Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
()
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4295.
حضرت ابو شریح عدوی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جب وہ مکہ میں لشکر بھیج رہا تھا: اے امیر! اگر مجھے اجازت ہو تو میں تم سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے روز فرمائی تھی۔ میرے کانوں نے وہ سنا، میرے دل نے اسے محفوظ کیا اور میری آنکھوں نے آپ ﷺ کو دیکھا جب آپ گفتگو کر رہے تھے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی، پھر فرمیا: ’’اللہ تعالٰی نے مکہ کو حرام ٹھہرایا ہے، لوگوں نے اسے حرام قرار نہیں دیا۔ اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین رکھنے والے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس (مکے) میں خونریزی کرے اور اس کے کسی درخت ہی کو کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کے قتال و جنگ سے رخصت ثابت کرنا چاہے تو اسے کہہ دو: بےشک اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو اجازت دی تھی تمہیں اجازت نہیں دی۔ اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں اس کی اجازت تھی، پھر آج سے اس کی حرمت وہی ہو گئی ہے جیسے کل تھی۔ (آپ نے فرمایا: ) جو شخص یہاں موجود ہے وہ غائب کو یہ خبر پہنا دے۔‘‘ حضرت ابو شریح ؓ سے دریافت کیا گیا: پھر عمرو بن سعید نے آپ کو کیا جواب دیا؟ انہوں نے کہا: مجھے یہ جواب دیا کہ اے ابو شریح! میں یہ حدیث تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ حرم مکہ کسی مجرم کو پناہ نہیں دیتا اور نہ کسی قاتل ہی کو جو کسی کا خون بہا کر بھاگ آئے اور نہ کسی فسادی کو جو فساد برپا کر کے بھاگ آئے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے فرمایا: لفظ "خربه" کے معنی ہیں: خرابی کرنے والا، یعنی مجرم۔
تشریح:
1۔حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے یزید بن معاویہ ؓ کی بیعت نہیں کی تھی، بلکہ حجاز کے علاقے میں خود خلافت کا دعویٰ کیا اور لوگوں سے بیعت لی۔ یزید نے انھیں زیر کرنے کے لیے گورنر مدینہ عمرو بن سعید کو مامورکیا، جسے حضرت ابوشریح ؓ نے حدیث سنائی اور مکہ پر فوج کشی سے روکا مگرعمرو بن سعید اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا، اس لیے اس نے مکے پر چڑھائی کردی، حالانکہ اس نے جن بہانوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک بھی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ میں نہ تھا،انہوں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ اس نے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے بدنامی کو اختیار کیا اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خون ناحق سے اپنے ہاتھوں کو رنگا۔ 2۔چونکہ اس حدیث میں فتح مکہ کے حوالے سے حرمت کو بیان کیا گیا تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4120
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4295
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4295
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4295
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت ابو شریح عدوی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جب وہ مکہ میں لشکر بھیج رہا تھا: اے امیر! اگر مجھے اجازت ہو تو میں تم سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے روز فرمائی تھی۔ میرے کانوں نے وہ سنا، میرے دل نے اسے محفوظ کیا اور میری آنکھوں نے آپ ﷺ کو دیکھا جب آپ گفتگو کر رہے تھے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی، پھر فرمیا: ’’اللہ تعالٰی نے مکہ کو حرام ٹھہرایا ہے، لوگوں نے اسے حرام قرار نہیں دیا۔ اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین رکھنے والے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس (مکے) میں خونریزی کرے اور اس کے کسی درخت ہی کو کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کے قتال و جنگ سے رخصت ثابت کرنا چاہے تو اسے کہہ دو: بےشک اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو اجازت دی تھی تمہیں اجازت نہیں دی۔ اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں اس کی اجازت تھی، پھر آج سے اس کی حرمت وہی ہو گئی ہے جیسے کل تھی۔ (آپ نے فرمایا: ) جو شخص یہاں موجود ہے وہ غائب کو یہ خبر پہنا دے۔‘‘ حضرت ابو شریح ؓ سے دریافت کیا گیا: پھر عمرو بن سعید نے آپ کو کیا جواب دیا؟ انہوں نے کہا: مجھے یہ جواب دیا کہ اے ابو شریح! میں یہ حدیث تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ حرم مکہ کسی مجرم کو پناہ نہیں دیتا اور نہ کسی قاتل ہی کو جو کسی کا خون بہا کر بھاگ آئے اور نہ کسی فسادی کو جو فساد برپا کر کے بھاگ آئے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے فرمایا: لفظ "خربه" کے معنی ہیں: خرابی کرنے والا، یعنی مجرم۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے یزید بن معاویہ ؓ کی بیعت نہیں کی تھی، بلکہ حجاز کے علاقے میں خود خلافت کا دعویٰ کیا اور لوگوں سے بیعت لی۔ یزید نے انھیں زیر کرنے کے لیے گورنر مدینہ عمرو بن سعید کو مامورکیا، جسے حضرت ابوشریح ؓ نے حدیث سنائی اور مکہ پر فوج کشی سے روکا مگرعمرو بن سعید اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا، اس لیے اس نے مکے پر چڑھائی کردی، حالانکہ اس نے جن بہانوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک بھی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ میں نہ تھا،انہوں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ اس نے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے بدنامی کو اختیار کیا اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خون ناحق سے اپنے ہاتھوں کو رنگا۔ 