باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of At-Taif)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4330.
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو غزوہ حنین میں غنیمت عطا فرمائی تو آپ نے ان لوگوں میں مال غنیمت تقسیم کیا جن کے دل اسلام پر جمانے مقصود تھے اور انصار کو کچھ نہ دیا، گویا وہ اس وجہ سے غمناک ہوئے کہ جو مال لوگوں کو ملا انہیں نہ ملا۔ آپ نے انہیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے گروہ انصار! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا کہ اللہ تعالٰی نے میری وجہ سے تمہیں سیدھی راہ دکھائی؟ تم ایک دوسرے سے جدا جدا تھے، اللہ تعالٰی نے میری وجہ سے تم میں اتحاد و اتفاق پیدا فرمایا۔ تم محتاج تھے، اللہ تعالٰی نے میری وجہ سے تمہیں غنی کر دیا؟‘‘ آپ ﷺ جب بھی کچھ فرماتے تو انصار کہتے کہ اللہ اور اس کے رسول کا بہت احسان ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تمہیں رسول اللہ ﷺ کو جواب دینے سے کس چیز نے روک رکھا ہے؟‘‘ لیکن جب بھی آپ کوئی بات فرماتے تو وہ کہتے: واقعی اللہ اور اس کے رسول کا سب سے بڑا احسان ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ آپ ہمارے پاس ان ان حالات میں تشریف لائے۔ کیا تم خوش نہیں ہو کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں میں اللہ کا نبی ﷺ لے کر جاؤ؟ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا۔ اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا۔ انصار تو اندر کا کپڑا، یعنی استر ہیں اور دوسرے لوگ باہر کے کپڑے، یعنی ابرہ کی طرح ہیں۔ میرے بعد تمہیں ترجیحات سے واسطہ پڑے گا۔ صبر کرتے رہو حتی کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔‘‘
تشریح:
1۔فتح مکہ کے وقت کچھ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، ان کا اسلام کمزورتھا، ان کے دل جمانے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں بہت سا مال دیا، انھیں مؤلفۃ القلوب کہا جاتا ہے۔ مؤرخین نے چالیس سے کچھ زیادہ حضرات کے نام ذکر کیے ہیں۔ اس تقسیم پر انصار غمناک ہوئے تو آپ نے انھیں حقیقت حال سے خبردار کیا، پھر آپ نے انصار کی دل جوئی فرمائی جس سے یہ حضرات خوش ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے مزید تواضع اور انکسار کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگرتم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ آپ ہمارے پاس آئے، لوگوں نے آپ کو جھوٹا کہا، لیکن ہم نے آپ کو سچا جانا۔ آپ کمزور تھے ہم نے آپ کی مدد کی۔ آپ تنہا تھے ہم نے آپ کو جگہ دی اورآپ کی ہرطرح سے موافقت کی۔‘‘ یہ سب کچھ آپ نے بطور تواضع فرمایا تھا ورنہ نصرت ومواسات وغیرہ اللہ کی توفیق اور اس کی عنایات کا نتیجہ تھا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے انصار کو خبردار کیا کہ اللہ تعالیٰ کا تم پر بڑا احسان ہے، اس سے غفلت نہ کرو، دنیا فانی کے اسباب لے کر کیا کرو گے اور انھیں کب تک استعمال کرو گے۔ (فتح الباري:64/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4149
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4330
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4330
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4330
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
