Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The arrival of Al-Ash’ariyun and the people of Yemen)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( یہ لوگ بصورت وفد ۷ھ میں خیبر کے فتح ہونے پر حاضر خدمت ہوئے تھے ) اورا بومو سیٰ اشعری ؓنے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ اشعری لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں ۔
4385.
حضرت زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب حضرت ابو موسٰی ؓ آئے تو انہوں نے قبیلہ جَرم کا بہت اعزاز و احترام کیا۔ ہم آپ کی خدمت میں بیٹھے تھے جبکہ آپ مرغی کا گوشت کھا رہے تھے۔ حاضرین میں سے ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے انہیں بھی کھانے پر بلایا تو ان صاحب نے کہا: جب سے میں نے ان مرغیوں کو کچھ چیزیں کھاتے دیکھا ہے، اسی وقت سے مجھے ان کے گوشت سے گھن آنے لگی ہے۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے فرمایا: آؤ، میں نے خود نبی ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا: لیکن میں نے اس کا گوشت نہ کھانے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے کہا کہ آؤ میں تمہاری قسم کے متعلق بھی تمہیں بتاتا ہوں۔ ہمارے قبیلہ اشعر کے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے سواریاں مانگنے لگے۔ آپ نے ہمیں سواریاں مہیا کرنے سے انکار کر دیا۔ ہم نے پھر سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے قسم اٹھائی کہ آپ ہمیں سواری مہیا نہیں کریں گے۔ پھر نبی ﷺ تھوڑی دیر ہی ٹھہرے تھے کہ آپ کے پاس غنیمت کے اونٹ آ گئے۔ آپ نے ان میں سے پانچ اونٹ ہمیں دینے کا حکم دیا۔ جب ہم نے انہیں اپنے قبضے میں لے لیا تو ہمیں خیال آیا کہ ہم نے تو نبی ﷺ کو قسم سے غافل کر دیا ہے۔ اس کے بعد تو ہم کسی صورت میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے، چنانچہ میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے تو ہمیں سواریاں نہ دینے کی قسم اٹھائی تھی جبکہ اب آپ نے ہمیں سواریاں مہیا کر دی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں ایسا ہی ہے لیکن جب میں کسی بات پر قسم اٹھا لیتا ہوں پھر اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت مجھے بہتر نظر آئے تو وہی کرتا ہوں جو اچھا اور بہتر ہوتا ہے (اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں)۔‘‘
تشریح:
1۔ جب حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں کوفہ کے گورنر بنا کر بھیجے گئے تو اس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا قبیلہ جَرم یمن میں رہتا تھا بعد میں کوفے بسیرا کر لیا اس تعلق کی وجہ سے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ان کا اعزاز و اکرام کیا۔ (عمدة القاري:349/12) 2۔ غزوہ تبوک میں شمولیت کے لیے اشعری حضرات کے پاس سواریاں نہیں تھیں اس لیے انھوں نے سواریاں کا مطالبہ کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کسی اور وجہ سے ناراض تھے، اتفاق سے آپ کے پاس سواریاں نہیں تھیں اس لیے آپ نے انکار کردیا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اس انکار کی وجہ سے بہت پریشان ہوئے کہ شاید آپ مجھ پر کسی وجہ سے ناراض ہیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:44۔15) 3۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس غنیمت کے اونٹ آئے تھے جبکہ دوسری روایات میں ہے کہ آپ نے انھیں حضرت سعد ؓ سے خریدا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:44۔15) ممکن ہے کہ حضرت سعد ؓ کو غنیمت کے مال سے بطور حصہ اونٹ ملے ہوں اور آپ نے ان سے خرید کیے ہوں۔ واللہ اعلم۔ 4۔ اونٹوں کی تعداد کے متعلق بھی اختلاف ہے بعض میں پانچ اور کسی میں چھ ہے بعض روایات میں ہے کہ آپ نے دو، دو کر کے انھیں عطا فرمائے۔ ممکن ہے کہ اصل تو پانچ ہی ہوں اور چھٹا ویسے ہی تبعاً دے دیا ہو۔ متعدد واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4199
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4385
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4385
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4385
