Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: ‘'Umra Al-Qada’)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
انسؓ نے نبی کریم صلیﷺسے اس کا ذکر کیا ہے۔
4252.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عمرے کی نیت سے نکلے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے، چنانچہ آپ نے اپنا قربانی کا جانور مقام حدیبیہ میں ذبح کر دیا اور وہیں اپنا سر منڈوا دیا اور ان سے اس شرط پر معاہدہ کیا کہ آپ آئندہ سال عمرہ کر سکیں گے، نیز تلواروں کے علاوہ دوسرا کوئی ہتھیار ہمراہ نہیں لائیں گے اور نہ مکہ مکرمہ میں ان کی مرضی کے خلاف قیام ہی کریں گے، اس لیے آپ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور معاہدے کے مطابق آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب آپ نے تین دن اقامت مکمل کر لی تو کفار نے کہا کہ اب آپ چلے جائیں تو آپ وہاں سے چلے آئے۔
تشریح:
1۔5ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے مقام حدیبیہ میں ان شرائط پر کفار مکہ سے صلح کر لی۔ کہ اس سال مسلمان عمرہ کیے بغیر ہی واپس چلے جائیں اور وہ آئندہ سال عمرہ کریں اس کے علاوہ جب مکہ مکرمہ میں آئیں تو تلواروں کے علاوہ کوئی دوسرا ہتھیار ہمراہ نہ لائیں اور تلواریں بھی نیاموں میں بند ہوں اور مسلمان مکہ مکرمہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔ 2۔رسول اللہ ﷺ نے روکے جانے کی وجہ سے وہیں احرام کھول دیا اور آئندہ سال 7ہجری میں جب آپ ﷺ غزوہ خیبر اور دیگر چھوٹے چھوٹے غزوات سے فارغ ہوئے تو ماہ ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور عمرہ مکمل کیا، پھر تین دن ٹھہرنے کے بعد واپس مدینے میں چلے آئے۔ وعدہ پورا کرنے کا تقاضا بھی یہی تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے مکمل طور پر ادا فرمایا، 3۔اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں کفار قریش کی مرضی کے خلاف نہیں ٹھہریں گے۔ یہ مجمل الفاظ ہیں ایک روایت میں وضاحت ہے کہ تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے۔ چنانچہ تیسرے دن انھوں نے کود حضرت علی ؓ سے کہا کہ آج آخری دن ہے آپ اپنے آپ صاحب سے کہیں کہ وہ مکہ سے چلے جائیں رسول اللہ ﷺ سے انھوں نے کہا تو آپ مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ چلے آئے۔ (صحیح مسلم، الجهاد، حدیث:4631۔(1783)فتح الباري:636/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4081
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4252
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4252
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4252
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
صلح حدیبیہ کے اگلے سال عمرہ قضا ہوا تھا۔ یہ نام اس لیے ہے کہ اسے صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار قریش کے ساتھ ایک طے شدہ فیصلے کے مطابق ادا کیا گیا تھا۔ اس سے اصطلاحی قضا مراد نہیں کیونکہ آئندہ سال جو عمرہ کیا گیا تھا وہ اس عمرے کی قضا نہ تھی جس سے صلح حدیبیہ کے دن حلال ہوئے تھے۔ اسے عمرہ القصاص اور عمرۃ الصلح بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے عمرے کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار عمروں میں شمار کیا گیا ہے چونکہ اگرچہ اس کے ارکان ادا نہیں ہوئے تھے، تاہم اللہ کے ہاں اس کا ثواب ثابت ہو چکا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی متعلق روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے تھے تو انھوں نے جواب دیا کہ چار، ان میں ایک صلح حدیبیہ کا عمرہ تھا جو ذوالقعدہ میں ادا ہوا جبکہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا تھا۔( صحیح البخاری العمرۃ حدیث:1778۔)