طائف ملے سے ننانوے (99) کلو میٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت شہر ہے۔ قرآن قرآن کریم نے اس کازکر ان الفاظ میں کیا ہے:"یہ قرآن دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا۔"( الزخرف 43۔31۔)دوشہروں سے مراد مکہ مکرمہ اور طائف ہیں۔ اس کی سطح مرتفع اور جگہ بڑی زرخیر ہے۔ اس کا پانی ٹھنڈا زدو ہضم اور خوشگوار ہے۔ وہاں جملہ اقسام کے پھل میوے اور غلے پیدا ہوتے ہیں طائف کے انگور بہت مشہور ہیں۔ موسم انتہائی معتدل اور خوشگوار ہے۔ وہاں جملہ اقسام کے پھل میوے اور غلے پیدا ہوتے ہیں طائف کے انگور بہت مشہور ہیں۔موسم انتہائی معتدل اور خوشگوار رہتا ہے۔ موسم گرما میں سعودیہ کے اکثر سرکاری محکمے وہاں منتقل ہو جاتے ہیں اور بیشتر رؤسائے مکہ بھی طائف چلے جاتے ہیں قبیلہ ہوازن کے بچے کھچے لوگ طائف میں پناہ گزیں ہوئے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سرکوبی کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو غزوہ حنین میں غنیمت عطا فرمائی تو آپ نے ان لوگوں میں مال غنیمت تقسیم کیا جن کے دل اسلام پر جمانے مقصود تھے اور انصار کو کچھ نہ دیا، گویا وہ اس وجہ سے غمناک ہوئے کہ جو مال لوگوں کو ملا انہیں نہ ملا۔ آپ نے انہیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے گروہ انصار! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا کہ اللہ تعالٰی نے میری وجہ سے تمہیں سیدھی راہ دکھائی؟ تم ایک دوسرے سے جدا جدا تھے، اللہ تعالٰی نے میری وجہ سے تم میں اتحاد و اتفاق پیدا فرمایا۔ تم محتاج تھے، اللہ تعالٰی نے میری وجہ سے تمہیں غنی کر دیا؟‘‘ آپ ﷺ جب بھی کچھ فرماتے تو انصار کہتے کہ اللہ اور اس کے رسول کا بہت احسان ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تمہیں رسول اللہ ﷺ کو جواب دینے سے کس چیز نے روک رکھا ہے؟‘‘ لیکن جب بھی آپ کوئی بات فرماتے تو وہ کہتے: واقعی اللہ اور اس کے رسول کا سب سے بڑا احسان ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ آپ ہمارے پاس ان ان حالات میں تشریف لائے۔ کیا تم خوش نہیں ہو کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں میں اللہ کا نبی ﷺ لے کر جاؤ؟ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا۔ اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا۔ انصار تو اندر کا کپڑا، یعنی استر ہیں اور دوسرے لوگ باہر کے کپڑے، یعنی ابرہ کی طرح ہیں۔ میرے بعد تمہیں ترجیحات سے واسطہ پڑے گا۔ صبر کرتے رہو حتی کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔فتح مکہ کے وقت کچھ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، ان کا اسلام کمزورتھا، ان کے دل جمانے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں بہت سا مال دیا، انھیں مؤلفۃ القلوب کہا جاتا ہے۔ مؤرخین نے چالیس سے کچھ زیادہ حضرات کے نام ذکر کیے ہیں۔ اس تقسیم پر انصار غمناک ہوئے تو آپ نے انھیں حقیقت حال سے خبردار کیا، پھر آپ نے انصار کی دل جوئی فرمائی جس سے یہ حضرات خوش ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے مزید تواضع اور انکسار کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگرتم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ آپ ہمارے پاس آئے، لوگوں نے آپ کو جھوٹا کہا، لیکن ہم نے آپ کو سچا جانا۔ آپ کمزور تھے ہم نے آپ کی مدد کی۔ آپ تنہا تھے ہم نے آپ کو جگہ دی اورآپ کی ہرطرح سے موافقت کی۔‘‘ یہ سب کچھ آپ نے بطور تواضع فرمایا تھا ورنہ نصرت ومواسات وغیرہ اللہ کی توفیق اور اس کی عنایات کا نتیجہ تھا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے انصار کو خبردار کیا کہ اللہ تعالیٰ کا تم پر بڑا احسان ہے، اس سے غفلت نہ کرو، دنیا فانی کے اسباب لے کر کیا کرو گے اور انھیں کب تک استعمال کرو گے۔ (فتح الباري:64/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے عمر و بن یحییٰ نے، ان سے عباد بن تمیم نے، ان سے عبد اللہ بن زید بن عاصم ؓ نے بیان کیا کہ غزوئہ حنین کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو غنیمت دی تھی آپ نے اس کی تقسیم کمزور ایمان کے لوگوں میں (جوفتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے) کر دی اور انصار کو اس میں سے کچھ نہیں دیا۔ اس کا انہیں کچھ ملال ہواکہ وہ مال جو آنحضرت ﷺ نے دوسروں کو دیا انہیں کیوں نہیں دیا۔ آ پ نے اس کے بعد انہیں خطاب کیا اور فرمایا اے انصاریو! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھاپھر تم کو میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اور تم میں آپس میں دشمنی اور نااتفاقی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں باہم الفت پیدا کی اور تم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا۔ آپ کے ایک ایک جملے پر انصار کہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری باتوں کا جواب دینے سے تمہیں کیا چیز مانع رہی؟ بیان کیا کہ حضور ﷺ کے ہر اشارہ پر انصار عرض کرتے جاتے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیا دہ احسان مند ہیں پھر حضور نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے تو مجھ سے اس طرح بھی کہہ سکتے تھے (کہ آپ آئے تو لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے، لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی وغیرہ) کیا تم اس پر خوش نہیں ہوکہ جب لوگ اونٹ اور بکریاں لے جارہے ہوں تو تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے جاؤ؟ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک آدمی ہوتا۔ لوگ خواہ کسی گھاٹی یا وادی میں چلیں، میں تو انصار کی گھاٹی اور وادی میں چلوںگا۔ انصار استر کی طرح ہیں جو جسم سے ہمیشہ لگا رہتا ہے اور دوسرے لوگ اوپر کے کپڑے یعنی ابرہ کی طرح ہیں۔ تم لوگ (انصا ر) دیکھوگے کہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ تم ایسے وقت میں صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آملو۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی سند میں حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم زمانی کا ذکر ہے جو مشہور صحابی ہیں۔ کہتے ہیں مسیلمہ کذاب کو انہوں نے ہی ماراتھا۔ یہ واقعہ حرہ سنہ63 ھ میں یزید کی فوج کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ روایت میں آنحضرت ﷺ کے مال کے تقسیم کر نے کا ذکر ہے۔ آپ نے یہ مال قریش کے ان لوگو ں کو دیا تھاجو نومسلم تھے، ابھی ان کا اسلام مضبوط نہیں ہوا تھا، جیسے ابوسفیان، سہیل، حویطب، حکیم بن حزام، ابو السنابل، صفوان بن امیہ، عبد الرحمن بن یربوع وغیرہ۔ شعار سے مراد استر میں سے نیچے کا کپڑا اور دثار سے ابرہ یعنی اوپر کا کپڑا مراد ہے۔ انصار کے لیے آپ نے یہ شرف عطا فرمایا کہ ان کو ہر وقت اپنے جسم مبارک سے لگے ہوئے کپڑے کے مثل قرار دیا۔ فی الواقع قیامت تک کے لیے یہ شرف انصار مدینہ کو حاصل ہے کہ آپ ان کے شہر میں آرام فرما رہے ہیں۔ (ﷺ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Zaid bin Asim (RA): When Allah gave to His Apostle (ﷺ) the war booty on the day of Hunain, he distributed that booty amongst those whose hearts have been (recently) reconciled (to Islam), but did not give anything to the Ansar. So theyNarrated Anas (RA) : When it was the day of the Conquest (of Makkah) Allah's Apostle (ﷺ) distributed the war booty amongst the people of Quraish which caused the Ansar to become angry. So the Prophet (ﷺ) said, "Won't you be pleased that the people take the worldly things and you take Allah's Apostle (ﷺ) with you? "They said, "Yes." The Prophet (ﷺ) said, "If the people took their way through a valley or mountain pass, I would take my way through the Ansar's valley or mountain pass."