Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Hajjat-ul-Wada)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4400.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ فتح مکہ کے سال تشریف لائے تو اپنی قصواء نامی اونٹنی پر حضرت اسامہ ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا ہو تھا جبکہ آپ کے ہمراہ حضرت بلال اور حضرت عثمان بن طلحہ ؓ بھی تھے۔ آپ نے کعبہ کے پاس اپنی اونٹنی بٹھا دی پھر حضرت عثمان ؓ کو حکم دیا: ’’کعبہ کی چابی لاؤ۔‘‘ وہ چابی لائے اور دروازہ کھولا۔ نبی ﷺ اندر داخل ہوئے تو آپ کے ہمراہ حضرت اسامہ، حضرت بلال اور حضرت عثمان ؓ بھی اندر گئے۔ پھر انہوں نے دروازہ اندر سے بند کر دیا اور دیر تک اندر رہے۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو لوگ اندر جانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے۔ میں ان سب سے آگے بڑھا تو حضرت بلال ؓ کو دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے پایا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کہاں نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ان اگلے دو ستونوں کے درمیان پڑھی تھی اور دو قطاروں میں کعبے کے چھ ستون تھے، یعنی آپ نے اگلی قطار کے دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی اور بیت اللہ کے دروازے کو اپنےپیچھے رکھا تھا اور چہرہ مبارک اس سمت کی طرف رکھا جو آپ کے سامنے تھا جبکہ بیت اللہ میں داخل ہوتے ہیں۔ آپ کے اور دیوار کے درمیان (تین ہاتھ کا فاصلہ تھا) حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت بلال ؓ سے یہ پوچھنا بھول گیا کہ آپ ﷺ نے بیت اللہ کے اندر کتنی نماز پڑھی؟ جس جگہ آپ نے نماز پڑھی تھی وہاں سرخ رنگ کا سنگ مرمر بچھا ہوا تھا۔
تشریح:
1۔ یہ واقعہ فتح مکہ کا ہے جوآٹھ ہجری میں ہوا یہ عنوان حجۃ الوداع ہے جو دس ہجری میں کیا گیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اشکال وارد کیا ہے کہ نہ معلوم امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو حجۃ الوداع میں کیوں بیان کیا ہے؟ (فتح الباري:132/8) 2۔ دراصل یہاں کوئی اشکال نہیں بلکہ امام بخاری ؒ ایک اختلافی مسئلے پرتنبیہ کرناچاہتے ہیں۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے یا نہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہےکہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے کیونکہ جب فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہونا یقینی ہے۔ حالانکہ اس سفر کامقصد صرف جہاد کرنا ار کفر کو دبانا تھا، بیت اللہ کی زیارت مقصود نہ تھی تو حجۃ الوداع کےموقع پر بطریق اولیٰ دخول ثابت ہوگا۔ کیونکہ یہ سفر تو محض بیت اللہ کی زیارت کے لیے تھا بلکہ ایک صریح حدیث سے بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ میرے پاس تشریف لائے تو چہرہ مبارک پر حزن وملال تھا، حالانکہ جب آپ میرے پاس سے گئے تھے تو اس وقت آپ کے چہرے پر خوشی ومسرت کے آثار نمایاں تھے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ میں بیت اللہ میں داخل ہوا ہوں اور میں نے بیت اللہ میں داخل ہوکر اپنی اُمت کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔ اگرمجھے اس امر کااحساس پہلے ہوجاتا جواب ہوا ہے تو کبھی بیت اللہ میں داخل نہ ہوتا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:2029) 3۔ اگرچہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کی تصریح نہیں ہے۔ تاہم یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فتح مکہ کے وقت ہمرا ہ نہیں تھیں، البتہ حجۃ الوداع پرآپ کے ساتھ تھیں اور اس امر پر اتفاق ہے کہ فتح مکہ سے پہلے آپ بیت اللہ میں داخل نہیں ہوئے۔ ممکن ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر اندر داخل ہوکر مورتیوں کو توڑا ہو اور حجۃ الوداع کے موقع پر داخل ہوکر نماز پڑھی ہو۔ اس صورت میں (عَامَ فَتحِ مَكَّةَ) کے الفاظ کسی راوی کے وہم پر مبنی ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہم راوی نہ ہو بلکہ روایت کا پہلا حصہ عام فتح مکہ پر محمول ہواور دوسرا حصہ جہاں بیت اللہ کادرواہ بند کرنے کا ذکر ہے وہ حجۃ الوداع پرمحمول ہو۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4214
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4400
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4400
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4400
