Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The story of (the tribes of) ‘Ukl and ‘Uraina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4192.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے چند لوگ مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کلمہ توحید پڑھ کر اظہار اسلام کیا اور عرض کرنے لگے: اللہ کے نبی! ہم لوگ مویشی رکھتے ہیں، زرعی زمینوں والے نہیں ہیں۔ انہیں مدینہ طیبہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو رسول اللہ ﷺ نے کچھ اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور حکم دیا کہ شہر سے باہر کھلی فضا میں نکل جائیں اور ان اونٹوں کا دودھ اور پیشاب نوش کریں۔ وہ روانہ ہوئے لیکن حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے برگشتہ ہو گئے اور نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کو جب ان کی خبر ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے تعاقب میں بھیجا (جب وہ انہیں پکڑ کر لائے تو) آپ نے انہیں سزا دینے کا حکم دیا، چنانچہ ان کی آنکھوں میں گرم آہنی سلائیاں پھیری گئیں۔ ان کے ہاتھ کاٹ دئے گئے اور انہیں گرم پتھریلی زمین میں ڈال دیا گیا۔ آخر وہ اسی حالت میں مر گئے۔ قتادہ نے کہا: ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی ﷺ اس کے بعد صحابہ کرام ؓ کو صدقہ کرنے کی ترغیب دلایا کرتے اور مثلہ کرنے سے منع کرتے تھے۔ شعبہ، ابان اور حماد نے قتادہ سے بیان کیا کہ یہ لوگ قبیلہ عرینہ کے تھے۔ یحییٰ بن ابو کثیر اور ایوب نے ابو قلابہ کے ذریعے سے حضرت انس ؓ سے روایت کی کہ قبیلہ عکل کے چند لوگ آئے۔
تشریح:
1۔ عکل اور عرینہ کے لوگوں نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ تکلیف کے ساتھ اظہار اسلام کیا جیسا کہ روایت کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کی تعداد آٹھ تھی۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث:6899) جب وہ اونٹ لے کر بھاگنے لگے تو چرواہےنے مزاحمت کی، اس پر انھوں نے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے اور یہی وجہ ہے کہ ان ڈاکوؤں کے ساتھ بطور قصاص ہی کچھ کیا گیا جو انھوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا۔ جب وہ مدینہ طیبہ میں آئے تو مرض استقاء میں مبتلا ہو گئےرسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پینے کا نسخہ تجویز کیا۔ جب وہ تندرست ہو گئے تو انھوں نے مذکورہ گھناؤنی واردات کا ارتکاب کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے تقریباً بیس انصاری نوجوانوں کو ان کے تعاقب میں بھیجا اور ان کے ساتھ ایک کھوجی بھی روانہ کیا۔ (صحیح مسلم، القسامة والحاربین، حدیث:4353) حافظ ابن قیم ؒ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں بددعا فرمائی: ’’اے اللہ !عریینوں پر راستہ اندھا کردے اور اسے کنگن سے بھی زیادہ تنگ بنا دے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی چنانچہ ان پر راستہ تنگ ہو گیا۔ (زاد المعاد:286/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4028
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4192
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4192
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4192
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے چند لوگ مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کلمہ توحید پڑھ کر اظہار اسلام کیا اور عرض کرنے لگے: اللہ کے نبی! ہم لوگ مویشی رکھتے ہیں، زرعی زمینوں والے نہیں ہیں۔ انہیں مدینہ طیبہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو رسول اللہ ﷺ نے کچھ اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور حکم دیا کہ شہر سے باہر کھلی فضا میں نکل جائیں اور ان اونٹوں کا دودھ اور پیشاب نوش کریں۔ وہ روانہ ہوئے لیکن حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے برگشتہ ہو گئے اور نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کو جب ان کی خبر ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے تعاقب میں بھیجا (جب وہ انہیں پکڑ کر لائے تو) آپ نے انہیں سزا دینے کا حکم دیا، چنانچہ ان کی آنکھوں میں گرم آہنی سلائیاں پھیری گئیں۔ ان کے ہاتھ کاٹ دئے گئے اور انہیں گرم پتھریلی زمین میں ڈال دیا گیا۔ آخر وہ اسی حالت میں مر گئے۔ قتادہ نے کہا: ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی ﷺ اس کے بعد صحابہ کرام ؓ کو صدقہ کرنے کی ترغیب دلایا کرتے اور مثلہ کرنے سے منع کرتے تھے۔ شعبہ، ابان اور حماد نے قتادہ سے بیان کیا کہ یہ لوگ قبیلہ عرینہ کے تھے۔ یحییٰ بن ابو کثیر اور ایوب نے ابو قلابہ کے ذریعے سے حضرت انس ؓ سے روایت کی کہ قبیلہ عکل کے چند لوگ آئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ عکل اور عرینہ کے لوگوں نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ تکلیف کے ساتھ اظہار اسلام کیا جیسا کہ روایت کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کی تعداد آٹھ تھی۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث:6899) جب وہ اونٹ لے کر بھاگنے لگے تو چرواہےنے مزاحمت کی، اس پر انھوں نے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے اور یہی وجہ ہے کہ ان ڈاکوؤں کے ساتھ بطور قصاص ہی کچھ کیا گیا جو انھوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا۔ جب وہ مدینہ طیبہ میں آئے تو مرض استقاء میں مبتلا ہو گئےرسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پینے کا نسخہ تجویز کیا۔ جب وہ تندرست ہو گئے تو انھوں نے مذکورہ گھناؤنی واردات کا ارتکاب کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے تقریباً بیس انصاری نوجوانوں کو ان کے تعاقب میں بھیجا اور ان کے ساتھ ایک کھوجی بھی روانہ کیا۔ (صحیح مسلم، القسامة والحاربین، حدیث:4353) حافظ ابن قیم ؒ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں بددعا فرمائی: ’’اے اللہ !عریینوں پر راستہ اندھا کردے اور اسے کنگن سے بھی زیادہ تنگ بنا دے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی چنانچہ ان پر راستہ تنگ ہو گیا۔ (زاد المعاد:286/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبد الاعلی بن حماد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سعید نے بیان کیا‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ قبائل عکل وعرینہ کے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مدینہ آئے اور اسلام میں داخل ہو گئے‘ پھر انہوں نے کہا‘ اے اللہ کے نبی ! ہم لوگ مویشی رکھتے تھے‘ کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے‘ (اس لیے ہم صرف دودھ پر بسر اوقات کیا کرتے تھے) اور انہیں مدینہ کی آب وہوا نا موافق آئی تو آنحضرت ﷺ نے کچھ اونٹ اور چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور فرمایا کہ انہیں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پلاؤ (تو تمہیں صحت حاصل ہو جا ئے گی) وہ لوگ (چرا گاہ کی طرف) گئے‘ لیکن مقام حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے پھر گئے اور حضور اکرم ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگنے لگے۔ اس کی خبر جب حضور اکرم ﷺ کو ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے پیچھے دوڑایا۔ (وہ پکڑ کر مدینہ لائے گئے۔) تو حضور ﷺ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیئے گئے (کیونکہ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا) اور انہیں حرہ کے کنارے چھوڑدیا گیا۔ آخر وہ اسی حالت میں مر گئے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اس کے بعد صحابہ کو صدقہ کا حکم دیا اور مثلہ (مقتول کی لاش بگاڑنا یا ایذا دے کر اسے قتل کرنا) سے منع فرمایا اور شعبہ‘ ابان اور حماد نے قتادہ سے بیان کیا کہ (یہ لوگ) عرینہ کے قبیلے کے تھے (عکل کا نام نہیں لیا) اور یحییٰ بن ابی کثیر اور ایوب نے بیان کیا‘ ان سے ابو قلابہ نے اور ان سے انس ؓ نے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ آئے۔
حدیث حاشیہ:
چرواہے کا نام یسار النوبی ؓ تھا جب قبیلے والے مرتد ہو کر اونٹ لے کر بھاگنے لگے تو اس چرواہے نے مزاحمت کی۔ اس پر انہوں نے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے اور اس کی زبان اور آنکھ میں کانٹے گاڑ دیئے جس سے انہوں نے شہادت پائی۔ رضي اللہ عنه۔ اسی قصاص میں ان ڈاکوؤں کے ساتھ وہ کیا گیا جو روایت میں مذکور ہے۔ یہ ڈاکو ہر دو قبائل عکل اور عرینہ سے تعلق رکھتے تھے۔ حرہ پتھریلا میدان ہے جو مدینہ سے باہر ہے۔ وہ ڈاکو مرض استسقاء کے مریض تھے اس لیے آنحضرت ﷺ نے ان کے واسطے یہ نسخہ تجویز فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : Some people of the tribe of 'Ukl and 'Uraina arrived at Madinah to meet the Prophet (ﷺ) and embraced Islam and said, "O Allah's Prophet! We are the owners of milch livestock (i.e. bedouins) and not farmers (i.e. countrymen)." They found the climate of Madinah unsuitable for them. So Allah's Apostle (ﷺ) ordered that they should be provided with some milch camels and a shepherd and ordered them to go out of Madinah and to drink the camels' milk and urine (as medicine) So they set out and when they reached Al-Harra, they reverted to Heathenism after embracing Islam, and killed the shepherd of the Prophet (ﷺ) and drove away the camels. When this news reached the Prophet, he sent some people in pursuit of them. (So they were caught and brought back to the Prophet (ﷺ) ). The Prophet (ﷺ) gave his orders in their concern. So their eyes were branded with pieces of iron and their hands and legs were cut off and they were left away in Harra till they died in that state of theirs. (See Hadith 234 Vol 1)