Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Hajjat-ul-Wada)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4406.
حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’زمانہ اس دن کی ہئیت سے گردش کر رہا ہے جس دن اللہ تعالٰی نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے۔ اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ اور ایک رجب ہے جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’یہ کون سا مہینہ ہے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘ آپ خاموش رہے۔ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟‘‘ ہم نے کہا: کیوں نہیں، پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ کون سا شہر ہے؟‘‘ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا مکہ مکرمہ نہیں ہے؟‘‘ ہم نے کہا: جی ہاں یہ مکہ مکرمہ ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’یہ کون سا دن ہے؟‘‘ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کے بغیر کوئی اور نام ذکر کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا یہ یوم نحر نہیں؟‘‘ ہم نے کہا: واقعی یہ قربانی کا دن ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن تمہاری اس شہر میں، تمہارے اس مہینے میں باعث حرمت ہے۔ تم عنقریب اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہو، وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق باز پرس کرے گا۔ خبردار! میرے بعد تم اپنے دین سے برگشتہ نہ ہونا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔ خبردار! تم میں سے حاضر، غائب کو پہنچا دے۔ شاید جس کو پیغام پہنچے وہ کسی سننے والے سے زیادہ اس پیغام کو محفوظ کرنے والا ہو۔‘‘ محمد بن سیرین جب اس حدیث کو بیان کرتے تو کہتے تھے: محمد ﷺ نے سچ فرمایا ہے۔۔ پھر آپ ﷺ نے دو بار فرمایا: ’’کیا میں نے (دین) پہنچا دیا ہے؟‘‘
تشریح:
1۔عرب لوگ اپنے مفاد کی خاطر مہینوں کو آگے پیچھے کرلیتے تھے۔ اسے نسئی کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس خرابی کاذکر کیا ہے۔ حسن اتفاق سے حجۃ الوداع کے موقع پر مہینوں کی اصل ترتیب تھی جس پرانھیں اللہ نے پیدا کیا تھا۔ 2۔ مہینوں کی وجہ تسمیہ کے متعلق علامہ قسطلانی ؒ نے لکھا ہے:جب عرب اپنی قتل وغارت کی عادت چھوڑدیں تو ماہ محرم، جب ان کے بدن کمزور اوررنگ زرد پڑجائیں تو صفر، جب باغات پھل پھول لے آئیں اورخوشبوئیں مہکنے لگیں تو ربیعان، جب پھلوں کی قلت ہوجائے اور پانی جم جائے توجمادیان، جب نہریں چالو ہوجائیں اوردرخت لہلانے لگیں تو رجب، جب اونٹنیوں کے بچے پاؤں سے الگ ہوجائیں اور قبائل پھیل جائیں تو شعبان، جب فضا میں گرمی آجائے اور انگارے دبکنے لگیں تورمضان، جب بادل قلیل اور مکھیوں کی بہتات ہو، جانور دُمیں اٹھانے لگیں تو شوال، جب تاجر، تجارتی سفر سے بیٹھ جائیں تو ذوالقعدہ اور جب حج کے لیے قافلے جارہے ہوں تویہ ذوالحجہ ہے۔ (إرشاد الساري للقسطلاني:148/7) 3۔ حرمت والے چار مہینوں کی ترتیب میں یہ حکمت ہے کہ سال کا آغاز اور اختتام حرمت سے ہو اور درمیان میں بھی حرمت کی یاددہانی رجب سے کی جائے۔ آخر میں دو مہینے مسلسل اس لیے ہیں تاکہ خاتمہ کی برتری کوبرقراررکھاجائے کیونکہ اعمال کا دارومدار بھی خاتمے پر ہے۔ (فتح الباري:135/8) اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے،عنوان سے یہی وجہ مطابقت ہے۔ امام بخاری ؒ نے اسی غرض سے اسے بیان کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4219
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4406
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4406
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4406
