باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: “…and on the day of Hunain when you rejoiced at your great number….”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4322.
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ حنین کے سال روانہ ہوئے۔ جب ہماری کفار کے ساتھ جنگ شروع ہوئی تو مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران میں نے ایک مشرک کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر غلبہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ میں نے اس کے پیچھے سے ہو کر اس کے کندھے پر تلوار ماری اور اس کی زرہ کاٹ دی۔ وہ میری طرف پلٹ آیا اور مجھے اتنے زور سے دبایا کہ میں نے اس کے دبانے سے موت کی سختی محسوس کی۔ پھر جب اسے موت نے آ لیا تو اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ میں حضرت عمر ؓ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ایسا اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔ بہرحال لوگ (رسول اللہ ﷺ کی طرف) لوٹ آئے تو نبی ﷺ نے بیٹھ کر اعلان کیا: ’’جس نے کسی کو قتل کیا ہے اور اس کے پاس گواہ ہے تو اس کو مقتول کا سازوسامان ملے گا۔‘‘ میں نے کہا: میرے لیے کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر نبی ﷺ نے اسی بات کو دہرایا تو میں نے کھڑے ہو کر کہا: میرے لیے کون گواہی دے گا؟ (لوگوں کی خاموشی دیکھ کر) میں پھر بیٹھ گیا۔ نبی ﷺ نے پھر اسی بات کو دہرایا تو میں کھڑا ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابوقتادہ! کیا ماجرا ہے؟‘‘ میں نے آپ کو سارا واقعہ بتایا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ابو قتادہ نے سچ کہا ہے۔ اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ آپ انہیں میری طرف سے خوش کر دیں، یعنی سامان میرے پاس ہی رہنے دیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہو گا! تب تو رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر دیا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے دفاع کرتا ہے اور تجھے اس کا سامان دے دیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ابوبکر ؓ نے سچکہا ہے۔ تم مقتول کا سامان اس کے حوالے کر دو۔‘‘ ابو قتادہ کہتے ہیں کہ اس نے مقتول کا سامان میرے حوالے کر دیا اور میں نے اس سامان کے عوض قبیلہ بنو سلمہ میں ایک باغ خرید لیا۔ یہ پہلی جائیداد تھی جو میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کی۔
تشریح:
1۔ اس حدیث میں غزوہ حنین کے وقت مسلمانوں کی وقتی شکست کو انتشار و اضطراب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ انتشاربھی بعض نئےاسلام قبول کرنے والوں میں تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے قریبی ساتھی اس سے محفوظ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مٹھی میں مٹی لے کر مشرکین کے منہ پر ماری اور فرمایا: "ان کے چہرے سیاہ ہوں۔" تو معجزانہ طور پر تمام مشرکین اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ 2۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے قبیلہ ہوازن کے لوگوں کو شکست سے دوچار کیا اور وہ بھاگ نکلے۔ اس روز رسول اللہ ﷺ نے اعلان کیا: "جو کسی کافر کو قتل کرے وہ اس کا سامان لے لے۔" اس روز حضرت ابو طلحہ ؓ نے بیس مشرکین کو قتل کیا اور ان کے سامان پر قبضہ کیا تھا۔ حضرت قتادہ ؓ کا واقعہ بھی اسی روز کا ہے، انھوں نے ایک مشرک کو قتل کیا تھا جس کے پاس بہت اسلحہ تھا اس پر ایک آدمی نے قبضہ جما لیا، پھر حضرت ابوبکر ؓ کے کہنے پر وہ سامان ابو قتادہ ؓ کے حوالے کیا گیا۔ حضرت ابو قتادہ ؓ نے وہ سامان حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے ہاتھ سات اوقیےچاندی میں فروخت کیا، پھر اس سے باغ خریدا۔ (فتح الباري:51/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4142.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4322
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4322
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4322
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