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
اشعری حضرات بھی اہل یمن سے ہیں تاہم اہل یمن سے مراد وفد حمیر ہے ایاس بن عمیر حمیری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم حمیر قبیلے کے ہمراہ آئے اور عرض کی کہ ہم آپ سے دین سیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ وفود کے سال آئے تھے جبکہ اشعری حضرات غزوہ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد صرف ان حضرات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آمد کو بیان کرنا ہےخواہ وہ جس وقت بھی ہوئی ہو۔( فتح الباری:8/122۔) مذکورہ مطلق روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے(صحیح البخاری الشرکاۃ حدیث 2488۔)۔اشعری حضرات مجھ سے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت اور مال خرچ کرنے میں مجھ سے متصل ہیں یعنی میرے طریقے پر ہیں۔ واللہ اعلم۔
( یہ لوگ بصورت وفد ۷ھ میں خیبر کے فتح ہونے پر حاضر خدمت ہوئے تھے ) اورا بومو سیٰ اشعری ؓنے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ اشعری لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب حضرت ابو موسٰی ؓ آئے تو انہوں نے قبیلہ جَرم کا بہت اعزاز و احترام کیا۔ ہم آپ کی خدمت میں بیٹھے تھے جبکہ آپ مرغی کا گوشت کھا رہے تھے۔ حاضرین میں سے ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے انہیں بھی کھانے پر بلایا تو ان صاحب نے کہا: جب سے میں نے ان مرغیوں کو کچھ چیزیں کھاتے دیکھا ہے، اسی وقت سے مجھے ان کے گوشت سے گھن آنے لگی ہے۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے فرمایا: آؤ، میں نے خود نبی ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا: لیکن میں نے اس کا گوشت نہ کھانے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے کہا کہ آؤ میں تمہاری قسم کے متعلق بھی تمہیں بتاتا ہوں۔ ہمارے قبیلہ اشعر کے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے سواریاں مانگنے لگے۔ آپ نے ہمیں سواریاں مہیا کرنے سے انکار کر دیا۔ ہم نے پھر سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے قسم اٹھائی کہ آپ ہمیں سواری مہیا نہیں کریں گے۔ پھر نبی ﷺ تھوڑی دیر ہی ٹھہرے تھے کہ آپ کے پاس غنیمت کے اونٹ آ گئے۔ آپ نے ان میں سے پانچ اونٹ ہمیں دینے کا حکم دیا۔ جب ہم نے انہیں اپنے قبضے میں لے لیا تو ہمیں خیال آیا کہ ہم نے تو نبی ﷺ کو قسم سے غافل کر دیا ہے۔ اس کے بعد تو ہم کسی صورت میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے، چنانچہ میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے تو ہمیں سواریاں نہ دینے کی قسم اٹھائی تھی جبکہ اب آپ نے ہمیں سواریاں مہیا کر دی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں ایسا ہی ہے لیکن جب میں کسی بات پر قسم اٹھا لیتا ہوں پھر اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت مجھے بہتر نظر آئے تو وہی کرتا ہوں جو اچھا اور بہتر ہوتا ہے (اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ جب حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں کوفہ کے گورنر بنا کر بھیجے گئے تو اس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا قبیلہ جَرم یمن میں رہتا تھا بعد میں کوفے بسیرا کر لیا اس تعلق کی وجہ سے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ان کا اعزاز و اکرام کیا۔ (عمدة القاري:349/12) 2۔ غزوہ تبوک میں شمولیت کے لیے اشعری حضرات کے پاس سواریاں نہیں تھیں اس لیے انھوں نے سواریاں کا مطالبہ کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کسی اور وجہ سے ناراض تھے، اتفاق سے آپ کے پاس سواریاں نہیں تھیں اس لیے آپ نے انکار کردیا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اس انکار کی وجہ سے بہت پریشان ہوئے کہ شاید آپ مجھ پر کسی وجہ سے ناراض ہیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:44۔15) 3۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس غنیمت کے اونٹ آئے تھے جبکہ دوسری روایات میں ہے کہ آپ نے انھیں حضرت سعد ؓ سے خریدا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:44۔