Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa of Khaibar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4196.
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلے تو ہم رات بھر چلتے رہے۔ ایک آدمی نے حضرت عامر ؓ سے کہا: اے عامر! تم ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتے ہو؟ حضرت عامر ؓ شاعر تھے، اپنی سواری سے اتر کر حدی خوانی کرتے ہوئے یہ شعر سنانے لگے:گر نہ ہوتی تیری رحمت اے شاہ عالی صفات۔۔۔ تو نمازیں ہم نہ پڑھتے اور نہ دیتے ہم زکاۃ۔۔۔ تجھ پر صدقے جب تلک ہم زندہ رہیں؛ بخش دے ہم کو لڑائی میں عطا کر ثبات۔۔۔ اپنی رحمت ہم پہ نازل کر شہ والا صفات؛ جب وہ ناحق چیختے سنتے نہیں ہم ان کی بات۔۔۔ چیخ چلا کر انہوں نے ہم سے چاہی ہے نجات‘‘ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ’’یہ کون حدی خواں ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: حضرت عامر بن اکوع ؓ! آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔‘‘یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اب تو حضرت عامر ؓ کے لیے شہادت یا جنت لازم ہو گئی۔ کاش! آپ ہمیں ان سے مزید فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر ہم خیبر آئے اور اہل خیبر کا محاصرہ کر لیا۔ اس دوران میں ہمیں سخت بھوک لگی۔ آخر اللہ تعالٰی نے ہمیں فتح عطا فرمائی۔ جس دن خیبر فتح ہوا اس رات لوگوں نے جگہ جگہ آگ روشن کی تو نبی ﷺ نے پوچھا: ’’یہ کیسی آگ ہے؟‘‘ صحابہ کرام ؓ نے کہا: لوگ گوشت پکا رہے ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’کس جانور کا گوشت ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: پالتو گدھوں کا گوشت ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس گوشت کو پھینک دو اور ہنڈیوں کو توڑ دو۔‘‘ ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم (ایسا نہ کریں کہ) گوشت کو پھینک کر ہنڈیوں کو دھو لیں؟ آپ نے فرمایا: ’’یوں ہی کر لو۔‘‘ پھر جب قوم صف بندی کر چکی تو حضرت عامر ؓ نے اپنی تلوار جو چھوٹی تھی ایک یہودی کی پنڈلی پر ماری تو اس کی نوک پلٹ کر حضرت امر ؓ کے گھٹنے پر لگی۔ حضرت عامر ؓ اس زخم سے فوت ہو گئے۔ راوی کا بیان ہے کہ جب سب لوگ واپس آئے تو سلمہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے (مغموم) دیکھ کر میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! لوگ کہتے ہیں کہ عامر کی نیکیاں بے کار گئیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جھوٹا ہے وہ شخص جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے۔ حضرت عامر ؓ کو تو دوہرا اجر ملے گا۔۔ پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا۔۔ عامر نے تکلیف اور مشقت بھی اٹھائی اور اللہ کے راستے میں جہاد بھی کیا۔ شاید ہی کوئی ایسا عربی ہو جس نے ان جیسی مثال قائم کی ہو۔‘‘ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے حاتم نے بیان کیا: کوئی عرب مدینہ طیبہ میں عامر جیسا پیدا نہیں ہو۔
تشریح:
1۔ حضرت عامر ؓ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کے حقیقی چچا تھے۔ وہ رئیس خیبر مرحب کے مقابلے کے لیے نکلے تو ان کی تلوار خود ان کے ہاتھ سے ان کے گھٹنے پر لگی اور وہ اس زخم کی تاب نہ لا کر شہید ہو گئے حضرت اسید خضیر ؓ کے ساتھ اور لوگوں نے ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ظاہر کیا اور کہا کہ ان کے عمل تو ضائع ہو گئے۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث:6891) ان باتوں کا اثر حضرت سلمہ بن اکوع ؓ پر ہوا انھوں نے پریشانی کے عالم میں اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے لوگوں کی اصلاح کے لیے حضرت عامر ؓ کی فضیلت کا اظہار ضروری خیال کیا۔ 2۔ حضرت عامر ؓ نے جو اشعار پڑھے ہیں وہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہیں جو انھوں نے غزوہ خندق کے موقع پر پڑھے تھے لیکن اس حدیث میں ان اشعار کی نسبت حضرت عامر ؓ کی طرف کی گئی ہے یہ سرقہ نہیں بلکہ خیالات کی موافقت ہے۔ ممکن ہے کہ اشعار تو عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہوں لیکن حضرت عامر ؓ نے انھیں یاد کر لیا تھا اس لیے ان کی طرف منسوب کر دیے گے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں ممکن ہے کہ ان اشعار میں دونوں شعراء کا مضمون ملتا جلتا ہو کیونکہ دونوں کے اشعار میں کمی بیشی ہے۔ ایک کے اشعار کے کچھ ابیات ایسے ہیں جو دوسرے کے اشعار میں نہیں ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عامر ؓ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے اشعار سے مددلی ہو۔ (فتح الباري:7/580) 3۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عامر ؓ نے جب اشعار پڑھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عامر! تیرا پروردگار تجھے بخش دے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجهاد،حدیث:4678۔(1807) ) رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے یوں فرماتے تو وہ جنگ میں ضرور شہید ہو جاتا۔ حضرت عمر ؓ اس وقت اونٹ پر سوار تھے انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے دعائیہ کلمات سن کر عرض کی:اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ نے ہمیں ان سے مزید فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا۔ (فتح الباري:582/7) 4۔ چونکہ اس حدیث میں غزوہ خیبر کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4032
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4196
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4196
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4196
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
خیبر ایک بہت بڑا شہر ہے جو عمالقہ قوم خیبر نامی شخص کی یہاں اقامت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس میں بہت سے قلعے ہیں۔ یہ زرعی علاقہ اور زرخیز خطہ مدینہ طیبہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے 184کلو میٹر پر واقع ہے۔ اس مقام پر یہودی آباد تھے۔ آئے دن وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز محاصرہ کرنے کے بعد اسے فتح کر لیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غزوہ خیبر سے متعلقہ احادیث اس عنوان کے تحت بیان کی ہیں۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلے تو ہم رات بھر چلتے رہے۔ ایک آدمی نے حضرت عامر ؓ سے کہا: اے عامر! تم ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتے ہو؟ حضرت عامر ؓ شاعر تھے، اپنی سواری سے اتر کر حدی خوانی کرتے ہوئے یہ شعر سنانے لگے: گر نہ ہوتی تیری رحمت اے شاہ عالی صفات۔۔۔ تو نمازیں ہم نہ پڑھتے اور نہ دیتے ہم زکاۃ۔۔۔ تجھ پر صدقے جب تلک ہم زندہ رہیں؛ بخش دے ہم کو لڑائی میں عطا کر ثبات۔۔۔ اپنی رحمت ہم پہ نازل کر شہ والا صفات؛ جب وہ ناحق چیختے سنتے نہیں ہم ان کی بات۔۔۔ چیخ چلا کر انہوں نے ہم سے چاہی ہے نجات‘‘ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ’’یہ کون حدی خواں ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: حضرت عامر بن اکوع ؓ! آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اب تو حضرت عامر ؓ کے لیے شہادت یا جنت لازم ہو گئی۔ کاش! آپ ہمیں ان سے مزید فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر ہم خیبر آئے اور اہل خیبر کا محاصرہ کر لیا۔ اس دوران میں ہمیں سخت بھوک لگی۔ آخر اللہ تعالٰی نے ہمیں فتح عطا فرمائی۔ جس دن خیبر فتح ہوا اس رات لوگوں نے جگہ جگہ آگ روشن کی تو نبی ﷺ نے پوچھا: ’’یہ کیسی آگ ہے؟‘‘ صحابہ کرام ؓ نے کہا: لوگ گوشت پکا رہے ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’کس جانور کا گوشت ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: پالتو گدھوں کا گوشت ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس گوشت کو پھینک دو اور ہنڈیوں کو توڑ دو۔‘‘ ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم (ایسا نہ کریں کہ) گوشت کو پھینک کر ہنڈیوں کو دھو لیں؟ آپ نے فرمایا: ’’یوں ہی کر لو۔‘‘ پھر جب قوم صف بندی کر چکی تو حضرت عامر ؓ نے اپنی تلوار جو چھوٹی تھی ایک یہودی کی پنڈلی پر ماری تو اس کی نوک پلٹ کر حضرت امر ؓ کے گھٹنے پر لگی۔ حضرت عامر ؓ اس زخم سے فوت ہو گئے۔ راوی کا بیان ہے کہ جب سب لوگ واپس آئے تو سلمہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے (مغموم) دیکھ کر میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! لوگ کہتے ہیں کہ عامر کی نیکیاں بے کار گئیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جھوٹا ہے وہ شخص جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے۔ حضرت عامر ؓ کو تو دوہرا اجر ملے گا۔۔ پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا۔۔ عامر نے تکلیف اور مشقت بھی اٹھائی اور اللہ کے راستے میں جہاد بھی کیا۔ شاید ہی کوئی ایسا عربی ہو جس نے ان جیسی مثال قائم کی ہو۔