Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The delegation of ‘Abdul-Qais)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4371.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی مسجد، یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثیٰ کی مسجد عبدالقیس میں قائم ہوا۔ جواثی، علاقہ بحرین کا ایک گاؤں ہے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو وفد عبدالقیس کے تعارف کے سلسلے میں بیان کیا ہے۔ بتایا ہے کہ جب یہ قبیلہ مسلمان ہوا تو نماز پنجگانہ کے بعد جمعہ کی ادائیگی کا فکر ہوا تو انھوں نے بحرین کے علاقے میں ایک جواثی نامی گاؤں کا انتخاب کیا۔ 2۔ یہ دوسرا مقام ہے جہاں مسجد نبوی کے بعد دنیائے اسلام میں جمعہ قائم کیا گیا واضح رہے کہ 8 ہجری تک مسجد نبوی کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر جمعہ نہیں ہوتا تھا۔ 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیہاتوں میں جمعہ کا اہتمام ہونا چاہیے جیسا کہ وفد عبدالقیس کے ذمہ داران حضرات نے اس کا اہتمام ایک بستی میں کیا تھا، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ان لفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (بابُ الجُمُعَةِ فِي القُرٰى وَالمُدُنِ) ’’شہروں اور بستیوں میں جمعے کا اہتمام ۔‘‘ (صحیح البخاري، الجمعة، باب:11) 4۔ بحرین، بحرعمان کے کنارے پر واقع ایک علاقے کا نام ہے اور جواثی بصرہ کے قریب ایک قلعہ ہے۔ (عمدة القاري:337/12) قدیم تاریخی اصطلاح میں بحرین بصر ہ اور عمان کے درمیان ساحل خلیج کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ عہد نبوی میں سعودی عرب کا مشرقی ساحل بحرین کہلاتا تھا جس میں موجودہ جزائر بحرین اور قطر بھی شامل تھے۔ اس کا دارالحکومت ہجر تھا جواب ہفوف کہلاتا ہے۔ دارین بحرین کی بندرگاہ ہے جو موجودہ شہر قطیف کے مشرق میں جزئرہ نما تاروت پر واقع ہے موجودہ امارات بحرین جو خلیج فارس کے اندر ہے، سعودی عرب اور قطرکے مابین چند جزیروں کے مجموعے کا نام ہے جس کا دارالحکومت منامہ ہے۔ عہد نبوی کا بحرین اب سعودی عرب کا مشرقی علاقہ "الاحساء" کہلاتا ہے جو منطقہ شرقیہ کا حصہ ہے۔ (ائلس سیرت نبوی صلی اللہ علیه وسلم 30۔ طبع دارالسلام) بہر حال قبیلہ عبدالقیس بحرین کے علاقے میں آباد تھا۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4187
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4371
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4371
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4371
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
اس قبیلے کا وفد دو مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا پہلی بار 5ہجری میں یا اس سے بھی پہلے اور دوسری بار عام الوفود9 ہجری میں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے انداز اور اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس عنوان کے تحت ان کی دوسری مرتبہ حاضری کو بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن جو احادیث پیش کی ہیں ان میں پہلی دفعہ حاضری کا ذکر ہے کیونکہ ان احادیث میں کفار مضر کے حائل ہونے کا ذکر ہے اور وہ فتح مکہ سے پہلے اس پوزیشن میں تھے فتح مکہ کے بعد کفر میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کو آنے جانے سے روک سکے اس وفد کے دونوں مرتبہ آنے کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔اذن اللہ تعالیٰ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی مسجد، یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثیٰ کی مسجد عبدالقیس میں قائم ہوا۔ جواثی، علاقہ بحرین کا ایک گاؤں ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو وفد عبدالقیس کے تعارف کے سلسلے میں بیان کیا ہے۔ بتایا ہے کہ جب یہ قبیلہ مسلمان ہوا تو نماز پنجگانہ کے بعد جمعہ کی ادائیگی کا فکر ہوا تو انھوں نے بحرین کے علاقے میں ایک جواثی نامی گاؤں کا انتخاب کیا۔ 2۔ یہ دوسرا مقام ہے جہاں مسجد نبوی کے بعد دنیائے اسلام میں جمعہ قائم کیا گیا واضح رہے کہ 8 ہجری تک مسجد نبوی کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر جمعہ نہیں ہوتا تھا۔ 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیہاتوں میں جمعہ کا اہتمام ہونا چاہیے جیسا کہ وفد عبدالقیس کے ذمہ داران حضرات نے اس کا اہتمام ایک بستی میں کیا تھا، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ان لفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (بابُ الجُمُعَةِ فِي القُرٰى وَالمُدُنِ) ’’شہروں اور بستیوں میں جمعے کا اہتمام ۔‘‘ (صحیح البخاري، الجمعة، باب:11) 4۔ بحرین، بحرعمان کے کنارے پر واقع ایک علاقے کا نام ہے اور جواثی بصرہ کے قریب ایک قلعہ ہے۔ (عمدة القاري:337/12) قدیم تاریخی اصطلاح میں بحرین بصر ہ اور عمان کے درمیان ساحل خلیج کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ عہد نبوی میں سعودی عرب کا مشرقی ساحل بحرین کہلاتا تھا جس میں موجودہ جزائر بحرین اور قطر بھی شامل تھے۔ اس کا دارالحکومت ہجر تھا جواب ہفوف کہلاتا ہے۔ دارین بحرین کی بندرگاہ ہے جو موجودہ شہر قطیف کے مشرق میں جزئرہ نما تاروت پر واقع ہے موجودہ امارات بحرین جو خلیج فارس کے اندر ہے، سعودی عرب اور قطرکے مابین چند جزیروں کے مجموعے کا نام ہے جس کا دارالحکومت منامہ ہے۔ عہد نبوی کا بحرین اب سعودی عرب کا مشرقی علاقہ "الاحساء" کہلاتا ہے جو منطقہ شرقیہ کا حصہ ہے۔ (ائلس سیرت نبوی صلی اللہ علیه وسلم 30۔ طبع دارالسلام) بہر حال قبیلہ عبدالقیس بحرین کے علاقے میں آباد تھا۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبد اللہ بن محمد الجعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عامر عبد الملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، (یہ طہمان کے بیٹے ہیں۔) ان سے ابو جمرہ نے بیان کیا اوران سے حضر ت عبد اللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثی کی مسجد عبد القیس میں قائم ہوا۔ جواثی بحرین کا ایک گاؤں تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو یہاں صرف وفد عبد القیس کے تعارف کے سلسلے میںلائے ہیں اور بتلایا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گاؤں جواثی نامی میں جمعہ قائم کیا تھا۔ یہ دوسرا جمعہ ہے جو مسجد نبوی کے بعد دنیائے اسلام میں قائم کیا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گاؤں میں بھی قیام جماعت کے ساتھ قیام جمعہ جائز ہے۔ مگر صدافسوس کہ غالی علماءاحناف نے اقامت جمعہ فی القری کی شدید مخالفت کی ہے۔ میرے سامنے تجلی بابت اپریل سنہ1957ء کا پرچہ رکھا ہو اہے جس کے ص19 پر حضرت مولانا سیف اللہ صاحب مبلغ کا ذکر خیر لکھا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ دیہات میں جو جمعہ پڑھتے ہیں مجھ سے لکھا لو وہ دوزخی ہیں۔ یہ حضرت مولانا سیف اللہ صاحب ہی کا خیا ل نہیں بلکہ بیشتر اکابر دیوبند ایساہی کہتے چلے آرہے ہیں۔ اس مسئلہ کے متعلق ہم کتاب الجمعہ میں کافی لکھ چکے ہیں۔ مزید ضرورت نہیں ہے۔ ہاں ایک بڑے زبر دست حنفی عالم مترجم وشارح بخاری شریف کی تقریر یہاں نقل کردیتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ احناف کی عائد کردہ شرائط جمعہ کا وزن کیا ہے اور گاؤں میں جمعہ جائز ہے یا نا جائز۔ انصاف کے لیے یہ تقریر دل پذیر کافی وافی ہے۔ ایک معتبر حنفی عالم کی تقریر:
