Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of Al-Hudaibiya)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفتح میں) ارشاد ”بیشک اللہ تعالیٰ مومنین سے راضی ہو گیا جب انہوں نے آپ سے درخت کے نیچے بیعت کی۔“
4176.
ابو حمزہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عائذ بن عمرو ؓ سے وتر توڑنے کے متعلق سوال کیا، اور وہ نبی ﷺ کے اصحاب اور بیعت رضوان کرنے والوں سے ہیں، انہوں نے فرمایا: جب تم نے رات کے پہلے حصے میں وتر پڑھ لیے ہیں تو پھر رات کے آخری حصے میں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ حضرت عائذ بن عمرو ؓ اصحاب شجرہ سے ہیں اور انھوں نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی۔ 2۔ چونکہ اس حدیث میں نقص وتر کا مسئلہ بیان ہوا ہے، اس مناسبت سے ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں: اگر کوئی نماز عشاء کے بعد وتر پڑھ لے اور سوجائے، پھر رات کے کسی حصے میں بیدار ہوکرتہجد پڑھنا چاہے توپہلے سے ادا کردہ وتروں کی تعداد کو ایک رکعت پڑھ کر جفت کرنا نقض وتر کہلاتا ہے۔ صحابہ کرام ؓ میں نقص وتر کے متعلق اختلاف تھا۔ کچھ حضرات اس کے قائل تھے اور اکثریت اس کے خلاف تھی، چنانچہ امام ترمذی ؒ لکھتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کرام ؓ اور ان کے بعد کچھ تابعین ؒ نقض وتر کے قائل تھے۔ وہ اس طرح کہ دوبارہ بیدار ہوکر ایک رکعت پڑھے اور اسے ادا شدہ وتروں سے ملا دیا جائے، پھر جس قدر نوافل میسر ہوں پڑھ لیے جائیں، ان کے اختتام پر وتر ادا کرلیے جائیں کیونکہ حدیث میں ہے: ’’ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے۔‘‘ اس کے برعکس کچھ اہل علم صحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ کا موقف ہے کہ اگر کوئی عشاء کے بعد وترپڑھ کرسوجائے پھر رات کے کسی حصے میں بیدار ہوتوحسب توفیق نفل پڑھتا رہے۔ اسے نقض وتر کی ضروررت نہیں بلکہ اس کے پہلے سے اداشدہ وتر ہی برقرار ہیں، اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ یہ آخری موقف زیادہ صحیح ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے نماز وتر کے بعد نفل ادا کرنا ثابت ہے۔ اس کے بعد امام ترمذی ؒ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتروں کے بعد رورکعت پڑھتے تھے۔ (جامع الترمذي، الوتر ، باب 13 ماجاء لا وتران في لیلة) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کسی وتر کے متعلق سوال کیا توآپ نے فرمایا: اگر میں سونے سے پہلے وترپڑھ لوں، پھر بیدار ہوکر نفل پڑھنا چاہوں تو اپنے پہلے ادا کردہ وتروں کو ایک رکعت پڑھ کر جفت کرلیتا ہوں، پھر دورکعت نماز ادا کرتا ہوں۔ آخر میں ایک رکعت پڑھتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تمہاری رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے۔‘‘ (مسند أحمد:135/2) حضرت مسروق ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے نقض وتر کے متعلق سوال کیا توآپ نے فرمایا: میرے پاس اس سلسلے میں کوئی روایت نہیں بلکہ اپنے اجتہاد سے کام لے کر ایسا کرتا ہوں۔ حضرت مسروق ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھی اس عمل پر بہت تعجب کیا کرتے تھے۔ (مختصر قیام اللیل:ص:220) حضرت ابن عباس ؓ کے پاس جب نقض وترکا ذکر ہواتوآپ نے فرمایا: نقض وتر کرنے والا وتروں سے کھیلتا ہے، نیز آپ نے فرمایا: اس طرح تورات میں تین دفعہ پڑھے جاتے ہیں، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے رات میں دو فعہ وترپڑھنے سے منع فرمایا ہے، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جو لوگ نقض وتر کرتے ہیں وہ گویا اپنی نماز کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ (مختصر قیام اللیل، ص:221) اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہےکہ اگر کسی نے رات کے پہلےحصے میں وتر پڑھ لیے ہیں تو اگررات کے پچھلے حصے میں نفل پڑھنے کے لیے وقت میسر آئے تو اسے مزید نفل پڑھنے کی اجازت ہے۔ وہ نہ تو نقض وتر کرے اور نہ دوبارہ وتر ہی ادا کرے۔ حضرت عائذ بن عمرو ؓ نے مذکورہ حدیث میں اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا تفصیلی فتوی ضرور ملاحظہ کیا جائے جو ہم نے ہفت روزہ اہل حدیث میں لکھا تھا، جسے کتابی شکل میں الگ شائع کیا گیا ہے۔ (فتاویٰ أصحاب الحدیث:147/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4015
