باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of At-Taif)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4329.
حضرت یعلیٰ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کاش میں رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں دیکھو جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ ایک دفعہ آپ جعرانه میں تشریف فرما تھے۔ آپ پر ایک کپڑے سے سایہ کیا گیا تھا۔ اس مقام پر آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓ بھی تھے۔ اچانک ایک دیہاتی آیا جس پر خوشبو سے لت پت جبہ تھا۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے جس نے عمرے کا احرام ایسے جبے میں باندھا ہے جو خوشبو سے لت پت ہے؟ حضرت عمر ؓ نے اپنے ہاتھ سے حضرت یعلیٰ ؓ کو اشارہ کیا کہ آؤ (اور نزول وحی کی حالت کو دیکھو) چنانچہ حضرت یعلیٰ ؓ آئے اور اپنا سر اس پردے میں داخل کیا، دیکھتے ہیں کہ نبی ﷺ کا چہرہ انور سرخ ہے، کچھ دیر تک آپ خراٹے لیتے رہے، پھر یہ حالت جاتی رہی تو آپ نے فرمایا: ’’وہ شخص کہاں ہے جس نے ابھی ابھی عمرے کے متعلق سوال کیا تھا؟‘‘ اسے تلاش کر کے آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’جو خوشبو تم نے لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھو ڈالو اور جبے کو اتار دو، پھر اپنے عمرے میں وہی کچھ کرو جو حج میں کرتے ہو۔‘‘
تشریح:
1۔ یعلیٰ سے مراد حضرت یعلیٰ بن صفوان تمیمی ؓ ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں خدمت گزاری کے طور پر ساتھ رکھا تھا۔ 2۔ چونکہ یہ واقعہ مقام جعرانہ پرپیش آیا جہاں اموال غنیمت تھے، اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام کے بعد خوشبو لگانا جائز نہیں، البتہ اگراحرام سے پہلے خوشبو لگائی ہو اور بدن پر اس کے اثرات احرام کے بعد باقی رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ احرام سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگاتی تھیں جس کا اثر احرام کے بعدباقی رہتا تھا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1538) 4۔ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے جو اس واقعے کے بعد ہوا، لہذا اس کوترجیح ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4148
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4329
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4329
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4329
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
طائف ملے سے ننانوے (99) کلو میٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت شہر ہے۔ قرآن قرآن کریم نے اس کازکر ان الفاظ میں کیا ہے:"یہ قرآن دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا۔"( الزخرف 43۔31۔)دوشہروں سے مراد مکہ مکرمہ اور طائف ہیں۔ اس کی سطح مرتفع اور جگہ بڑی زرخیر ہے۔ اس کا پانی ٹھنڈا زدو ہضم اور خوشگوار ہے۔ وہاں جملہ اقسام کے پھل میوے اور غلے پیدا ہوتے ہیں طائف کے انگور بہت مشہور ہیں۔ موسم انتہائی معتدل اور خوشگوار ہے۔ وہاں جملہ اقسام کے پھل میوے اور غلے پیدا ہوتے ہیں طائف کے انگور بہت مشہور ہیں۔موسم انتہائی معتدل اور خوشگوار رہتا ہے۔ موسم گرما میں سعودیہ کے اکثر سرکاری محکمے وہاں منتقل ہو جاتے ہیں اور بیشتر رؤسائے مکہ بھی طائف چلے جاتے ہیں قبیلہ ہوازن کے بچے کھچے لوگ طائف میں پناہ گزیں ہوئے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سرکوبی کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔
حضرت یعلیٰ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کاش میں رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں دیکھو جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ ایک دفعہ آپ جعرانه میں تشریف فرما تھے۔ آپ پر ایک کپڑے سے سایہ کیا گیا تھا۔ اس مقام پر آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓ بھی تھے۔ اچانک ایک دیہاتی آیا جس پر خوشبو سے لت پت جبہ تھا۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے جس نے عمرے کا احرام ایسے جبے میں باندھا ہے جو خوشبو سے لت پت ہے؟ حضرت عمر ؓ نے اپنے ہاتھ سے حضرت یعلیٰ ؓ کو اشارہ کیا کہ آؤ (اور نزول وحی کی حالت کو دیکھو) چنانچہ حضرت یعلیٰ ؓ آئے اور اپنا سر اس پردے میں داخل کیا، دیکھتے ہیں کہ نبی ﷺ کا چہرہ انور سرخ ہے، کچھ دیر تک آپ خراٹے لیتے رہے، پھر یہ حالت جاتی رہی تو آپ نے فرمایا: ’’وہ شخص کہاں ہے جس نے ابھی ابھی عمرے کے متعلق سوال کیا تھا؟