جواثی بحرین کے متعلقات میں سے ایک گاؤں ہے۔ نماز جمعہ مثل اور فرض نمازوں کے ہے جو شروط اور نمازوں کے واسطے مثل طہارت بدن وجامہ اور سوائے اس کے مقرر ہیں وہی اس کے واسطے ہیں، سوائے مشروعیت دو خطبہ کے اور کوئی دلیل قابل استدلال ایسی ثابت نہیں ہوئی جس سے اور نمازوں سے اس کی مخالفت پائی جائے۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ اس نماز کے واسطے شروط ثابت کرنے کے واسطے مثل امام اعظم اور مصر جامع اور عدد مخصوص کی سند صحیح پائی نہیں جاتی بلکہ ان سے ثابت بھی نہیں ہوتا اگر دو شخص نماز جمعہ کی بھی پڑھ لیں تو ان کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گی اور اکیلے آدمی کا جمعہ پڑھنا ابوداود کی اس روایت کے خلاف ہے۔ الجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ اور نہ آنحضرت ﷺ نے سوائے جماعت کے جمعہ پڑھا ہے اور عدد مخصوص کی بابت شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے جیسا کہ ایک شخص کے اکیلا نماز پڑھنے کے واسطے کوئی دلیل نہیں پائی ہے۔ ایسا ہی اسّی یا تیس یا بیس یا نو یا سات آدمیوں کے واسطے بھی کوئی دلیل نہیں پائی گئی اور جس نے کم آدمیوں کی شرط قرار دی ہے دلیل اس کی یہ ہے، اجماع اور حدیث سے وجوب کا عدد ثابت ہے اور عدم ثبوت دلیل کا واسطے اشتراط عدد مخصوص کے اور صحت نماز دو آدمیوں کے باقی نمازوں میں اور عدم فرق درمیان جمعہ اور جماعت کے شیخ عبد الحق نے فرمایا ہے۔ عدد جمعہ کی بابت کوئی دلیل ثابت نہیں اور ایسا ہی سیوطی نے کہا ہے اور جو روایتیں جن سے عدد مخصوص ثابت ہوتا ہے وہ سب کی سب ضعیف ہیں قابل استدلال کے ان میں سے کوئی نہیں اور شرط امام اعظم یعنی سلطان کی جو فقط حضرت امام ابو حنیفہ ؒ سے مروی ہے دلیل ان کی یہ ہے أَرْبَعَةٌ إِلَى السُّلْطَانِوفي روایةإلی الأئمةِ الجمعةُ الزَّكَاةُ وَالْحُدُودُ وَالْقَضَاءُ أخرجه ابن أبي شیبة۔ لیکن یہ روایت آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں بلکہ یہ چند تابعیوں کا قول ہے ان میں سے حسن بصری ہیں اور عبد اللہ بن محریز اور عمر بن عبد العزیز اور عطاء اور مسلم بن یسار، پس اس سے حجت خصم ثابت نہیں ہوسکتی اور یہ روایت جو بزار نے جابر ؓ سے۔ طبرانی نے ابو سعید ؓ سے اور بیہقی نے ابو ہریرہ ؓ سے ان لفظوں سے أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْكُمُ الْجُمُعَةَ فِى شهرکم ھذا وَلَهُ إِمَامٌ عَادِلٌ أَوْ جَائِرٌ، الحدیث نکالی ہے اضعف ہے بلکہ موضوع ہے اور ابن ماجہ سے جو روایت میں ولہ امام عادل او جابر کا لفظ نہیں اور یہی محل حجت کے ہے۔ بزار کی روایت میں عبد اللہ بن محمد سہمی ہے، وکیع نے کہا ہے کہ وہ وضاع ہے اور بخاری نے کہا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے اور ابن حبان نے کہا ہے اس سے حجت پکڑنی درست نہیں اور بیہقی کی روایت زکریا سے ہے اس کو صالح اور ابن عدی اور مغنی نے کذب اور وضع سے مہتم کیا ہے۔ (فضل الباری ترجمہ صحیح بخاری ترجمہ مولانا فضل احمد شائع کردہ شرف الدین اور فخر الدین حنفی المذہب لاہور در سنہ1886عیسوی پارہ نمبر3، ص:301)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) : The first Friday (i.e. Jumua) prayer offered after the Friday Prayer offered at the Mosque of Allah's Apostle (ﷺ) was offered at the mosque of Abdul Qais situated at Jawathi, that is a village at Al Bahrain .