‘‘ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے حاتم نے بیان کیا: کوئی عرب مدینہ طیبہ میں عامر جیسا پیدا نہیں ہو۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت عامر ؓ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کے حقیقی چچا تھے۔ وہ رئیس خیبر مرحب کے مقابلے کے لیے نکلے تو ان کی تلوار خود ان کے ہاتھ سے ان کے گھٹنے پر لگی اور وہ اس زخم کی تاب نہ لا کر شہید ہو گئے حضرت اسید خضیر ؓ کے ساتھ اور لوگوں نے ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ظاہر کیا اور کہا کہ ان کے عمل تو ضائع ہو گئے۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث:6891) ان باتوں کا اثر حضرت سلمہ بن اکوع ؓ پر ہوا انھوں نے پریشانی کے عالم میں اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے لوگوں کی اصلاح کے لیے حضرت عامر ؓ کی فضیلت کا اظہار ضروری خیال کیا۔ 2۔ حضرت عامر ؓ نے جو اشعار پڑھے ہیں وہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہیں جو انھوں نے غزوہ خندق کے موقع پر پڑھے تھے لیکن اس حدیث میں ان اشعار کی نسبت حضرت عامر ؓ کی طرف کی گئی ہے یہ سرقہ نہیں بلکہ خیالات کی موافقت ہے۔ ممکن ہے کہ اشعار تو عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہوں لیکن حضرت عامر ؓ نے انھیں یاد کر لیا تھا اس لیے ان کی طرف منسوب کر دیے گے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں ممکن ہے کہ ان اشعار میں دونوں شعراء کا مضمون ملتا جلتا ہو کیونکہ دونوں کے اشعار میں کمی بیشی ہے۔ ایک کے اشعار کے کچھ ابیات ایسے ہیں جو دوسرے کے اشعار میں نہیں ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عامر ؓ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے اشعار سے مددلی ہو۔ (فتح الباري:7/580) 3۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عامر ؓ نے جب اشعار پڑھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عامر! تیرا پروردگار تجھے بخش دے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجهاد،حدیث:4678۔(1807) ) رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے یوں فرماتے تو وہ جنگ میں ضرور شہید ہو جاتا۔ حضرت عمر ؓ اس وقت اونٹ پر سوار تھے انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے دعائیہ کلمات سن کر عرض کی:اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ نے ہمیں ان سے مزید فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا۔ (فتح الباري:582/7) 4۔ چونکہ اس حدیث میں غزوہ خیبر کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ رات کے وقت ہمارا سفر جاری تھا کہ ایک صاحب (اسید بن حضیر) نے عامر سے کہا‘ عامر! اپنے کچھ شعر سناؤ‘ عامر شاعر تھے۔ اس فرمائش پر وہ سواری سے اتر کر حدی خوانی کر نے لگے۔ کہاـ ”اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا‘ نہ ہم صددقہ کر سکتے اور نہ ہم نماز پڑھ سکتے۔ پس ہماری جلدی مغفرت کر، جب تک ہم زندہ ہیں ہماری جانیں تیرے راستے میں فدا ہیں اور اگر ہماری مڈ بھیڑ ہوجائے تو ہمیں ثابت رکھ ہم پر سکینت نازل فرما، ہمیں جب (باطل کی طرف) بلایا جاتا ہے تو ہم انکار کر دیتے ہیں، آج چلا چلا کر وہ ہمارے خلاف میدان میں آ ئے ہیں ۔“ حضور ﷺ نے فرمایا کون شعرکہہ رہا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ عامر بن اکوع ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا‘ اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ صحابہ ؓ نے عر ض کیا، یا رسول اللہ ! آپ نے تو انہیں شہادت کا مستحق قرار دے دیا‘ کاش! ابھی اور ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر ہم خیبر آئے اور قلعہ کا محاصرہ کیا‘ اس کے دوران ہمیں سخت تکالیف اور فاقوں سے گزرنا پڑا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی‘ جس دن قلعہ فتح ہونا تھا‘ اس کی رات جب ہوئی تو لشکر میں جگہ جگہ آگ جل رہی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا یہ آگ کیسی ہے‘ کس چیز کے لیے اسے جگہ جگہ جلا رکھا ہے؟ صحا بہ ؓ بولے کہ گوشت پکانے کے لیے‘ آپ نے دریافت فرمایا کہ کس جانور کا گوشت ہے؟ صحابہ ؓم نے بتایا کہ پالتو گدھوں کا‘ انحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمام گوشت پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ دو۔ ایک صحابی ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ایسا نہ کرلیں کہ گوشت تو پھینک دیں اور ہانڈیوں کو دھولیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ یوں ہی کرلو پھر (دن میں جب صحابہ ؓم نے جنگ کے لیے) صف بندی کی تو چونکہ حضرت عامر ؓ کی تلوار چھوٹی تھی‘ اس لیے انہوں نے جب ایک یہودی کی پنڈلی پر (جھک کر) وار کرنا چاہا تو خود انہیں کی تلوار کی دھار سے انکے گھٹنے کا اوپر کا حصہ زخمی ہو گیا اور ان کی شہادت اسی میں ہو گئی۔ بیان کیا کہ پھر جب لشکرواپس ہورہا تھا تو سلمہ بن اکوع ؓ کا بیا ن ہے کہ مجھے حضور ﷺ نے دیکھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا‘ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا‘ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عامر ؓ کا سارا عمل اکارت ہوگیا (کیونکہ خود اپنی ہی تلوار سے ان کی وفات ہوئی) حضور ﷺ نے فرمایا جھوٹا ہے وہ شخص جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے‘ انہیں تو دوہرا اجر ملے گا پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا‘ انہوں نے تکلیف اور مشقت بھی اٹھائی اور اللہ کے راستے میں جہاد بھی کیا‘ شاید ہی کوئی عربی ہو، جس نے ان جیسی مثال قائم کی ہو۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں جنگ خیبر کے کچھ مناظر بیان ہوئے ہیں یہی باب سے وجہ مطابقت ہے۔ عامر ؓ شہید جن کا ذکر ہوا ہے رئیس خیبر مرحب نامی کے مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ ان کی تلوار خود ان ہی کے ہاتھ ان کے گھٹنے میں لگی اور وہ شہید ہو گئے۔ بعض لوگوں کو ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ہوا جس کی اصلاح کے لیے رسول کریم ﷺ کو عامر ؓ کی فضیلت کا اظہار ضروری ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salama bin Al-Akwa (RA) : We went out to Khaibar in the company of the Prophet. While we were proceeding at night, a man from the group said to 'Amir, "O 'Amir! Won't you let us hear your poetry?" 'Amir was a poet, so he got down and started reciting for the people poetry that kept pace with the camels' footsteps, saying:-- "O Allah! Without You we Would not have been guided On the right path Neither would be have given In charity, nor would We have prayed. So please forgive us, what we have committed (i.e. our defects); let all of us Be sacrificed for Your Cause And send Sakina (i.e. calmness) Upon us to make our feet firm When we meet our enemy, and If they will call us towards An unjust thing, We will refuse. The infidels have made a hue and Cry to ask others' help Against us." The Prophet (ﷺ) on that, asked, "Who is that (camel) driver (reciting poetry)?" The people said, "He is 'Amir bin Al-Akwa'." Then the Prophet (ﷺ) said, "May Allah bestow His Mercy on him." A man amongst the people said, "O Allah's Prophet! has (martyrdom) been granted to him. Would that you let us enjoy his company longer." Then we reached and besieged Khaibar till we were afflicted with severe hunger. Then Allah helped the Muslims conquer it (i.e. Khaibar). In the evening of the day of the conquest of the city, the Muslims made huge fires. The Prophet (ﷺ) said, "What are these fires? For cooking what, are you making the fire?" The people replied, "(For cooking) meat." He asked, "What kind of meat?" They (i.e. people) said, "The meat of donkeys." The Prophet (ﷺ) said, "Throw away the meat and break the pots!" Some man said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall we throw away the meat and wash the pots instead?" He said, "(Yes, you can do) that too." So when the army files were arranged in rows (for the clash), 'Amir's sword was short and he aimed at the leg of a Jew to strike it, but the sharp blade of the sword returned to him and injured his own knee, and that caused him to die. When they returned from the battle, Allah's Apostle (ﷺ) saw me (in a sad mood). He took my hand and said, "What is bothering you?" I replied, "Let my father and mother be sacrificed for you! The people say that the deeds of 'Amir are lost." The Prophet (ﷺ) said, "Whoever says so, is mistaken, for 'Amir has got a double reward." The Prophet (ﷺ) raised two fingers and added, "He (i.e. Amir) was a persevering struggler in the Cause of Allah and there are few 'Arabs who achieved the like of (good deeds) 'Amir had done."