Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa of Khaibar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4209.
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ خیبر کی جنگ میں حضرت علی ؓ نبی ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے کیونکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ انہوں نے دل میں کہا کہ میں نبی ﷺ سے پیچھے رہ جاؤں گا، اس لیے بعد میں وہ بھی آ گئے۔ جس رات خیبر فتح ہوا تھا، اس رات آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا یا علم وہ شخص پکڑے گا جسے اللہ اور اس کے رسول عزیز رکھتے ہیں اور اس کے ہاتھوں خیبر فتح ہو گا۔‘‘ ہم سب لوگ اس سعادت کے امیدوار تھے۔ اچانک کہا گیا: وہ علی ؓ آ گئے ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے انہیں جھنڈا عطا فرمایا، پھر ان کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا۔
تشریح:
1۔ خیبر کی آبادی دوحصوں پرمشتمل تھی۔ ایک حصے میں حسب ذیل پانچ قلعے تھے۔ 1۔ حصن ناعم۔ 2۔ حصن صعب بن معاد۔ 3۔ حصن زبیر۔ 4۔ حصن ابی۔ 5۔ حصن نزار۔ دوسرے حصے میں حسب ذیل تین قلعے تھے۔ 1۔ حصن قموص۔ 2۔ حصن وطیح۔ 3۔ حصن سلالم۔ ان آٹھ قلعوں کے علاوہ مزید قلعے اور گڑھیاں بھی تھیں مگر وہ چھوٹی تھیں اورقوت وحفاظت کے اعتبار سے ان قلعوں کے ہم پلہ نہ تھیں، جہاں تک جنگ کا تعلق ہے۔ وہ صرف پہلے حصے میں ہوئی، دوسرے حصے کے تینوں قلعے لڑنے والوں کی کثرت کے باوجود جنگ کےبغیر ہی مسلمانوں کے حوالے کردیے گئے۔ 2۔ حضرت بریدہ اسلمی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو جھنڈا دیا، وہ گئے لیکن فتح کیے بغیر واپس آگئے۔ اگلے دن حضرت عمر ؓ نے جھنڈا لیا لیکن وہ بھی اسے فتح نہ کرسکے۔ بالآخر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو جھنڈا دیا تو ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے خیبر فتح کیا۔ (مسند أحمد:354/5) 3۔ سب سے پہلے مرحب نامی شہ زور اور جاں باز یہودی کا قلعہ تھا جسے ایک ہزار مردوں کےبرابر سمجھاجاتا تھا۔ یہ قلعہ محل وقوع کے اعتبار سے یہود کی پہلی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا تھا۔ حضرت علی ؓ نے اس کے سرپرایسی تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس کے بعد فتوحات کاسلسلہ شروع ہوگیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4046
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4209
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4209
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4209
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
خیبر ایک بہت بڑا شہر ہے جو عمالقہ قوم خیبر نامی شخص کی یہاں اقامت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس میں بہت سے قلعے ہیں۔ یہ زرعی علاقہ اور زرخیز خطہ مدینہ طیبہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے 184کلو میٹر پر واقع ہے۔ اس مقام پر یہودی آباد تھے۔ آئے دن وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز محاصرہ کرنے کے بعد اسے فتح کر لیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غزوہ خیبر سے متعلقہ احادیث اس عنوان کے تحت بیان کی ہیں۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ خیبر کی جنگ میں حضرت علی ؓ نبی ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے کیونکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ انہوں نے دل میں کہا کہ میں نبی ﷺ سے پیچھے رہ جاؤں گا، اس لیے بعد میں وہ بھی آ گئے۔ جس رات خیبر فتح ہوا تھا، اس رات آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا یا علم وہ شخص پکڑے گا جسے اللہ اور اس کے رسول عزیز رکھتے ہیں اور اس کے ہاتھوں خیبر فتح ہو گا۔‘‘ ہم سب لوگ اس سعادت کے امیدوار تھے۔ اچانک کہا گیا: وہ علی ؓ آ گئے ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے انہیں جھنڈا عطا فرمایا، پھر ان کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ خیبر کی آبادی دوحصوں پرمشتمل تھی۔ ایک حصے میں حسب ذیل پانچ قلعے تھے۔ 1۔ حصن ناعم۔ 2۔ حصن صعب بن معاد۔ 3۔ حصن زبیر۔ 4۔ حصن ابی۔ 5۔ حصن نزار۔ دوسرے حصے میں حسب ذیل تین قلعے تھے۔ 1۔ حصن قموص۔ 2۔ حصن وطیح۔ 3۔ حصن سلالم۔ ان آٹھ قلعوں کے علاوہ مزید قلعے اور گڑھیاں بھی تھیں مگر وہ چھوٹی تھیں اورقوت وحفاظت کے اعتبار سے ان قلعوں کے ہم پلہ نہ تھیں، جہاں تک جنگ کا تعلق ہے۔ وہ صرف پہلے حصے میں ہوئی، دوسرے حصے کے تینوں قلعے لڑنے والوں کی کثرت کے باوجود جنگ کےبغیر ہی مسلمانوں کے حوالے کردیے گئے۔ 2۔ حضرت بریدہ اسلمی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو جھنڈا دیا، وہ گئے لیکن فتح کیے بغیر واپس آگئے۔ اگلے دن حضرت عمر ؓ نے جھنڈا لیا لیکن وہ بھی اسے فتح نہ کرسکے۔ بالآخر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو جھنڈا دیا تو ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے خیبر فتح کیا۔ (مسند أحمد:354/5) 3۔ سب سے پہلے مرحب نامی شہ زور اور جاں باز یہودی کا قلعہ تھا جسے ایک ہزار مردوں کےبرابر سمجھاجاتا تھا۔ یہ قلعہ محل وقوع کے اعتبار سے یہود کی پہلی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا تھا۔ حضرت علی ؓ نے اس کے سرپرایسی تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس کے بعد فتوحات کاسلسلہ شروع ہوگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حاتم نے بیان کیا‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ ؓ نے بیان کیا کہ علی ؓ غزوئہ خیبر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ جا سکے تھے کیو نکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ (جب آنحضور ﷺ جاچکے) تو انہوں نے کہا میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ غزوہ سے پیچھے رہوں (ایسا نہیں ہوسکتا)؟ چنانچہ وہ ابھی آگئے۔ جس دن خیبر فتح ہونا تھا‘ جب اس کی رات آئی تو آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ کل میں (اسلامی) علم اس شخص کو دوں گا یا فرمایا کہ علم وہ شخص لے گا جسے اللہ اور اس کا رسول عزیز رکھتے ہیں اور جس کے ہاتھ پر فتح حاصل ہوگی۔ ہم سب ہی اس سعادت کے امید وار تھے لیکن کہا گیا کہ یہ ہیں علی ؓ اور حضور ﷺ نے انہیں کو جھنڈا دیا اور انہیں کے ہاتھ پر خیبر فتح ہوا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salama (RA) : Ali remained behind the Prophet (ﷺ) during the Ghazwa of Khaibar as he was suffering from eye trouble. He then said, "(How can) I remain behind the Prophet (ﷺ) ," and followed him. So when he slept on the night of the conquest of Khaibar, the Prophet (ﷺ) said, "I will give the flag tomorrow, or tomorrow the flag will be taken by a man who is loved by Allah and His Apostle (ﷺ) , and (Khaibar) will be conquered through him, (with Allah's help)" While every one of us was hopeful to have the flag, it was said, "Here is 'Ali" and the Prophet (ﷺ) gave him the flag and Khaibar was conquered through him (with Allah's Help).