Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
()
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4294.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمیا کہ حضرت عمر ؓ مجھے شیوخ بدر کے ساتھ بٹھاتے تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا: آپ اس بچے کو ہمارے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں جبکہ اس جیسے تو ہمارے اپنے بیٹے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی علمی فضیلت تم لوگ بھی جانتے ہو، چنانچہ ایک دن حضرت عمر ؓ نے شیوخِ بدر کو بلایا اور ان کے ساتھ مجھے بھی آنے کی دعوت دی۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے اس لیے بلایا گیا تاکہ انہیں میری برتری دکھائیں۔ انہوں نے فرمایا: تم لوگ اس سورت کے متعلق کیا جانتے ہو؟ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ﴿٢﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿٣﴾) حتی کہ انہوں نے پوری سورت پڑھی۔ ان میں سے کسی نے کہا: نصرت و فتح کے بعد ہمیں اللہ کی حمد و ثنا اور اس سے معافی مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کچھ نے کہا: ہمیں معلوم نہیں۔ کچھ تو بالکل خاموش رہے۔ حضرت عمر ؓ نے مجھے فرمایا: اے ابن عباس! کیا تم بھی اسی طرح کہتے ہو (جس طرح یہ حضرات کہہ رہے ہیں)؟ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اس سورت میں اللہ تعالٰی نے رسول اللہ ﷺ کو مدتِ حیات کی اطلاع دی ہے۔ الفتح سے مرادفتح مکہ ہے، یعنی جب مکہ فتح ہو جائے اور اللہ کی مدد آ جائے تو یہ آپ کی علامتِ وفات ہے، اس لیے آپ اللہ کی حمد کریں اور استغفار کریں۔ بےشک وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں بھی اس آیت کریمہ سے وہی جانتا ہوں جو تم جانتے ہو۔
تشریح:
1۔حضرت ابن عباس ؓ اگرچہ چھوٹی عمر کے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں کے نتیجے میں صاحب بصیرت اور اہل علم تھے، اس لیے حضرت عمر ؓ نے ان کو اپنی شوریٰ کا ممبربنایا اور دوسروں پر انھیں ترجیح دیتے تھے، پھربھری مجلس میں ان کی علمی برتری کو ثابت کیا۔ 2۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معارف قرآن سمجھے کے لیے صرف عربی میں مہارت ہوناکافی نہیں اور نہ ہر ایک کی سمجھ ہی معتبر ہے بلکہ اس کے لیے علوم متد اولہ میں مہارت کے ساتھ ایسےفہم کی بھی ضرورت ہے جس سے استنباط مسائل ہوسکے۔ 3۔شیوخ بدرسے مراد وہ بزرگ حضرات ہیں جو غزوہ بدر میں شرکت کرچکے تھے۔ 4۔سوال کرنے والے نے حضرت ابن عباس ؓ پر حسد نہیں کیا تھا بلکہ اس لیے کہا تھا کہ ہمارے بیٹے بھی ان جیسےہوں۔اس حدیث میں حضرت ابن عباس ؓ کی علمی برتری کوثابت کیا ہے۔ 5۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس لیے پیش کیاہے کہ اس میں فتح مکہ کا ذکر ہے۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4119
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4294
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4294
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4294
