Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa of Khaibar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4205.
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ جنگ حنین میں تھے۔ ابن مبارک نے یونس کے ذریعے سے امام زہری سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ صالح نے زہری سے روایت کرنے میں ابن مبارک کی متابعت کی ہے۔ زبیدی نے کہا: مجھے زہری نے خبر دی کہ عبدالرحمٰن بن کعب نے ان سے بیان کیا، ان سے عبیدالہ بن کعب نے، انہوں نے کہا: مجھے اس صحابی نے بتایا جو غزوہ خیبر میں نبی ﷺ کے ساتھ موجود تھے۔ زہری نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ اور سعید بن مسیب نے نبی ﷺ سے خبر دی۔
تشریح:
1۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اس کلمے کو بطور وظیفہ پڑھ رہے تھے، یا لوگوں کے چلانے اور شور مچانے کی وجہ سے اسے پڑھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کلمے کو جنت کا خزانہ قراردیاہے کیونکہ اس میں اپنی قوت واستطاعت کی مطلق طورپر نفی ہے اوراللہ کی طرف اس کی نسبت بطورحصر ہے کہ زمین وآسمان کی بادشاہت میں اللہ کی قوت کےعلاوہ اور کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ بندے کی طرف سے اس قسم کا اعتراف وہ مقام عبودیت ہے جو بندے کے لیے خصوصی مقام اور اعلیٰ عبادت ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں تمام اُمور اللہ تعالیٰ کےسپرد کیے جاتے ہیں اور بندہ انتہائی عاجزی کے ساتھ اقرارکرتا ہے کہ وہ اپنے کسی کام کا مالک نہیں۔ اس کلمے کو بطور مجاز جنت کا خزانہ قراردیاگیا ہے کہ اسے پڑھنے سے جنت کے خزانے حاصل ہوں گے یا حقیقی معنی ہیں کہ یہ کلمہ قیامت کے دن جنت کا خزانہ بن جائے گا کیونکہ جو چیز دنیا میں مرغوب فیہا ہے وہ آخرت کے اعتبار سے خزانہ ہے، اس لیے ممکن ہے کہ یہ کلمہ ہی خزانہ ہو۔ 2۔ اس حدیث کےسیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ واقعہ خیبر جاتے ہوئے پیش آیا، حالانکہ یہ واقعہ خیبر سے واپسی کا ہے کیونکہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ فتح خیبر کے بعد حضرت جعفر طیار ؓ کے ہمراہ حبشے سےواپس آئے تھے جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے، گویا مذکورہ حدیث میں کچھ عبارت حذف ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ خیبر کی طرف متوجہ ہوئے، اس کا محاصرہ کیا، پھر اس فتح کرنے کے بعد واپس لوٹے تو لوگ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھے اور انھوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔۔۔ (فتح الباري:587/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4042
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4205
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4202
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4205
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
خیبر ایک بہت بڑا شہر ہے جو عمالقہ قوم خیبر نامی شخص کی یہاں اقامت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس میں بہت سے قلعے ہیں۔ یہ زرعی علاقہ اور زرخیز خطہ مدینہ طیبہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے 184کلو میٹر پر واقع ہے۔ اس مقام پر یہودی آباد تھے۔ آئے دن وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز محاصرہ کرنے کے بعد اسے فتح کر لیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غزوہ خیبر سے متعلقہ احادیث اس عنوان کے تحت بیان کی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ جنگ حنین میں تھے۔ ابن مبارک نے یونس کے ذریعے سے امام زہری سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ صالح نے زہری سے روایت کرنے میں ابن مبارک کی متابعت کی ہے۔ زبیدی نے کہا: مجھے زہری نے خبر دی کہ عبدالرحمٰن بن کعب نے ان سے بیان کیا، ان سے عبیدالہ بن کعب نے، انہوں نے کہا: مجھے اس صحابی نے بتایا جو غزوہ خیبر میں نبی ﷺ کے ساتھ موجود تھے۔ زہری نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ اور سعید بن مسیب نے نبی ﷺ سے خبر دی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اس کلمے کو بطور وظیفہ پڑھ رہے تھے، یا لوگوں کے چلانے اور شور مچانے کی وجہ سے اسے پڑھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کلمے کو جنت کا خزانہ قراردیاہے کیونکہ اس میں اپنی قوت واستطاعت کی مطلق طورپر نفی ہے اوراللہ کی طرف اس کی نسبت بطورحصر ہے کہ زمین وآسمان کی بادشاہت میں اللہ کی قوت کےعلاوہ اور کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ بندے کی طرف سے اس قسم کا اعتراف وہ مقام عبودیت ہے جو بندے کے لیے خصوصی مقام اور اعلیٰ عبادت ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں تمام اُمور اللہ تعالیٰ کےسپرد کیے جاتے ہیں اور بندہ انتہائی عاجزی کے ساتھ اقرارکرتا ہے کہ وہ اپنے کسی کام کا مالک نہیں۔ اس کلمے کو بطور مجاز جنت کا خزانہ قراردیاگیا ہے کہ اسے پڑھنے سے جنت کے خزانے حاصل ہوں گے یا حقیقی معنی ہیں کہ یہ کلمہ قیامت کے دن جنت کا خزانہ بن جائے گا کیونکہ جو چیز دنیا میں مرغوب فیہا ہے وہ آخرت کے اعتبار سے خزانہ ہے، اس لیے ممکن ہے کہ یہ کلمہ ہی خزانہ ہو۔ 2۔ اس حدیث کےسیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ واقعہ خیبر جاتے ہوئے پیش آیا، حالانکہ یہ واقعہ خیبر سے واپسی کا ہے کیونکہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ فتح خیبر کے بعد حضرت جعفر طیار ؓ کے ہمراہ حبشے سےواپس آئے تھے جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے، گویا مذکورہ حدیث میں کچھ عبارت حذف ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ خیبر کی طرف متوجہ ہوئے، اس کا محاصرہ کیا، پھر اس فتح کرنے کے بعد واپس لوٹے تو لوگ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھے اور انھوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔۔۔ (فتح الباري:587/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبد الواحد نے بیان کیا‘ ان سے عاصم نے‘ ان سے ابو عثمان نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر پر لشکر کشی کی یا یوں بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ (خیبر کی طرف) روانہ ہوئے تو (راستے میں) لوگ ایک وادی میں پہنچے اور بلند آواز کے ساتھ تکبیر کہنے لگے اللہ اکبر اللہ اکبر لااله الا اللہ (اللہ سب سے بلند وبرتر ہے‘ اللہ سب سے بلندوبرتر ہے‘ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔) حضور ﷺ نے فرمایا اپنی جانوں پر رحم کرو‘ تم کسی بہرے کو یا ایسے شخص کو نہیں پکار رہے ہو‘ جو تم سے دور ہو‘ جسے تم پکار رہے ہو وہ سب سے زیادہ سننے والا اور تمہارے بہت نزدیک ہے بلکہ وہ تمہارے ساتھ ہے۔ میں حضور اکرم ﷺ کی سواری کے پیچھے تھا۔ میں نے جب لا حول ولا قوة الا باللہ کہا تو حضور ﷺ نے سن لیا‘ آپ نے فرمایا‘ عبد اللہ بن قیس! میں نے کہا لبیك یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا‘ کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ بتادوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ میں نے عرض کیا ضرور بتایئے‘ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ کلمہ یہی ہے۔ لاحول ولا قوة الا باللہ یعنی گناہوں سے بچنا اور نیکی کرنا یہ اسی وقت ممکن ہے‘ جب اللہ کی مدد شامل ہو۔
حدیث حاشیہ:
جنگ خیبر کے لیے اسلامی فوج کی روانگی کا ایک منظر اس روایت میں پیش کیا گیا ہے اور باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ ذکر الہی کے لیے چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ نام نہاد صوفیوں میں ذکر باجہر کا ایک وظیفہ مروج ہے۔ زور زور سے کلمہ کی ضرب لگاتے ہیں۔ اس قدر چیخ کر کہ سننے والوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس حدیث سے ان کی بھی مذمت ثابت ہوئی۔ جس جگہ شارع ؑ نے جہر کی اجازت دی ہے وہاں جہر ہی افضل ہے جیسے اذان پنچ وقتہ جہری کے ساتھ مطلوب ہے یا جہری نمازوں میں سورة فاتحہ کے بعد مقتدی اور امام ہر دو کے لیے آمین بالجہر کہنا۔ یہ رسول کریم ﷺ کی سنت ہے غرض ہر جگہ تعلیمات محمدی کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa Al-Ashari (RA) : When Allah's Apostle (ﷺ) fought the battle of Khaibar, or when Allah's Apostle (ﷺ) went towards it, (whenever) the people, (passed over a high place overlooking a valley, they raised their voices saying, "Allahu-Akbar! Allahu-Akbar! None has the right to be worshipped except Allah." On that Allah's Apostle (ﷺ) said (to them), "Lower your voices, for you are not calling a deaf or an absent one, but you are calling a Hearer Who is near and is with you." I was behind the riding animal of Allah's Apostle (ﷺ) and he heard me saying. "There Is neither might, nor power but with Allah," On that he said to me, "O Abdullah bin Qais (RA) !" I said, "Labbaik. O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said, "Shall I tell you a sentence which is one of the treasures of Paradise" I said, "Yes, O Allah's Apostle (ﷺ) ! Let my father and mother be sacrificed for your sake." He said, "It is: There is neither might nor power but with Allah."