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حج کوحجۃ الوداع کہتے ہیں کیونکہ اس حج میں آپ نے لوگوں کو الوداع فرمایا تھا۔اس کے بعد آپ نے کوئی حج نہیں کیا۔اسے حجۃ الاسلام بھی کہتے ہیں کیونکہ مدینہ طیبہ سے آپ نے صرف یہی حج کیا تھا اگرچہ ہجرت سے پہلے آپ نے کئی حج کیے تھے۔اسے حجۃ البلاغ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔کیونکہ اس میں جملہ اہل عرب کو تبلیغ کی گئی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھبیس(26) ذوالقعدہ بروز ہفتہ مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔چار ذوالحجہ کو مکہ معظمہ تشریف لائے۔اس طرح آٹھ دن راستے میں صرف ہوئے،پر آٹھ ذوالحجہ کی صبح کو منیٰ روانگی ہوئی،۔نویں تاریخ کی صبح تک پانچ نمازیں منیٰ میں ادا کیں۔پھرمغرب اور عشاء مقام مزدلفہ میں جمع کرکے پڑھیں۔صبح کی نماز کے بعد منیٰ روانہ ہوئے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عمداً حجۃ الوداع کا عنوان یہاں قائم کیا ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد وفود کا سلسلہ جاری ہوا جوحجۃ الوداع تک جاری رہا،اس لیے وفود کی انتہا بیان کرنے کے لیے حجۃ الوداع کا عنوان قائم کیا ہے۔حجۃ الوداع کاغزوہ تبوک کے بعد ہونا معروف ومشہور ہے لیکن فتح مکہ سے پہلے اور حجۃ الوداع کے بعد وفد کاآنا دراوقوع ہے۔بہرحال اس مقام پر حجۃ الوداع کا بیان نہ تو سہوکا نتیجہ ہے او رنہ کسی کاتب ہی سے غلطی ہوئی ہے جیسا کہ شارحین بخاری سے تآثر ملتا ہے۔واللہ اعلم۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ فتح مکہ کے سال تشریف لائے تو اپنی قصواء نامی اونٹنی پر حضرت اسامہ ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا ہو تھا جبکہ آپ کے ہمراہ حضرت بلال اور حضرت عثمان بن طلحہ ؓ بھی تھے۔ آپ نے کعبہ کے پاس اپنی اونٹنی بٹھا دی پھر حضرت عثمان ؓ کو حکم دیا: ’’کعبہ کی چابی لاؤ۔‘‘ وہ چابی لائے اور دروازہ کھولا۔ نبی ﷺ اندر داخل ہوئے تو آپ کے ہمراہ حضرت اسامہ، حضرت بلال اور حضرت عثمان ؓ بھی اندر گئے۔ پھر انہوں نے دروازہ اندر سے بند کر دیا اور دیر تک اندر رہے۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو لوگ اندر جانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے۔ میں ان سب سے آگے بڑھا تو حضرت بلال ؓ کو دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے پایا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کہاں نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ان اگلے دو ستونوں کے درمیان پڑھی تھی اور دو قطاروں میں کعبے کے چھ ستون تھے، یعنی آپ نے اگلی قطار کے دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی اور بیت اللہ کے دروازے کو اپنےپیچھے رکھا تھا اور چہرہ مبارک اس سمت کی طرف رکھا جو آپ کے سامنے تھا جبکہ بیت اللہ میں داخل ہوتے ہیں۔ آپ کے اور دیوار کے درمیان (تین ہاتھ کا فاصلہ تھا) حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت بلال ؓ سے یہ پوچھنا بھول گیا کہ آپ ﷺ نے بیت اللہ کے اندر کتنی نماز پڑھی؟ جس جگہ آپ نے نماز پڑھی تھی وہاں سرخ رنگ کا سنگ مرمر بچھا ہوا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ واقعہ فتح مکہ کا ہے جوآٹھ ہجری میں ہوا یہ عنوان حجۃ الوداع ہے جو دس ہجری میں کیا گیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اشکال وارد کیا ہے کہ نہ معلوم امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو حجۃ الوداع میں کیوں بیان کیا ہے؟ (فتح الباري:132/8) 2۔ دراصل یہاں کوئی اشکال نہیں بلکہ امام بخاری ؒ ایک اختلافی مسئلے پرتنبیہ کرناچاہتے ہیں۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے یا نہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہےکہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے کیونکہ جب فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہونا یقینی ہے۔ حالانکہ اس سفر کامقصد صرف جہاد کرنا ار کفر کو دبانا تھا، بیت اللہ کی زیارت مقصود نہ تھی تو حجۃ الوداع کےموقع پر بطریق اولیٰ دخول ثابت ہوگا۔ کیونکہ یہ سفر تو محض بیت اللہ کی زیارت کے لیے تھا بلکہ ایک صریح حدیث سے بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ میرے پاس تشریف لائے تو چہرہ مبارک پر حزن وملال تھا، حالانکہ جب آپ میرے پاس سے گئے تھے تو اس وقت آپ کے چہرے پر خوشی ومسرت کے آثار نمایاں تھے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ میں بیت اللہ میں داخل ہوا ہوں اور میں نے بیت اللہ میں داخل ہوکر اپنی اُمت کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔ اگرمجھے اس امر کااحساس پہلے ہوجاتا جواب ہوا ہے تو کبھی بیت اللہ میں داخل نہ ہوتا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:2029) 3۔ اگرچہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کی تصریح نہیں ہے۔ تاہم یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فتح مکہ کے وقت ہمرا ہ نہیں تھیں، البتہ حجۃ الوداع پرآپ کے ساتھ تھیں اور اس امر پر اتفاق ہے کہ فتح مکہ سے پہلے آپ بیت اللہ میں داخل نہیں ہوئے۔ ممکن ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر اندر داخل ہوکر مورتیوں کو توڑا ہو اور حجۃ الوداع کے موقع پر داخل ہوکر نماز پڑھی ہو۔ اس صورت میں (عَامَ فَتحِ مَكَّةَ) کے الفاظ کسی راوی کے وہم پر مبنی ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہم راوی نہ ہو بلکہ روایت کا پہلا حصہ عام فتح مکہ پر محمول ہواور دوسرا حصہ جہاں بیت اللہ کادرواہ بند کرنے کا ذکر ہے وہ حجۃ الوداع پرمحمول ہو۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے سریج بن نعمان نے بیان کیا، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیاکہ فتح مکہ کے دن نبی کریم ﷺ تشریف لائے، آپ ﷺ کی قصواءاونٹنی پر پیچھے حضرت اسامہ ؓ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بلال ؓ ، نعمان بن طلحہ ؓ بھی تھے آپ نے کعبہ کے پاس اپنی اونٹنی بٹھادی اورعثمان ؓ سے فرمایا کہ کعبہ کی کنجی لاؤ، وہ کنجی لائے اور دروازہ کھولا۔ حضور اندر داخل ہوئے تو آپ ﷺ کے ساتھ اسامہؓ، بلالؓ اور عثمان ؓ بھی اندر گئے، پھر دروازہ اندرسے بند کرلیا اور دیر تک اندر (نماز اور دعاؤں میں مشغول) رہے۔ جب آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو لوگ اندر جانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے اور میں سب سے آگے بڑھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ بلال ؓ دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ نے نماز کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے۔ دوقطاروں میں اور حضور نے آگے کی قطار کے دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی۔ کعبہ کا دروازہ آپ ﷺ کی پیٹھ کی طرف تھا اور چہرئہ مبارک اس طرف تھا، جدھر دروازے سے اندر جاتے ہوئے چہرہ کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے اور دیوار کے درمیان (تین ہاتھ کا فاصلہ تھا) ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ یہ پوچھنا میں بھول گیاکہ آنحضرت ﷺ نے کتنی رکعت نماز پڑھی تھی۔ جس جگہ آپ نے نماز پڑھی تھی وہاں سرخ سنگ مرمر بچھا ہواتھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت باب سے معلوم نہیں ہوتی۔ فتح مکہ8ھ میں ہوا اور حجۃ الوداع 10ھ میں وقوع میں آیا۔ شاید یہی فرق بتلانا مقصود ہوکہ حجۃ الوداع فتح مکہ کے بعد وقوع میں آیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated (Abdullah) bin 'Umar (RA) : The Prophet (ﷺ) arrived (at Makkah) in the year of the Conquest (of Makkah) while Usama was riding behind him on (his she-camel)'. Al-Qaswa.' Bilal (RA) and 'Uthman bin Talha were accompanying him. When he made his she-camel kneel down near the Ka’bah, he said to 'Uthman, "Get us the key (of the Ka’bah). He brought the key to him and opened the gate (of the Ka’bah), for him. The Prophet, Usama, Bilal (RA) and 'Uthman (bin Talha) entered the Ka’bah and then closed the gate behind them (from inside). The Prophet (ﷺ) stayed there for a long period and then came out. The people rushed to get in, but I went in before them and found Bilal (RA) standing behind the gate, and I said to him, "Where did the Prophet (ﷺ) pray?" He said, "He prayed between those two front pillars." The Ka’bah was built on six pillars, arranged in two rows, and he prayed between the two pillars of the front row leaving the gate of the Ka’bah at his back and facing (in prayer) the wall which faces one when one enters the Ka’bah. Between him and that wall (was the distance of about three cubits). But I forgot to ask Bilal (RA) about the number of Rakat the Prophet (ﷺ) had prayed. There was a red piece of marble at the place where he (i.e. the Prophet) had offered the prayer.