باب: غزوئہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ 8ھ میں ہوا تھا
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The expedition of Mu`tah to the land of Syria)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4262.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کی شہادت کی خبر اس وقت اپنے صحابہ کرام کو دی جب ان کے متعلق دیگر ذرائع سے کوئی اطلاع نہیں آئی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’زید نے اسلامی جھنڈا اٹھایا۔ وہ شہید کر دیے گئے تو پھر جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ بھی جام شہادت نوش کر چکے تو پھر ابن رواحہ ؓ نے جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ بھی شہید کر دیے گئے۔ اس دوران میں آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حتی کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار(خالد بن ولید ؓ) نے جھنڈا پکڑ لیا۔ پھر اللہ نے اس کے ہاتھوں فتح عطا فرمائی۔‘‘
تشریح:
1۔حضرت خالد بن ولید ؓ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوگئے تھے اور جب انھوں نے حضر ت عبداللہ بن رواحہ ؓ کی شہادت کے بعد اسلامی جھنڈا پکڑا تو اپنی فوج کو پیچھے ہٹنے کاحکم دیا، وہ پیچھے ہٹ کر پھر آگے بڑھے۔ رومیوں نے سمجھا کہ انھیں تازہ کمک(مدد) پہنچ گئی ہے، اس لیے وہ آگے بڑھے ہیں۔ اس موقع پر گھمسان کی جنگ ہوئی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق یوں دعا فرمائی:’’اے اللہ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد فرما۔‘‘ (السنن الکبری للنسائی:69/5۔) اس وقت سے حضرت خالد بن ولید ؓ کو سیف اللہ(اللہ کی تلوار) کہا جاتا ہے۔ 2۔اس حدیث سے معلوم ہواکہ کسی کو مشروط سپہ سالار یا امیر بنانا جائزہے اور یہ بھی واضح ہواکہ بوقت ضرورت حاکم اعلیٰ کی اجازت کے بغیر امیر بنانا بھی جائز ہے۔ اس حدیث میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی واضح فضیلت ہے۔ (فتح الباري:642/7۔)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4089
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4262
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4262
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4262
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
شام کی سر زمین میں بیت المقدس سے دو مرحلے کے فاصلے پر بلقاء کے قریب ایک جگہ کا نام ہے جہاں مسلمانوں نے بہت بڑی جنگ لڑی تھی اس کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بصری کے حاکم کی طرف اپنے قاصد حارث بن عمیر کو بھیجا ۔ وہاں کے حاکم شرحبیل بن عمرو غسانی نے اسے قتل کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر چڑھائی کے لیے فوج روانہ کی جو تین ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی ۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس فوت کا امیر مقرر کیا۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کی شہادت کی خبر اس وقت اپنے صحابہ کرام کو دی جب ان کے متعلق دیگر ذرائع سے کوئی اطلاع نہیں آئی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’زید نے اسلامی جھنڈا اٹھایا۔ وہ شہید کر دیے گئے تو پھر جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ بھی جام شہادت نوش کر چکے تو پھر ابن رواحہ ؓ نے جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ بھی شہید کر دیے گئے۔ اس دوران میں آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حتی کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار(خالد بن ولید ؓ) نے جھنڈا پکڑ لیا۔ پھر اللہ نے اس کے ہاتھوں فتح عطا فرمائی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت خالد بن ولید ؓ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوگئے تھے اور جب انھوں نے حضر ت عبداللہ بن رواحہ ؓ کی شہادت کے بعد اسلامی جھنڈا پکڑا تو اپنی فوج کو پیچھے ہٹنے کاحکم دیا، وہ پیچھے ہٹ کر پھر آگے بڑھے۔ رومیوں نے سمجھا کہ انھیں تازہ کمک(مدد) پہنچ گئی ہے، اس لیے وہ آگے بڑھے ہیں۔ اس موقع پر گھمسان کی جنگ ہوئی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق یوں دعا فرمائی:’’اے اللہ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد فرما۔‘‘ (السنن الکبری للنسائی:69/5۔) اس وقت سے حضرت خالد بن ولید ؓ کو سیف اللہ(اللہ کی تلوار) کہا جاتا ہے۔ 2۔اس حدیث سے معلوم ہواکہ کسی کو مشروط سپہ سالار یا امیر بنانا جائزہے اور یہ بھی واضح ہواکہ بوقت ضرورت حاکم اعلیٰ کی اجازت کے بغیر امیر بنانا بھی جائز ہے۔ اس حدیث میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی واضح فضیلت ہے۔ (فتح الباري:642/7۔)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمدبن واقد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ایوب سختیانی نے‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے زید‘ جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ ؓ کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ ؓ کو د ے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ آپ فرماتے جا رہے تھے کہ اب زید ؓ جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں‘ اب وہ شہید کر دیئے گئے‘ اب جعفر ؓ نے جھنڈا اٹھالیا‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ اب ابن رواحہ ؓ نے جھنڈا اٹھا لیا‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ آنحضرت ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالدبن ولید ؓ نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ اس غزوہ میں شریک نہ تھے۔ آپ یہ سب خبریں مدینہ میں بیٹھ کر صحابہ ؓ کو دے رہے تھے اور آپ کو بذیعہ وحی یہ سارے حالات معلوم ہو گئے تھے۔ آپ غیب داں نہیں تھے۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت جعفر ؓ اس جنگ میں دائیں ہاتھ میں جھنڈا تھامے ہوئے تھے۔ دشمنوں نے وہ ہاتھ کاٹ ڈالا تو انہوں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا لے لیا۔ دشمنوں نے اس کو بھی کاٹ ڈالا وہ شہید ہو گئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ان کو جنت میں دو بازو پرندے کی طرح کے بخش دیئے ہیں وہ ان سے جنت میں جہاں چاہیں اڑتے پھرتے ہیں۔ لفظ طیار کے معنی اڑنے والے کے ہیں۔ اسی سے آپ کو جعفر طیار ؓ کے نام سے پکارا گیا رضي اللہ عنه وأرضاہ۔ حضرت جعفر ؓ کے دو بیٹے عبد اللہ اور محمد نامی تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ان پر بڑی شفقت فرمائی۔ موسی بن عقبہ نے مغازی میں ذکر کیا ہے کہ یعلی بن امیہ اہل موتہ کی خبر لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو موتہ والوں کا حال مجھ کو سناؤ ورنہ میں خود ہی تم کو ان کا پورا حال سنا دیتا ہوں۔ (جو اللہ نے تمہارے آنے سے پہلے مجھ کو وحی کے ذریعہ بتلادیا ہے) چنانچہ خود آپ نے ان کا پورا حال بیان فرمادیا جسے سن کر یعلی بن امیہ کہنے لگے کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے کہ آپ نے اہل موتہ کے حالات سنانے میں ایک حرف کی بھی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ آپ کا بیان حرف بہ حرف صحیح ہے۔ (قسطلانی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : The Prophet (ﷺ) had informed the people of the martyrdom of Zaid, Ja'far and Ibn Rawaha before the news of their death reached. The Prophet (ﷺ) said, "Zaid took the flag (as the commander of the army) and was martyred, then Ja'far took it and was martyred, and then Ibn Rawaha took it and was martyred." At that time the Prophet's eyes were shedding tears. He added, "Then the flag was taken by a Sword amongst the Swords of Allah (i.e. Khalid) and Allah made them (i.e. the Muslims) victorious."