2۔چونکہ اس حدیث میں فتح مکہ کے حوالے سے حرمت کو بیان کیا گیا تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن شرحبیل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے مقبری نے کہ ابو شریح عدوی ؓ نے (مدینہ کے امیر) عمرو بن سعید سے کہا جب کہ عمرو بن سعید (عبد اللہ بن زبیر ؓ کے خلاف) مکہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے کہ اے امیر ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی۔ اس حدیث کو حضور اکرم ﷺ ارشاد فرمارہے تھے تو میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھ رہا تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے پہلے اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور پھر فرمایا‘ بلا شبہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والا شہر قراردیا ہے کسی انسان نے اسے اپنے طرف سے حرمت والا قرار نہیں دیا۔ اس لیے کسی شخص کے لیے بھی جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو‘ جائز نہیں کہ اس میں کسی کا خون بہائے اور کوئی اس سرزمیں کا کوئی درخت کاٹے اور اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے (فتح مکہ کے موقع پر) جنگ سے اپنے لیے بھی رخصت نکالے تو تم اس سے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول کو (تھوڑی دیر کے لیے) اس کی اجازت دی تھی۔ ہمارے لیے بالکل اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی اس کی اجازت دن کے تھوڑے سے حصے کے لیے ملی تھی اور آج پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی ہے جس طرح کل یہ شہر حرمت والا تھا۔ پس جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ (ان کو میرا کلام) پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ ابو شریح سے پوچھا گیا کہ عمرو بن سعید نے آپ کو پھر جواب کیا دیا تھا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس نے کہا کہ میں یہ مسائل تم سے زیا دہ جانتا ہوں‘ حرم کسی گنہگار کو پناہ نہیں دیتا‘ نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے‘ مفسد کو بھی پناہ نہیں دیتا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی۔ اس لیے یزید نے ان کو زیر کرنے کے لیے گورنر مدینہ عمروبن سعید کو مامور کیا تھا جس پر ابو شریح نے ان کو یہ حدیث سنائی اور مکہ پر حملہ آور ہونے سے روکا مگر عمرو بن سعید طاقت کے نشہ میں چور تھا۔ اس نے حدیث نبوی کو نہیں سنا اور مکہ پر چڑھائی کردی اور ساتھ ہی یہ بہانے بنائے جو یہاں مذکور ہیں۔ اس طرح تاریخ میں ہمیشہ کے لیے بد نامی کو اختیار کیا اور حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کے خون نا حق کا بوجھ اپنی گردن پر رکھا اور حدیث میں فتح مکہ وحرمت مکہ پر اشارہ ہے یہی مقصود باب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ اسدی قریشی ہیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نواسے ہیں۔ مدینہ میں مہاجرین میں یہ پہلے بچے ہیں جو سنہ 1 ھ میں پیدا ہوئے۔ محترم نانا حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کے کانوں میں اذان کہی انکی والدہ حضرت اسماءبنت ابوبکر صدیق ؓ ہیں۔ مقام قبا میں جناب آنحضرت ﷺ نے چھو ہارہ چبا کر اپنے لعاب دہن کے ساتھ ان کے منہ میں ڈالا اور برکت کی دعا کی۔ بہت ہی بار عب صاف چہرے والے موٹے تازے بڑے قوی بہادر تھے۔ ان کی دادی حضرت صفیہ ؓ آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں ان کی خالہ حضرت عائشہ ؓ تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں حضور ﷺ سے بیعت کی اور انہوں نے آٹھ حج کئے اور حجاج بن یوسف نے انکو مکہ میں منگل کے دن 17۔ جمادی الثانی سنہ73 ھ کو شہید کر ڈالا۔ ایسی ہی ظالمانہ حرکتوں سے عذاب الہی میں گرفتار ہو کر حجاج بن یوسف بڑی ذلت کی موت مرا۔ اس نے جس بزرگ کو آخر میں ظلم سے قتل کیا وہ حضرت سعید بن جبیر ہیں۔ جب بھی حجاج بن یوسف سوتا حضرت سعید خواب میں آکر اس کا پاؤں پکڑ کر ہلا د یتے اور اپنے خون نا حق کی یاد دلاتے۔ ﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ﴾(آل عمران:13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Shuraih (RA) : Al-Adawi that he said to 'Amr bin Said while the latter was sending troops in batches to Makkah, "O chief! Allow me to tell you a statement which Allah's Apostle (ﷺ) said on the second day of the Conquest of Makkah. My two ears heard it and my heart remembered it and my two eyes saw him when he said it. He (i.e. the Prophet) praised Allah and then said, 'Makkah has been made a sanctuary by Allah and not by the people, so it is not lawful for a person, who believes in Allah and the Last Day to shed blood in it, or to cut its trees and if someone asks the permission to fight in Makkah because Allah's Apostle (ﷺ) was allowed to fight in it, say to him; Allah permitted His Apostle (ﷺ) and did not allow you, and even he (i.e. the Apostle) was allowed for a short period of the day, and today its (Makkah's sanctity has become the same as it was before (of old) so those who are present should inform those who are absent (this Hadith)." Then Abu Shuraih, was asked, "What did 'Amr say to you? Abu Shuraih said, "He said, "I knew that better than you, O Abu Shuraih! The Haram (i.e. Makkah) does not give refuge to a sinner or a fleeing murderer or a person running away after causing destruction."