حنین مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان عرفات کی طرف ایک وادی کا نام ہے۔دراصل یہ وادی ایک شخص کے نام سے موسوم ہے۔فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ مالک بن عوف نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے چند قبائل کو تیار کر رکھا ے جن میں ہوازن اور ثقیف سر فہرست ہیں۔ ان کی تعداد تقریباً چار ہزارتھی جبکہ مسلمانوں کی نفری بارہ ہزار پر مشتمل تھی۔ مسلمانوں کو کثرت پر کچھ غرور ہو گیا۔ کسی نے کہا:آج یہ قبائل ہم پر غلبہ نہیں پا سکتے۔یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آئی کیونکہ تعداد کی کثرت پر فتح و نصرت موقوف نہیں ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس غرور کو توڑنے کے لیے پہلے مسلمانوں کو سخت آزمائش سے دوچار کیا، اس کے بعد اس نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل اسلام کی مدد فرمائی اور آخری فتح مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ حنین کے سال روانہ ہوئے۔ جب ہماری کفار کے ساتھ جنگ شروع ہوئی تو مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران میں نے ایک مشرک کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر غلبہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ میں نے اس کے پیچھے سے ہو کر اس کے کندھے پر تلوار ماری اور اس کی زرہ کاٹ دی۔ وہ میری طرف پلٹ آیا اور مجھے اتنے زور سے دبایا کہ میں نے اس کے دبانے سے موت کی سختی محسوس کی۔ پھر جب اسے موت نے آ لیا تو اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ میں حضرت عمر ؓ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ایسا اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔ بہرحال لوگ (رسول اللہ ﷺ کی طرف) لوٹ آئے تو نبی ﷺ نے بیٹھ کر اعلان کیا: ’’جس نے کسی کو قتل کیا ہے اور اس کے پاس گواہ ہے تو اس کو مقتول کا سازوسامان ملے گا۔‘‘ میں نے کہا: میرے لیے کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر نبی ﷺ نے اسی بات کو دہرایا تو میں نے کھڑے ہو کر کہا: میرے لیے کون گواہی دے گا؟ (لوگوں کی خاموشی دیکھ کر) میں پھر بیٹھ گیا۔ نبی ﷺ نے پھر اسی بات کو دہرایا تو میں کھڑا ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابوقتادہ! کیا ماجرا ہے؟‘‘ میں نے آپ کو سارا واقعہ بتایا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ابو قتادہ نے سچ کہا ہے۔ اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ آپ انہیں میری طرف سے خوش کر دیں، یعنی سامان میرے پاس ہی رہنے دیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہو گا! تب تو رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر دیا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے دفاع کرتا ہے اور تجھے اس کا سامان دے دیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ابوبکر ؓ نے سچکہا ہے۔ تم مقتول کا سامان اس کے حوالے کر دو۔‘‘ ابو قتادہ کہتے ہیں کہ اس نے مقتول کا سامان میرے حوالے کر دیا اور میں نے اس سامان کے عوض قبیلہ بنو سلمہ میں ایک باغ خرید لیا۔ یہ پہلی جائیداد تھی جو میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں غزوہ حنین کے وقت مسلمانوں کی وقتی شکست کو انتشار و اضطراب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ انتشاربھی بعض نئےاسلام قبول کرنے والوں میں تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے قریبی ساتھی اس سے محفوظ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مٹھی میں مٹی لے کر مشرکین کے منہ پر ماری اور فرمایا: "ان کے چہرے سیاہ ہوں۔" تو معجزانہ طور پر تمام مشرکین اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ 2۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے قبیلہ ہوازن کے لوگوں کو شکست سے دوچار کیا اور وہ بھاگ نکلے۔ اس روز رسول اللہ ﷺ نے اعلان کیا: "جو کسی کافر کو قتل کرے وہ اس کا سامان لے لے۔" اس روز حضرت ابو طلحہ ؓ نے بیس مشرکین کو قتل کیا اور ان کے سامان پر قبضہ کیا تھا۔ حضرت قتادہ ؓ کا واقعہ بھی اسی روز کا ہے، انھوں نے ایک مشرک کو قتل کیا تھا جس کے پاس بہت اسلحہ تھا اس پر ایک آدمی نے قبضہ جما لیا، پھر حضرت ابوبکر ؓ کے کہنے پر وہ سامان ابو قتادہ ؓ کے حوالے کیا گیا۔ حضرت ابو قتادہ ؓ نے وہ سامان حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے ہاتھ سات اوقیےچاندی میں فروخت کیا، پھر اس سے باغ خریدا۔ (فتح الباري:51/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک ؓ نے خبردی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں عمر وبن کثیر بن افلح نے، انہیں قتادہ کے مولیٰ ابو محمد نے اور ان سے ابو قتادہ ؓ نے بیان کیاکہ غزوئہ حنین کے لیے ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نکلے۔ جب جنگ ہوئی تو مسلمان ذرا ڈگمگا گئے (یعنی آگے پیچھے ہوگئے) میں نے دیکھا کہ ایک مشرک ایک مسلمان کے اوپر غالب ہورہا ہے، میں نے پیچھے سے ا س کی گردن پر تلوار ماری اور اس کی زرہ کا ٹ ڈالی۔ اب وہ مجھ پر پلٹ پڑا اور مجھے اتنی زور سے بھینچا کہ موت کی تصویر میری آنکھوں میںپھر گئی، آخر وہ مر گیا اور مجھے چھوڑدیا ۔ پھر میری ملاقات عمر ؓ سے ہوئی۔ میں نے پوچھا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، یہی اللہ عز وجل کا حکم ہے پھر مسلمان پلٹے اور (جنگ ختم ہونے کے بعد) حضوراکرم ﷺ تشریف فرما ہوئے اور فرمایا جس نے کسی کو قتل کیا ہواور اس کے لیے کوئی گواہ بھی رکھتا ہوتو اس کا تمام سامان وہتھیار اسے ہی ملے گا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گا ؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ بیان کیا کہ پھر آپ نے دوبارہ یہی فرمایا۔ اس مرتبہ پھر میں نے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گاَ ؟ اور پھر بیٹھ گیا۔ حضور ﷺ نے پھر اپنا فرمان دہرایا تو میں اس مرتبہ کھڑاہوگیا۔ حضور ﷺ نے اس مرتبہ فرمایا کیا بات ہے اے ابوقتادہ ! میں نے آپ کو بتایا تو ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی) نے کہا کہ یہ سچ کہتے ہیں اور ان کے مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ آپ میرے حق میں انہیں راضی کردیں (کہ سامان مجھ سے نہ لیں) اس پر ابوبکر ؓ نے فرمایا نہیں خدا کی قسم! اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر، جواللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے لڑتا ہے پھرحضور ﷺ اس کا حق تمہیں ہرگز نہیں دے سکتے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا، تم سامان ابو قتادہ ؓ کو دے دو۔ انہوں نے سامان مجھے دے دیا۔ میں نے اس سامان سے قبیلہ سلمہ کے محلہ میں ایک باغ خریدا اسلام کے بعد یہ میرا پہلامال تھا۔ جسے میں نے حاصل کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
غزوئہ حنین کے بارے میں مزید معلومات درج ذیل ہیں۔ غزوئہ بدر کے بعد دوسرا غزوہ جس کا تذکرہ اشارۃً نہیں بلکہ نام کی صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے وہ غزوئہ حنین ہے۔ حنین ایک وادی کا نام ہے جو شہر طائف سے 30-40 میل شمال ومشرق میں جبل اوطاس میں واقع ہے۔ یہ عرب کا مشہور جنگجو و جنگ باز قبیلہ ہوازن کا مسکن تھا اور اس قبیلہ کی ملکئہ تیر اندازی کی شہرت دوردور تھی۔ انہوں نے فتح مکہ کی خبر پا کر دل میں کہا کہ جب قریش مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے تو اب ہما ری بھی خیر نہیں اور خود ہی جنگ و قتال کا سامان شروع کر دیا اور چاہا کہ مسلمانوں پر جو ابھی مکہ ہی میں یکجا تھے، یک بیک آپڑیں اور اس منصوبہ میں ایک دوسرا پر قوت اور جنگجو قبیلہ بنی ثقیف بھی ان کا شریک ہو گیا اور ہوازن اور ثقیف کے اتحاد نے دشمن کی جنگی قوت کوبہت ہی بڑھا دیا۔ حضور ﷺ کو جب اس کی معتبر خبر مل گئی تو ایک اچھے جنرل کی طرح آپ خود ہی پیش قدمی کر کے باہر نکل آئے اور مقام حنین پر غنیم کے سامنے صف آرائی کر لی۔ آپ کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ ان میں دس ہزار تو وہی فدائی جو مدینہ سے ہم رکاب آئے تھے۔ دو ہزار آدمی مکہ کے بھی شامل ہوگئے مگر ان میں سب مسلمان نہ تھے کچھ تو ابھی بہ دستور مشرک ہی تھے اور کچھ نو مسلم کے بجائے، نیم مسلم تھے۔ بہر حال مجاہدین کی اس جمیعت کثیر پر مسلمانوں کو ناز ہو چلا کہ جب ہم تعداد قلیل میں رہ کر برابر فتح پاتے آئے تو اب کی تعداد اتنی بڑی ہے، اب فتح میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔ لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو اس کے بعض دور اسلامی لشکر پر بہت ہی سخت گذرے اور مسلمانوں کا اپنی کثرت تعداد پر فخر کرنا ذرا بھی ان کے کام نہ آیا۔ ایک موقع ایسا بھی پیش آیا کہ اسلامی فوج کو ایک تنگ نشیبی وادی میں اترنا پڑا اور دشمن نے اپنی کمین گاہ سے یک بیک ان پر تیروں کی بارش شروع کردی۔ خیر پھر غیبی امداد کا نزول ہوااور آخری فتح مسلمانوں ہی کے حصے میں رہی۔ قرآن مجید نے اس سارے نشیب و فراز کی نقشہ کشی اپنے الفاظ میں کر دی ہے۔ ﴿لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (25) ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ﴾(التوبة:25) اللہ نے یقینا بہت سارے موقعوں پر تمہاری نصرت کی ہے اور حنین کے دن بھی جب کہ تم کو اپنی کثرت تعداد پر غرور ہوگیا تھا تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگی کرنے لگی پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنی طرف سے اپنے رسول اور مومنین پر تسلی نازل فرمائی اور اس نے ایسے لشکر اتارے جنہیں تم دیکھ نہ سکے اور اللہ نے کافروں کو عذاب میں پکڑا۔ یہی بدلہ ہے کافروں کے لیے۔ غزوئہ حنین کا زمانہ شوال سنہ 8ھ مطابق جنوری سنہ663ء کا ہے۔ (قرآنی سیرت نبوی) حدیث ہذا -----کے ذیل علامہ قسطلانی لکھتے ہیں۔ قال الحافظ أبو عبد الله الحميدي الأندلسي: سمعت بعض أهل العلم يقول عند ذكر هذا الحديث: لو لم يكن من فضيلة الصديق -رضي الله عنه- إلا هذا فإنه يثاقب علمه وشدة صرامته وقوّة إنصافه وصحة توفيقه وصدق تحقيقه بادر إلى القول الحق فزجر وأفتى وحكم وأمضى، وأخبر في الشريعة عنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بحضرته وبين يديه بما صدّقه فيه وأجراه على قوله، وهذا من خصائصه الكبرى إلى ما لا يحصى من فضائله الأخرى. (قسطلانی) یعنی حافظ ابو عبداللہ حمیدی اندلسی نے کہا کہ میں نے اس حدیث کے ذکر میں بعض اہل علم سے سنا کہ اگر حضرت صدیق اکبر ؓ کے فضائل میں اور کوئی حدیث نہ ہوتی صرف یہی ہوتی تو بھی ان کے فضائل کے لیے یہی کافی تھی جس سے ان کا علم ان کی پختگی قوت انصاف اور عمدہ توفیق اور تحقیق حق وغیرہ اوصاف حمیدہ ظاہر ہیں۔ انہوں نے حق بات کہنے میں کس قدر دلیری سے کام لیا اور فتوی دینے کے ساتھ غلط گوکوڈانٹا اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ آنحضرت ﷺ کے دربارعالی میں آواز حق کو بلند کیا، جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تصدیق فرمائی اور ہو بہواسے جاری فرما دیا۔ یہ امور حضرت ابوبکر ؓ کے خصائص میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی حضرت صدیق اکبر ؓ کی روح پر بے شمار سلام اور رحمت نازل فرمائے۔ آمین (راز)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
When it was the day of (the battle of) Hunain, I saw a Muslim man fighting with one of the pagans and another pagan was hiding himself behind the Muslim in order to kill him. So I hurried towards the pagan who was hiding behind the Muslim to kill him, and he raised his hand to hit me but I hit his hand and cut it off. That man got hold of me and pressed me so hard that I was afraid (that I would die), then he knelt down and his grip became loose and I pushed him and killed him. The Muslims (excepting the Prophet (ﷺ) and some of his companions) started fleeing and I too, fled with them. Suddenly I met `Umar bin Al-Khattab amongst the people and I asked him, "What is wrong with the people?" He said, "It is the order of Allah" Then the people returned to Allah's Messenger (ﷺ) (after defeating the enemy). Allah's Messenger (ﷺ) said, "Whoever produces a proof that he has killed an infidel, will have the spoils of the killed man." So I got up to look for an evidence to prove that I had killed an infidel, but I could not find anyone to bear witness for me, so I sat down. Then it came to my mind (that I should speak of it) and I mentioned the case to Allah's Messenger (ﷺ). A man from the persons who were sitting with him (i.e. the Prophet), said, "The arms of the deceased one whom he ( i.e. Abu Qatada) has mentioned, are with me, so please compensate him for it (i.e. the spoils)," Abu Bakr said, "No, Allah's Messenger (ﷺ) will not give it (i.e. the spoils) to a weak humble person from Quraish and leave one of Allah's Lions who fights on behalf of Allah and His Apostle." Allah's Messenger (ﷺ) then got up and gave that (spoils) to me, and I bought with it, a garden which was the first property I got after embracing Islam.