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عمرے کی نیت سے نکلے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے، چنانچہ آپ نے اپنا قربانی کا جانور مقام حدیبیہ میں ذبح کر دیا اور وہیں اپنا سر منڈوا دیا اور ان سے اس شرط پر معاہدہ کیا کہ آپ آئندہ سال عمرہ کر سکیں گے، نیز تلواروں کے علاوہ دوسرا کوئی ہتھیار ہمراہ نہیں لائیں گے اور نہ مکہ مکرمہ میں ان کی مرضی کے خلاف قیام ہی کریں گے، اس لیے آپ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور معاہدے کے مطابق آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب آپ نے تین دن اقامت مکمل کر لی تو کفار نے کہا کہ اب آپ چلے جائیں تو آپ وہاں سے چلے آئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔5ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے مقام حدیبیہ میں ان شرائط پر کفار مکہ سے صلح کر لی۔ کہ اس سال مسلمان عمرہ کیے بغیر ہی واپس چلے جائیں اور وہ آئندہ سال عمرہ کریں اس کے علاوہ جب مکہ مکرمہ میں آئیں تو تلواروں کے علاوہ کوئی دوسرا ہتھیار ہمراہ نہ لائیں اور تلواریں بھی نیاموں میں بند ہوں اور مسلمان مکہ مکرمہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔ 2۔رسول اللہ ﷺ نے روکے جانے کی وجہ سے وہیں احرام کھول دیا اور آئندہ سال 7ہجری میں جب آپ ﷺ غزوہ خیبر اور دیگر چھوٹے چھوٹے غزوات سے فارغ ہوئے تو ماہ ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور عمرہ مکمل کیا، پھر تین دن ٹھہرنے کے بعد واپس مدینے میں چلے آئے۔ وعدہ پورا کرنے کا تقاضا بھی یہی تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے مکمل طور پر ادا فرمایا، 3۔اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں کفار قریش کی مرضی کے خلاف نہیں ٹھہریں گے۔ یہ مجمل الفاظ ہیں ایک روایت میں وضاحت ہے کہ تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے۔ چنانچہ تیسرے دن انھوں نے کود حضرت علی ؓ سے کہا کہ آج آخری دن ہے آپ اپنے آپ صاحب سے کہیں کہ وہ مکہ سے چلے جائیں رسول اللہ ﷺ سے انھوں نے کہا تو آپ مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ چلے آئے۔ (صحیح مسلم، الجهاد، حدیث:4631۔(1783)فتح الباري:636/7)
ترجمۃ الباب:
اس کو حضرت انس ؓ نے نبیﷺسے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن رافع نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سریج نے بیان کیا‘ کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا۔ دوسری سنداور مجھ سے محمد بن حسین بن ابراہیم نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا‘ ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا‘ ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ عمرہ کے ارادے سے نکلے‘ لیکن کفار قریش نے بیت اللہ پہنچنے سے آپ کو روکا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اپنا قربانی کا جانور حدیبیہ میں ہی ذبح کر دیا اور وہیں سر بھی منڈوایا اور ان سے معاہدہ کیا کہ آپ آئندہ سال عمرہ کرسکتے ہیں لیکن (نیام میں تلواروں کے سوا اور) کوئی ہتھیار ساتھ نہیں لاسکتے اور جتنے دنوں مکہ والے چاہیں گے‘ اس سے زیادہ آپ وہاں ٹھہر نہیں سکیں گے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور معاہدہ کے مطابق مکہ میں داخل ہوئے۔ تین دن وہاں مقیم رہے۔ پھر قریش نے آپ سے جانے کے لیے کہا اور آپ مکہ سے چلے آئے۔
حدیث حاشیہ:
ایفائے عہد کا تقا ضا بھی یہی تھا جو آنحضرت ﷺ نے پورے طور پر ادا فرمایا اور آپ صرف تین دن قیام فرما کر اپنے پیارے اقدس شہر مکہ کو چھوڑ کر واپس آگئے۔ کاش ! آج بھی مسلمان اپنے وعدوں کی ایسی ہی پابندی کریں تو دنیا میں ان کی قدر و منزلت بہت بڑھ سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) set out with the intention of performing 'Umra, but the infidels of Quraish intervened between him and the Ka’bah, so the Prophet (ﷺ) slaughtered his Hadi (i.e. sacrificing animals and shaved his head at Al-Hudaibiya and concluded a peace treaty with them (i.e. the infidels) on condition that he would perform the 'Umra the next year and that he would not carry arms against them except swords, and would not stay (in Makkah) more than what they would allow. So the Prophet (ﷺ) performed the 'Umra in the following year and according to the peace treaty, he entered Makkah, and when he had stayed there for three days, the infidels ordered him to leave, and he left.