‘‘ اسے تلاش کر کے آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’جو خوشبو تم نے لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھو ڈالو اور جبے کو اتار دو، پھر اپنے عمرے میں وہی کچھ کرو جو حج میں کرتے ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ یعلیٰ سے مراد حضرت یعلیٰ بن صفوان تمیمی ؓ ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں خدمت گزاری کے طور پر ساتھ رکھا تھا۔ 2۔ چونکہ یہ واقعہ مقام جعرانہ پرپیش آیا جہاں اموال غنیمت تھے، اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام کے بعد خوشبو لگانا جائز نہیں، البتہ اگراحرام سے پہلے خوشبو لگائی ہو اور بدن پر اس کے اثرات احرام کے بعد باقی رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ احرام سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگاتی تھیں جس کا اثر احرام کے بعدباقی رہتا تھا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1538) 4۔ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے جو اس واقعے کے بعد ہوا، لہذا اس کوترجیح ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا مجھ کو عطا بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے خبر دی کہ یعلیٰ نے کہا کاش میں رسول اللہ ﷺ کو اس وقت دیکھ سکتا جب آپ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ بیان کیا کہ حضور اکرم ﷺ جعرانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ کے لیے ایک کپڑے سے سایہ کر دیا گیا تھااور اس میں چند صحابہ ؓ بھی آپ کے ساتھ موجود تھے۔ اتنے میں ایک اعرابی آئے وہ ایک جبہ پہنے ہوئے تھے، خوشبو میں بسا ہوا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایک ایسے شخص کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے جو اپنے جبہ میں خوشبو لگانے کے بعد احرام باندھے؟ فورا ہی عمر ؓ نے یعلیٰ ؓ کے آنے کے لیے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ یعلیٰ ؓ حاضر ہو گئے اور اپنا سر (آنحضرت ﷺ کو دیکھنے کے لیے) اندر کیا (نزول وحی کی کیفیت سے) آنحضور ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور زور زور سے سانس چل رہی تھی۔ تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی پھر ختم ہوگئی تو آپ نے دریافت فرمایا ابھی عمرہ کے متعلق جس نے سوال کیا تھا وہ کہا ں ہے؟ انہیں تلاش کر کے لایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جو خوشبو تم نے لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھولو اور جبہ اتار دو اور پھر عمرہ میں وہی کام کرو جو حج میں کرتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی بحث کتاب الحج میں گزر چکی ہے۔ قسطلانی نے کہا حجۃ الوداع کی حدیث اس کی ناسخ ہے اور یہ حدیث منسوخ ہے۔ حجۃ الوداع کی حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے احرام باندھتے وقت آنحضرت ﷺ کو خوشبو لگائی تھی۔ لہذا خوشبو کا استعمال جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Safwan bin Ya'la bin Umaiya (RA) : Ya'la used to say, "I wish I could see Allah's Apostle (ﷺ) at the time when he is being inspired divinely." Ya'la added "While the Prophet (ﷺ) was at Al-Ja'rana, shaded with a cloth sheet (in the form of a tent) and there were staying with him, some of his companions under it, suddenly there came to him a bedouin wearing a cloak and perfumed extravagantly. He said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What is your opinion regarding a man who assumes the state of Ihram for 'Umra wearing a cloak after applying perfume to his body?" 'Umar signalled with his hand to Ya'la to come (near). Ya'la came and put his head (underneath that cloth sheet) and saw the Prophet (ﷺ) red-faced and when that state (of the Prophet) was over, he said, "Where is he who as already asked me about the 'Umra?" The man was looked for and brought to the Prophet (ﷺ) The Prophet (ﷺ) said (to him), "As for the perfume you have applied to your body, wash it off your body) thrice, and take off your cloak, and then do in your 'Umra the rites you do in your Hajj."