15) ممکن ہے کہ حضرت سعد ؓ کو غنیمت کے مال سے بطور حصہ اونٹ ملے ہوں اور آپ نے ان سے خرید کیے ہوں۔ واللہ اعلم۔ 4۔ اونٹوں کی تعداد کے متعلق بھی اختلاف ہے بعض میں پانچ اور کسی میں چھ ہے بعض روایات میں ہے کہ آپ نے دو، دو کر کے انھیں عطا فرمائے۔ ممکن ہے کہ اصل تو پانچ ہی ہوں اور چھٹا ویسے ہی تبعاً دے دیا ہو۔ متعدد واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "وہ (اشعری) مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد السلام بن حرب نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابو قلابہ نے اور ان سے زہدم نے کہ جب ابو موسیٰ ؓ (کوفہ کے امیر بن کر عثمان ؓ کے عہد خلافت میں) آئے تو اس قبیلہ جرم کا انہوں نے بہت اعزاز کیا۔ زہد کہتے ہیں ہم آپ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ مرغ کا ناشتہ کررہے تھے۔ حاضرین میں ایک اور صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ابو موسیٰ ؓ نے انہیں بھی کھانے پر بلایا تو ان صاحب نے کہا کہ جب سے میں نے مرغیوں کو کچھ (گندی) چیزیں کھاتے دیکھا ہے، اسی وقت سے مجھے اس کے گوشت سے گھن آنے لگی ہے۔ ابو موسیٰ ؓ نے کہا کہ آؤ بھائی میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ ان صاحب نے کہا لیکن میں نے اس کا گوشت نہ کھا نے کی قسم کھا رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم آتو جاؤ میں تمہیں تمہاری قسم کے بارے میں بھی علاج بتاؤںگا۔ ہم قبیلہ اشعر کے چند لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے (غزوئہ تبوک کے لیے) جانور مانگے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ سواری نہیں ہے۔ ہم نے پھر آپ سے مانگا تو آپ نے اس مرتبہ قسم کھا ئی کہ آپ ہم کو سواری نہیں دیں گے لیکن ابھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ غنیمت میں کچھ اونٹ آئے اور آنحضور ﷺ نے ان میں سے پانچ اونٹ ہم کو دلائے۔ جب ہم نے انہیں لے لیا تو پھر ہم نے کہا کہ یہ تو ہم نے آنحضرت ﷺ کو دھوکا دیا۔ آپ کو غفلت میں رکھا، قسم یاد نہیں دلائی۔ ایسی حالت میں ہماری بھلائی کبھی نہیں ہوگی۔ آخر میں آپ کے پاس آیا اور میں نے کہا یارسول اللہ ! آپ نے تو قسم کھا لی تھی کہ آپ ہم کو سواری نہیں دیںگے پھر آپ نے سواری دے دی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے لیکن جب بھی میں کوئی قسم کھا تا ہوں اور اس کے سوا دوسری صورت مجھے اس سے بہتر نظر آتی ہے تو میں وہی کر تا ہوں جو بہتر ہوتا ہے۔ (اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zahdam (RA) : When Abu Musa (RA) arrived (at Kufa as a governor) he honored this family of Jarm (by paying them a visit). I was sitting near to him, and he was eating chicken as his lunch, and there was a man sitting amongst the people. Abu Musa (RA) invited the man to the lunch, but the latter said, "I saw chickens (eating something (dirty) so I consider them unclean." Abu Musa (RA) said, "Come on! I saw the Prophet (ﷺ) eating it (i.e. chicken)." The man said "I have taken an oath that I will not ea (chicken)" Abu Musa (RA) said." Come on! I will tell you about your oath. We, a group of Al-Ash'ariyin people went to the Prophet (ﷺ) and asked him to give us something to ride, but the Prophet (ﷺ) refused. Then we asked him for the second time to give us something to ride, but the Prophet (ﷺ) took an oath that he would not give us anything to ride. After a while, some camels of booty were brought to the Prophet (ﷺ) and he ordered that five camels be given to us. When we took those camels we said, "We have made the Prophet (ﷺ) forget his oath, and we will not be successful after that." So I went to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah' Apostle (ﷺ) ! You took an oath that you would not give us anything to ride, but you have given us." He said, "Yes, for if I take an oath and later I see a better solution than that, I act on the later (and gave the expiation of that oaths"