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4176
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4176
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4176
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
حدیبیہ،مکہ مکرمہ کے قریب ایک چشمے کانام ہے۔غزوہ خندق کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سمیت اس مقام پر پڑاؤ کیا تھا۔آ پ عمرے کی نیت سے آئے تھے لیکن کفار قریش نے آپ کو عمرہ نہ کرنے دیا۔مقام حدیبیہ میں درخت کے نیچے آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بیعت لی تھی،جوبیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔مذکورہ آیت کریمہ اسی موقع پر نازل ہوئی۔واللہ اعلم۔
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفتح میں) ارشاد ”بیشک اللہ تعالیٰ مومنین سے راضی ہو گیا جب انہوں نے آپ سے درخت کے نیچے بیعت کی۔“
حدیث ترجمہ:
ابو حمزہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عائذ بن عمرو ؓ سے وتر توڑنے کے متعلق سوال کیا، اور وہ نبی ﷺ کے اصحاب اور بیعت رضوان کرنے والوں سے ہیں، انہوں نے فرمایا: جب تم نے رات کے پہلے حصے میں وتر پڑھ لیے ہیں تو پھر رات کے آخری حصے میں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ حضرت عائذ بن عمرو ؓ اصحاب شجرہ سے ہیں اور انھوں نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی۔ 2۔ چونکہ اس حدیث میں نقص وتر کا مسئلہ بیان ہوا ہے، اس مناسبت سے ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں: اگر کوئی نماز عشاء کے بعد وتر پڑھ لے اور سوجائے، پھر رات کے کسی حصے میں بیدار ہوکرتہجد پڑھنا چاہے توپہلے سے ادا کردہ وتروں کی تعداد کو ایک رکعت پڑھ کر جفت کرنا نقض وتر کہلاتا ہے۔ صحابہ کرام ؓ میں نقص وتر کے متعلق اختلاف تھا۔ کچھ حضرات اس کے قائل تھے اور اکثریت اس کے خلاف تھی، چنانچہ امام ترمذی ؒ لکھتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کرام ؓ اور ان کے بعد کچھ تابعین ؒ نقض وتر کے قائل تھے۔ وہ اس طرح کہ دوبارہ بیدار ہوکر ایک رکعت پڑھے اور اسے ادا شدہ وتروں سے ملا دیا جائے، پھر جس قدر نوافل میسر ہوں پڑھ لیے جائیں، ان کے اختتام پر وتر ادا کرلیے جائیں کیونکہ حدیث میں ہے: ’’ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے۔‘‘ اس کے برعکس کچھ اہل علم صحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ کا موقف ہے کہ اگر کوئی عشاء کے بعد وترپڑھ کرسوجائے پھر رات کے کسی حصے میں بیدار ہوتوحسب توفیق نفل پڑھتا رہے۔ اسے نقض وتر کی ضروررت نہیں بلکہ اس کے پہلے سے اداشدہ وتر ہی برقرار ہیں، اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ یہ آخری موقف زیادہ صحیح ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے نماز وتر کے بعد نفل ادا کرنا ثابت ہے۔ اس کے بعد امام ترمذی ؒ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتروں کے بعد رورکعت پڑھتے تھے۔ (جامع الترمذي، الوتر ، باب 13 ماجاء لا وتران في لیلة) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کسی وتر کے متعلق سوال کیا توآپ نے فرمایا: اگر میں سونے سے پہلے وترپڑھ لوں، پھر بیدار ہوکر نفل پڑھنا چاہوں تو اپنے پہلے ادا کردہ وتروں کو ایک رکعت پڑھ کر جفت کرلیتا ہوں، پھر دورکعت نماز ادا کرتا ہوں۔ آخر میں ایک رکعت پڑھتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تمہاری رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے۔‘‘ (مسند أحمد:135/2) حضرت مسروق ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے نقض وتر کے متعلق سوال کیا توآپ نے فرمایا: میرے پاس اس سلسلے میں کوئی روایت نہیں بلکہ اپنے اجتہاد سے کام لے کر ایسا کرتا ہوں۔ حضرت مسروق ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھی اس عمل پر بہت تعجب کیا کرتے تھے۔ (مختصر قیام اللیل:ص:220) حضرت ابن عباس ؓ کے پاس جب نقض وترکا ذکر ہواتوآپ نے فرمایا: نقض وتر کرنے والا وتروں سے کھیلتا ہے، نیز آپ نے فرمایا: اس طرح تورات میں تین دفعہ پڑھے جاتے ہیں، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے رات میں دو فعہ وترپڑھنے سے منع فرمایا ہے، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جو لوگ نقض وتر کرتے ہیں وہ گویا اپنی نماز کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ (مختصر قیام اللیل، ص:221) اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہےکہ اگر کسی نے رات کے پہلےحصے میں وتر پڑھ لیے ہیں تو اگررات کے پچھلے حصے میں نفل پڑھنے کے لیے وقت میسر آئے تو اسے مزید نفل پڑھنے کی اجازت ہے۔ وہ نہ تو نقض وتر کرے اور نہ دوبارہ وتر ہی ادا کرے۔ حضرت عائذ بن عمرو ؓ نے مذکورہ حدیث میں اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا تفصیلی فتوی ضرور ملاحظہ کیا جائے جو ہم نے ہفت روزہ اہل حدیث میں لکھا تھا، جسے کتابی شکل میں الگ شائع کیا گیا ہے۔ (فتاویٰ أصحاب الحدیث:147/1)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی: "بلاشبہ یقینا اللہ تعالٰی اہل ایمان سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے ۔۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن حاتم بن زریع نے بیان کیا‘ کہا ہم سے شاذان (اسود بن عامر) نے‘ ان سے شعبہ نے‘ ان سے ابو حمزہ نے بیان کیا کہ انہوں نے عائذ بن عمرو ؓ سے پوچھا‘ وہ نبی کریم ﷺ کے صحابی تھے اور بیعت رضوان میں شریک تھے کہ کیا وتر کی نماز (ایک رکعت اور پڑھ کر) توڑی جا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر شروع رات میں تو نے وتر پڑھ لیا ہو تو آخر رات میں نہ پڑھو۔
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب فرما تے ہیں۔ یعني إذا اوتر المرءثم نام أراد أن یتطوع صلی یصلي رکعة لیصیر الوتر شفعا ثم یتطوع ما شاءثم یوتر محافظة علی قوله اجعلوا آخرصلاتکم باللیل وترا ویصلی تطوعا ما شاءولا ینقض وترہ ویکتفي بالذي تقدم فأجاب باختیار الصفة الثانیة فقال إذا أوترت من أوله فلا توتر من آخرہ وھذہ المسئلة فیھا السلف فکان ابن عمر یری نقض الوتر والصحیح عند الشافعیة أنه لا ینقض کما في حدیث الباب وھو قو ل المالکیة۔(فتح)یعنی مطلب یہ کہ جب آدمی سونے سے پہلے وتر پڑھ لے اور پھر رات کو اٹھ کر نفل پڑھنا چاہے تو کیا وہ ایک اور رکعت پڑھ کر پہلے وتر کو شفع (جوڑا) بنا سکتا ہے پھر اس کے بعد جس قدر چاہے نفل پڑھے اور آخر میں پھر وتر پڑھ لے۔ اس حدیث کی تعمیل کے لیے جس میں ارشاد ہے کہ رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے یا دوسری صورت یہ کہ وتر کو شفع بنا کر نہ توڑ ے بلکہ جس قدر چاہے رات کو اٹھ کر نفل نماز پڑھ لے اور وتر کے لیے پہلے ہی پڑھی ہوئی رکعت کو کافی سمجھے پس دوسری صورت کے اختیار کرنے کا جواب دیا ہے اور کہا کہ جب تم پہلے وتر پڑھ چکے تو اب دوبارہ ضرورت نہیں ہے۔ اس مسئلہ میں سلف کا اختلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ وتر کو دوبارہ توڑ کر پڑھنے کے قائل تھے اور شافعیہ کا قول صحیح یہی ہے کہ اسے نہ توڑا جائے جیسا کہ حدیث باب میں ہے۔ مالکیہ کا بھی یہی قول ہے۔واللہ اعلم۔ حضرت عائذ بن عمرو مدنی ؓ بیعت رضوان والوں میں سے ہیں۔ آخر میں بصرہ میں سکونت کرلی تھی۔ ان سے روایت کر نے والے زیادہ بصری ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Jamra (RA) : I asked Aidh bin Amr, who was one of the companions of the Prophet (ﷺ) one of those (who gave the allegiance to the Prophet (ﷺ) the Tree: "Can the Witr prayer be repeated (in one night)?" He said, "If you have offered it in the first part of the night, you should not repeat it in the last part 'of the night." (See Fateh-al-Bari page 458 Vol 8th).