کھدوائی تھی۔ اس لیے اسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے۔اس غزوے کے دو نام ہیں، یعنی غزوہ احزاب اور غزوہ خندق ۔
احزاب حزب کی جمع ہے ۔ حزب گروہ کو کہتے ہیں ۔ اس جنگ میں ابو سفیان عرب کے بہت سے گروہوں کو بہکا کر مسلمانوں پر چڑھا لایا تھا اس لیے اس کا نام جنگ احزاب ہوا۔ آنحضرت ﷺنے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے سے مدینہ کے گرد خندق کھدوائی ۔ اس کے کھودنے میں آپ بذات خاص بھی شریک رہے ۔ کافروں کا لشکردس ہزارکا تھا اور مسلمان کل تین ہزار تھے ۔ بیس دن تک کافر مسلمانوں کو گھیرے رہے۔ آخر اللہ تعالی نے ان پر آندھی بھیجی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ابو سفیان کو ندامت ہوئی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اب سے کافر ہم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ ہم ہی ان پر چڑھائی کریں گے ۔ فتح الباری میں ہے کہ جنگ خندق 5 ھ میں ہوئی ۔ 4 ھ ایک اور حساب سے ہے جن کی تفصیل فتح الباری میں دیکھی جا سکتی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم خندق کے دن زمین کھود رہے تھے۔ اچانک ایک سخت چٹان نمودار ہوئی۔ صحابہ كرام ؓ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی: خندق میں ایک سخت چٹان نکل آئی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں خود اتر کر اسے دور کرتا ہوں۔‘‘ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے تو (بھوک کی وجہ سے) آپ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے اور ہم بھی تین دن سے بھوکے پیاسے تھے۔ نبی ﷺ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور جب اس چٹان پر ماری تو مارتے ہی وہ ریت کی طرح ریزہ ریزہ ہو گئی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔ پھر میں نے گھر آ کر اپنی بیوی سے کہا: آج میں نے نبی ﷺ کو اس حالت میں دیکھا ہے جو مجھ سے برداشت نہیں ہو سکی۔ کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس کچھ جو ہیں اور ایک بکری کا بچہ ہے۔ میں نے جلدی سے بکری کا بچہ ذبح کیا اور میری بیوی نے جو پیسے۔ پھر ہم نے گوشت کے ٹکڑے ہنڈیا میں رکھے۔ اس کے بعد میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آٹا گوندھا جا چکا تھا اور گوشت چولہے پر پکنے کے قریب تھا۔ میں نے آپ سے گزارش کی: اللہ کے رسول! گھر کھانے کے لیے تھوڑا سا کھانا تیار ہے۔ آپ ایک دو آدمیوں کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کھانا کس قدر ہے؟‘‘ میں نے آپ کو سب کچھ بتا دیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ تو مقدار میں بہت اور معیار میں بہت عمدہ اور پاکیزہ ہے۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بس اپنی بیوی سے کہو کہ میرے آنے سے پہلے ہنڈیا چولہے سے نہ اتارے اور نہ تنور سے روٹی نکالے۔‘‘ پھر آپ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: ’’سب لوگ چلیں۔‘‘ چنانچہ تمام مہاجرین اور انصار تیار ہو گئے۔ جب حضرت جابر ؓ گھر پہنچے تو اپنی بیوی سے کہا: اب کیا ہو گا؟ نبی ﷺ تو تمام مہاجرین اور انصار کو ساتھ لے کر تشریف لا رہے ہیں۔ ان کی بیوی نے پوچھا: کیا آپ ﷺ نے تم سے کچھ دریافت کیا تھا؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس دوران میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا: ’’سب اندر آ جاؤ لیکن ازدہام نہ کرو۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے روٹیوں کے ٹکڑے کیے اور ان پر گوشت ڈالنے لگے۔ جب آپ ہنڈیا اور تنور سے کچھ نکالتے تو انہیں ڈھانپ دیتے۔ آپ ﷺ نے وہ کھانا اپنے صحابہ کرام ؓ کے قریب کر دیا۔ اسی طرح آپ مسلسل روٹیوں کے ٹکڑے کرتے رہے اور ان پر گوشت ڈالتے رہے حتی کہ تمام صحابہ کرام ؓ سیر ہو گئے اور کھانا بھی بچ گیا۔ (آخر میں) آپ ﷺ نے حضرت جابر کی بیوی سے فرمایا: ’’اب یہ کھانا تم خود بھی کھاؤ اور لوگوں کو ہدیہ بھی بھیجو کیونکہ لوگ آج کل فاقے میں مبتلا ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا جب ہم خندق کھودرہے تھے تو اچانک ایک چٹان نمودار ہوئی جس پر کدال کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی تو آپ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی، اور بسم اللہ پڑھ کر اسے چٹان پر مارا تو اس کا تیسرا حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: ’’مجھے ملک شام کی چابیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اس وقت اس کے سرخ محلات کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر آپ نے دوسری ضرب لگائی تو اس کا دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: ’’مجھے ایران کی کنجیاں سونپ دی گئی ہیں اللہ کی قسم! میں اب اس ملک کے سفید محلات کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر اللہ کا نام لے کر تیسری ضرب لگائی تو پوری چٹان ٹوٹ گئی۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا:’’مجھے ملک یمن کی چابیاں دی گئی ہیں۔ اللہ قسم! میں اس مقام پر کھڑا صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔‘‘ (مسند احمد:303/4) 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس، دس صحابہ کرام پر مشتمل گروپ تشکیل دیے اور ایک گروپ کو دس ہاتھ خندق کھودنے کی ذمہ داری سونپی گئی خندق کھودتے کھودتے ایک سخت چٹان آئی جس نے کدال توڑدیے۔ صحابہ کرام ؓ نے حضرت سلمان ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تاکہ اس صورت حال سے نمٹا جا سکے، چنانچہ آپ نے کدال لے کر ضرب لگائی تو چٹان میں دراڑیں پڑ گئیں اور اس سے چمک پیدا ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے نعرہ تکبیربلند کیا اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ نے بھی اللہ اکبر کہا، آپ نے فرمایا: ’’میں نے اس چمک میں شام کے محلات کو دیکھا۔ میرے پاس جبرئیل آئے اور انھوں نے کہا: ایک دن آپ کی امت ان محلات پر قابض ہو جائے گی۔‘‘ چنانچہ مسلمان اس بشارت سے بہت خوش ہوئے۔ (فتح الباري:496/7)
ترجمۃ الباب:
موسٰی بن عقبہ نے کہا کہ یہ جنگ شوال چار ہجری میں ہوئی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحیی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے انہوں نے اپنے والد ایمن حبشی سے انہوں نے کہا، میں جابر بن عبداللہ انصاریؓ کے پاس آیا انہوں نے بیان کیا ہم خندق کے دن زمین کھود رہے تھے اتنے میں ایک قطعہ سخت نکلا (جو کدال سے کھدنہ سکا) لوگ نبیﷺ کے پاس آئے آپؐ سے عرض کیا یہ ایک قطعہ سخت ہے جو خندق میں نکل آیا (اب کیا کرنا) آپؐ نے فرمایا (ٹھہرو) میں خود اترتا ہوں (اس کو کھود دیتا ہوں) پھر آپؐ کھڑے ہوئے بھوک کی وجہ سے آپؐ کے پیٹ پر پتھر بندھا تھا اور ہم لوگوں نے بھی تین دن سے کوئی کھانے کی چیز چکھی تک نہ تھی۔ آپؐ نے کدال (پکاس) ہاتھ میں لی اور اس قطعہ پر ماری وہ بہتی ریتی ہو گیا (یا تو اتنا سخت تھا یا اتنا نرم ہو گیا) راوی کو شک ہے اہیل کا لفظ کہا یا اہیم کا معنی ایک ہی ہیں، یعنی بہتی پھسلتی ریتی، آخر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھ کو گھر تک کی پروانگی دیجئے (آپؐ نے اجازت دی) میں نے گھر آن کر اپنی جورو (سہیلہ بنت مسعود) سے کہا نبیﷺ میں میں نے وہ بات دیکھی جس پر صبر نہیں ہو سکتا (یعنی آپؐ بہت بھوکے ہیں) تیرے پاس کچھ کھانے کو ہے اس نے کہا ہاں تھوڑے جو ہیں (ایک صاع) اور ایک بکری کا بچہ ہے میں نے بکر ی کےبچہ کوذبح کیا اور میرے بیوی نے جو پیسے ۔ پھر گوشت کوہم نےچولھے پڑ ہانڈی میں رکھا اورمیں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضرت ﷺ سےمیں نے عرض کیا، گھر کھانے کےلیے مختصر کھانا تیار ہے۔ یارسول اللہ! آپ اپنے ساتھ ایک دو آدمیوں کولےکر تشریف لے چلیں۔ حضور ﷺ نےدریافت فرمایا کہ کتنا ہے؟ میں نے آپ کو سب کچھ بتا دیا۔ آپ نےفرمایا کہ یہ توبہت ہےاورنہایت عمدہ و طیب ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اپنی بیوی سےکہہ دو کہ چولھے سےہانڈی نہ اتاریں اور نہ تنور سےروٹی نکالیں، میں ابھی آرہا ہوں۔ پھر صحابہ سےفرمایا کہ سب لوگ چلیں۔ چنانچہ تمام انصار اورمہاجرین تیار ہوگئے۔ جب جابر گھر پہنچے تواپنی بیوی سےانہوں نے کہا، اب کیا ہوگا؟ رسول اللہﷺ توتمام مہاجرین وانصار کوساتھ لے کر تشریف لارہےہیں۔ انہوں نےپوچھا، حضور ﷺ نےصحابہ سےفرمایا کہ اندر داخل ہوجاؤ لیکن اژدھام نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد آنحضور ﷺ روٹی کاچورا کرنے لگے اور گوشت اس پرڈالنے لگے۔ ہانڈی اورتنور دونوں ڈھکے ہوئے تھے۔ آنحضور ﷺ نےاسے لیا اور صحابہ کےقریب کردیا۔ پھر آپ نےگوشت اورروٹی نکالی۔ اس طرح آپ برابر روٹی چورا کرتے جاتے اورگوشت اس میں ڈالتے جاتے۔ یہاں تک کہ تمام کہ تمام صحابہ شکم سیرہو گئے اورکھانا بچ بھی گیا۔ آخر میں آپ نے(جابر کی بیوی سے) فرمایا کہ اب یہ کھانا تم خود کھاؤ اورلوگوں کے یہاں ہدیہ میں بھیجو، کیونکہ لوگ آج کل فاقہ میں مبتلا ہیں۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں غزوہ خندق کھودنے کا ذکر ہےمگر اوربھی بہت سے امور بیان میں آگئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے شدت بھو ک سے پیٹ پرپتھر باندھنے کابھی صاف لفظوں میں ذکرہے۔ بعض لوگوں نے پتھر باندھنے کی تاویل کی ہے۔ کھانےمیں برکت کا ہونا رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا جن کا توآپ سےبارہا ظہور ہواہے۔ یہی حضرت جابر ہیں جواپنے والد کی شہادت کےبعد قرض خواہوں کا قر ض چکانےکےلیے رسو ل کریمﷺ سےدعاؤں کےطالب ہوئےتھے۔ اس سلسلہ میں جب آپ گھر تشریف لائے اورواپس جانےلگے توجابر کےمنع کرنےکے باجود ان کی بیوی نے درخواست کی تھی کہ یارسول اللہ(ﷺ) میرے خاوند کےلیے دعائے خیر کر جائیے۔ آ پ نےدونوں کےلیے دعا کی تھی اوراس عورت نےکہا تھا کہ آپ ہمارے گھر میں تشریف لائیں اور یہ کیونکہ ممکن ہےکہ ہم آپ سےدعا کےطالب بھی نہ ہوں۔ (فتح)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): We were digging (the trench) on the day of (Al-Khandaq ( i.e. Trench )) and we came across a big solid rock. We went to the Prophet (ﷺ) and said, "Here is a rock appearing across the trench." He said, "I am coming down." Then he got up, and a stone was tied to his belly for we had not eaten anything for three days. So the Prophet (ﷺ) took the spade and struck the big solid rock and it became like sand. I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Allow me to go home." (When the Prophet (ﷺ) allowed me) I said to my wife, "I saw the Prophet (ﷺ) in a state that I cannot treat lightly. Have you got something (for him to eat?" She replied, "I have barley and a she goat." So I slaughtered the she-kid and she ground the barley; then we put the meat in the earthenware cooking pot. Then I came to the Prophet (ﷺ) when the dough had become soft and fermented and (the meat in) the pot over the stone trivet had nearly been well-cooked, and said, "I have got a little food prepared, so get up O Allah's Apostle, you and one or two men along with you (for the food)." The Prophet (ﷺ) asked, "How much is that food?" I told him about it. He said, "It is abundant and good. Tell your wife not to remove the earthenware pot from the fire and not to take out any bread from the oven till I reach there." Then he said (to all his companions), "Get up." So the Muhajirn (i.e. Emigrants) and the Ansar got up. When I came to my wife, I said, "Allah's Mercy be upon you! The Prophet (ﷺ) came along with the Muhajirin and the Ansar and those who were present with them." She said, "Did the Prophet (ﷺ) ask you (how much food you had)?" I replied, "Yes." Then the Prophet (ﷺ) said, "Enter and do not throng." The Prophet (ﷺ) started cutting the bread (into pieces) and put the cooked meat over it. He covered the earthenware pot and the oven whenever he took something out of them. He would give the food to his companions and take the meat out of the pot. He went on cutting the bread and scooping the meat (for his companions) till they all ate their fill, and even then, some food remained. Then the Prophet (ﷺ) said (to my wife), "Eat and present to others as the people are struck with hunger."