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمیا کہ حضرت عمر ؓ مجھے شیوخ بدر کے ساتھ بٹھاتے تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا: آپ اس بچے کو ہمارے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں جبکہ اس جیسے تو ہمارے اپنے بیٹے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی علمی فضیلت تم لوگ بھی جانتے ہو، چنانچہ ایک دن حضرت عمر ؓ نے شیوخِ بدر کو بلایا اور ان کے ساتھ مجھے بھی آنے کی دعوت دی۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے اس لیے بلایا گیا تاکہ انہیں میری برتری دکھائیں۔ انہوں نے فرمایا: تم لوگ اس سورت کے متعلق کیا جانتے ہو؟ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ﴿٢﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿٣﴾) حتی کہ انہوں نے پوری سورت پڑھی۔ ان میں سے کسی نے کہا: نصرت و فتح کے بعد ہمیں اللہ کی حمد و ثنا اور اس سے معافی مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کچھ نے کہا: ہمیں معلوم نہیں۔ کچھ تو بالکل خاموش رہے۔ حضرت عمر ؓ نے مجھے فرمایا: اے ابن عباس! کیا تم بھی اسی طرح کہتے ہو (جس طرح یہ حضرات کہہ رہے ہیں)؟ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اس سورت میں اللہ تعالٰی نے رسول اللہ ﷺ کو مدتِ حیات کی اطلاع دی ہے۔ الفتح سے مرادفتح مکہ ہے، یعنی جب مکہ فتح ہو جائے اور اللہ کی مدد آ جائے تو یہ آپ کی علامتِ وفات ہے، اس لیے آپ اللہ کی حمد کریں اور استغفار کریں۔ بےشک وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں بھی اس آیت کریمہ سے وہی جانتا ہوں جو تم جانتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت ابن عباس ؓ اگرچہ چھوٹی عمر کے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں کے نتیجے میں صاحب بصیرت اور اہل علم تھے، اس لیے حضرت عمر ؓ نے ان کو اپنی شوریٰ کا ممبربنایا اور دوسروں پر انھیں ترجیح دیتے تھے، پھربھری مجلس میں ان کی علمی برتری کو ثابت کیا۔ 2۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معارف قرآن سمجھے کے لیے صرف عربی میں مہارت ہوناکافی نہیں اور نہ ہر ایک کی سمجھ ہی معتبر ہے بلکہ اس کے لیے علوم متد اولہ میں مہارت کے ساتھ ایسےفہم کی بھی ضرورت ہے جس سے استنباط مسائل ہوسکے۔ 3۔شیوخ بدرسے مراد وہ بزرگ حضرات ہیں جو غزوہ بدر میں شرکت کرچکے تھے۔ 4۔سوال کرنے والے نے حضرت ابن عباس ؓ پر حسد نہیں کیا تھا بلکہ اس لیے کہا تھا کہ ہمارے بیٹے بھی ان جیسےہوں۔اس حدیث میں حضرت ابن عباس ؓ کی علمی برتری کوثابت کیا ہے۔ 5۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس لیے پیش کیاہے کہ اس میں فتح مکہ کا ذکر ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا‘ ان سے ابو بشر نے‘ ان سے سعید بن جبیر نے‘ ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ عمر ؓ مجھے اپنی مجلس میں اس وقت بھی بلا لیتے جب وہاں بدر کی جنگ میں شریک ہونے والے بزرگ صحابہ ؓ بیٹھے ہوتے۔ اس پر بعض لوگ کہنے لگے اس جوان کو آپ ہماری مجلس میں کیوں بلاتے ہیں ؟ اس کے جیسے تو ہمارے بچے بھی ہیں۔ اس پر عمر ؓ نے کہا وہ تو ان لوگوں میں سے ہے جن کا علم و فضل تم جانتے ہو۔ انہوںنے بیان کیا کہ پھر ان بزرگ صحابیوں کو ایک دن عمر ؓ نے بلایا اور مجھے بھی بلایا۔ بیان کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ مجھے اس دن آپ نے اس لیے بلایا تھا تاکہ آپ میرا علم بتا سکیں۔ پھر آپ نے دریافت کیا (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ ختم سورت تک‘ کے متعلق تم لوگوں کا کیاخیال ہے؟ کسی نے کہا کہ ہمیں اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ کی حمد بیان کریں اور اس سے استغفار کریں کہ اس نے ہماری مدد کی اور ہمیں فتح عنایت فرمائی۔ بعض نے کہا کہ ہمیں اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہے اور بعض نے کوئی جواب نہیں دیا پھر انہوں نے مجھ سے دریافت کیا‘ ابن عباس ! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں‘ پوچھا‘ پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح حاصل ہو گئی۔ یعنی فتح مکہ تو یہ آپ کی وفات کی نشانی ہے۔ اس لیے آپ اپنے رب کی حمد اور تسبیح اور اس کی مغفرت طلب کریں کہ وہ توبہ قبول کر نے والا ہے۔ عمر ؓ کہا کہ جو کچھ تم نے کہا وہی میں بھی سمجھتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ نے دین کی ایک بات پوچھ کر ابن عباس ؓ کی فضیلت بوڑھوں پر ظاہر کردی جیسے اللہ تعالی نے آدم کو علم دے کر بڑی بڑی عمر والے فرشتوں پر ان کی فضیلت ثابت کر دی اور ان فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ حدیث میں وفات نبوی کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے یہاں اندراج کا یہی مقصد ہے۔ سورۃ شریفہ میں اشارہ تھا کہ ہر کمالے راز والے۔ ہر زوالے را کمالے۔ اس حدیث کے ذیل مولانا وحید الزماں کی تقریر دل پذیر یہ ہے کہ عمر ؓ کا عمل اس پر تھا بزرگی عقل است نہ بہ سال۔ ابن عباس ؓ اس وقت کے بڑے عالم تھے اور عالم گو جوان ہو مگر علم کی فضیلت سے وہ بوڑھوں کے برابر بلکہ ان سے بھی افضل سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے پیشوا خلفائے راشدین اور دوسرے شاہان اسلام نے علم کی ایسی قدر دانی کی ہے جب مسلمان علم حاصل کرنے میں کوشش کرتے تھے مگر افسوس کہ ہمارے زمانہ کے مسلمان بادشاہ ایسے نالائق ہیں جن کے پاس ایک بھی عالم فاضل یا حکیم فیلسوف نہیں ہوتا نہ ان کو دینی علوم کی قدر ہے نہ دنیاوی علوم کی بلکہ سچ پوچھو تو علم ولیاقت کے دشمن ہیں۔ ان کے ملک میں کوئی شاذونادر دین کا عالم پیدا ہو گیا تو اس کو ستانے بے عزت کرنے اور نکالنے کے فکر میں رہتے ہیں۔ لا حول ولا قوة الا باللہ اگر یہی لیل ونہار رہے تو ایسے بادشاہوں کی حکومت کو بھی چراغ سحری سمجھنا چاہیے۔ (وحیدی) یہ پرانی باتیں ہیں اب تو گیا دور سرمایہ داری گیا۔ دکھا کر تماشہ مداری گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) : 'Umar used to admit me (into his house) along with the old men who had fought in the Badr battle. Some of them said (to 'Umar), "Why do you allow this young man to enter with us, while we have sons of his own age? " 'Umar said, "You know what person he is." One day 'Umar called them and called me along with them, I had thought he called me on that day to show them something about me (i.e. my knowledge). 'Umar asked them, "What do you say about (the Sura): "When comes the help of Allah and the Conquest (of Makkah) And you see mankind entering the Religion of Allah (i.e. Islam) in crowds. 'So celebrate the Praises Of your Lord and ask for His forgiveness, Truly, He is the One Who accepts repentance and forgives." (110.1-3) Some of them replied, "We are ordered to praise Allah and repent to Him if we are helped and granted victory." Some said, "We do not know." Others kept quiet. 'Umar then said to me, "Do you say similarly?" I said, "No." 'Umar said "What do you say then?" I said, "This Verse indicates the approaching of the death of Allah's Apostle (ﷺ) of which Allah informed him. When comes the help of Allah and the Conquest, i.e. the Conquest of Makkah, that will be the sign of your Prophet's) approaching death, so testify the uniqueness of your Lord (i.e. Allah) and praise Him and repent to Him as He is ready to forgive." On that, 'Umar said, "I do not know about it anything other than what you know."