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حج کوحجۃ الوداع کہتے ہیں کیونکہ اس حج میں آپ نے لوگوں کو الوداع فرمایا تھا۔اس کے بعد آپ نے کوئی حج نہیں کیا۔اسے حجۃ الاسلام بھی کہتے ہیں کیونکہ مدینہ طیبہ سے آپ نے صرف یہی حج کیا تھا اگرچہ ہجرت سے پہلے آپ نے کئی حج کیے تھے۔اسے حجۃ البلاغ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔کیونکہ اس میں جملہ اہل عرب کو تبلیغ کی گئی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھبیس(26) ذوالقعدہ بروز ہفتہ مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔چار ذوالحجہ کو مکہ معظمہ تشریف لائے۔اس طرح آٹھ دن راستے میں صرف ہوئے،پر آٹھ ذوالحجہ کی صبح کو منیٰ روانگی ہوئی،۔نویں تاریخ کی صبح تک پانچ نمازیں منیٰ میں ادا کیں۔پھرمغرب اور عشاء مقام مزدلفہ میں جمع کرکے پڑھیں۔صبح کی نماز کے بعد منیٰ روانہ ہوئے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عمداً حجۃ الوداع کا عنوان یہاں قائم کیا ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد وفود کا سلسلہ جاری ہوا جوحجۃ الوداع تک جاری رہا،اس لیے وفود کی انتہا بیان کرنے کے لیے حجۃ الوداع کا عنوان قائم کیا ہے۔حجۃ الوداع کاغزوہ تبوک کے بعد ہونا معروف ومشہور ہے لیکن فتح مکہ سے پہلے اور حجۃ الوداع کے بعد وفد کاآنا دراوقوع ہے۔بہرحال اس مقام پر حجۃ الوداع کا بیان نہ تو سہوکا نتیجہ ہے او رنہ کسی کاتب ہی سے غلطی ہوئی ہے جیسا کہ شارحین بخاری سے تآثر ملتا ہے۔واللہ اعلم۔
حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’زمانہ اس دن کی ہئیت سے گردش کر رہا ہے جس دن اللہ تعالٰی نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے۔ اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ اور ایک رجب ہے جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’یہ کون سا مہینہ ہے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘ آپ خاموش رہے۔ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟‘‘ ہم نے کہا: کیوں نہیں، پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ کون سا شہر ہے؟‘‘ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا مکہ مکرمہ نہیں ہے؟‘‘ ہم نے کہا: جی ہاں یہ مکہ مکرمہ ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’یہ کون سا دن ہے؟‘‘ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کے بغیر کوئی اور نام ذکر کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا یہ یوم نحر نہیں؟‘‘ ہم نے کہا: واقعی یہ قربانی کا دن ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن تمہاری اس شہر میں، تمہارے اس مہینے میں باعث حرمت ہے۔ تم عنقریب اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہو، وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق باز پرس کرے گا۔ خبردار! میرے بعد تم اپنے دین سے برگشتہ نہ ہونا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔ خبردار! تم میں سے حاضر، غائب کو پہنچا دے۔ شاید جس کو پیغام پہنچے وہ کسی سننے والے سے زیادہ اس پیغام کو محفوظ کرنے والا ہو۔‘‘ محمد بن سیرین جب اس حدیث کو بیان کرتے تو کہتے تھے: محمد ﷺ نے سچ فرمایا ہے۔۔ پھر آپ ﷺ نے دو بار فرمایا: ’’کیا میں نے (دین) پہنچا دیا ہے؟‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔عرب لوگ اپنے مفاد کی خاطر مہینوں کو آگے پیچھے کرلیتے تھے۔ اسے نسئی کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس خرابی کاذکر کیا ہے۔ حسن اتفاق سے حجۃ الوداع کے موقع پر مہینوں کی اصل ترتیب تھی جس پرانھیں اللہ نے پیدا کیا تھا۔ 2۔ مہینوں کی وجہ تسمیہ کے متعلق علامہ قسطلانی ؒ نے لکھا ہے:جب عرب اپنی قتل وغارت کی عادت چھوڑدیں تو ماہ محرم، جب ان کے بدن کمزور اوررنگ زرد پڑجائیں تو صفر، جب باغات پھل پھول لے آئیں اورخوشبوئیں مہکنے لگیں تو ربیعان، جب پھلوں کی قلت ہوجائے اور پانی جم جائے توجمادیان، جب نہریں چالو ہوجائیں اوردرخت لہلانے لگیں تو رجب، جب اونٹنیوں کے بچے پاؤں سے الگ ہوجائیں اور قبائل پھیل جائیں تو شعبان، جب فضا میں گرمی آجائے اور انگارے دبکنے لگیں تورمضان، جب بادل قلیل اور مکھیوں کی بہتات ہو، جانور دُمیں اٹھانے لگیں تو شوال، جب تاجر، تجارتی سفر سے بیٹھ جائیں تو ذوالقعدہ اور جب حج کے لیے قافلے جارہے ہوں تویہ ذوالحجہ ہے۔ (إرشاد الساري للقسطلاني:148/7) 3۔ حرمت والے چار مہینوں کی ترتیب میں یہ حکمت ہے کہ سال کا آغاز اور اختتام حرمت سے ہو اور درمیان میں بھی حرمت کی یاددہانی رجب سے کی جائے۔ آخر میں دو مہینے مسلسل اس لیے ہیں تاکہ خاتمہ کی برتری کوبرقراررکھاجائے کیونکہ اعمال کا دارومدار بھی خاتمے پر ہے۔ (فتح الباري:135/8) اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے،عنوان سے یہی وجہ مطابقت ہے۔ امام بخاری ؒ نے اسی غرض سے اسے بیان کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن مثنیٰ تے کیا، کہا ہم سے عبد الوھاب ثقفی نے بیان کیا کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سرین نے ان سے عبد الرحمن بن بکرہ نے اور ان سے ابو بکرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جریر ؓ سے فرمایا تھا۔ لوگوں کو خاموش کردو، پھر فرمایا، میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، زمانہ اپنی اصل حالت پرگھوم کر آ گیا ہے۔ اس دن کی طرح جب اللہ نے زمین وآسمان کو پیدا کیا تھا۔ دیکھو! سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ چار ان میں سے حرمت والے مہینے ہیں۔ تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم (اور چوتھا) رجب مضرجوجمادی الاولیٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔ (پھر آپ نے دریافت فرمایا) یہ کون سامہینہ ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور ان کے رسول ﷺ کوبہتر علم ہے۔ اس پر آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ ہم نے سمجھا شاید آپ مشہور نام کے سوا اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ لیکن آپ نے فرمایا، کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں۔ پھر دریافت فرمایا اور یہ شہر کو ن سا ہے؟ ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو زیادہ بہترعلم ہے، پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ ہم نےسمجھا شاید اس کا کوئی اورنام آپ ﷺ رکھیں گے، جو مشہور نام کے علاوہ ہوگا۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا، کیا یہ مکہ نہیں ہے؟ ہم بولے کیوں نہیں (یہ مکہ ہی ہے) پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا اوریہ دن کون سا ہے؟ ہم بولے کہ اللہ اوراس کے رسول ﷺ کو زیادہ بہتر علم ہے، پھرآپ ﷺ خاموش ہوگئے اور ہم نے سمجھا شاید اس کا آپ ﷺ اس کے مشہور نام کے سوا کوئی اورنام رکھیں گے، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ یوم النحر (قربانی کادن) نہیں ہے؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا۔ پس تمہارا خون اور تمہارامال۔ محمد نے بیان کیا کہ میرا خیا ل ہے کہ ابوبکرہ ؓ نے یہ بھی کہا، اورتمہاری عزت تم پر اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ دن کاتمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں اور تم بہت جلد اپنے رب سے ملوگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔ ہاں، پس میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ ہاں اور جو یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جوموجود نہیں ہیں، ہوسکتاہے کہ جسے وہ پہنچائیں ان میں سے کوئی ایسا بھی ہوجو یہاں بعض سننے والوں سے زیادہ اس (حدیث) کو یاد رکھ سکتا ہو۔ محمد بن سیرین جب اس حدیث کا ذکر کرتے تو فرماتے کہ محمد ﷺ نے سچ فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، تو کیا میں نے پہنچا دیا۔ آپ ﷺ نے دو مرتبہ یہ جملہ فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ہوایہ کہ مشرک کمبخت حرام مہینوں کو اپنے مطلب سے پیچھے ڈال دیتے۔ محرم میں لڑنا حرام تھامگر ان کو اگر اس ماہ میں لڑنا ہوتا تو محرم کو صفر بنادیتے اور صفر کومحرم قرار دے دیتے۔ اسی طرح مدتوں سے وہ اپنے اغراض کے تحت مہینوں کو الٹ پھیر کرتے چلے آرہے تھے۔ اتفاق سے جس سال آپ نے حجۃ الوداع کیاتو ذی الحجہ کا ٹھیک مہینہ پڑا جو واقعی حساب سے ہونا چاہئےے تھا۔ اس وقت آپ نے یہ حدیث فرمائی۔ مطلب آپ کا یہ تھا کہ اب آئندہ غلط حساب نہ ہونا چاہئے اور مہینوں کا شمار بالکل ٹھیک گنتی کے موافق ہونا چاہئے۔ ماہ رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اس لیے منسوب کیاکہ قبیلہ مضر والے اور عربوں سے زیادہ ماہ رجب کی تعظیم کرتے، اس میں لڑائی بھڑائی کے لیے ہر گز تیار نہ ہوتے۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے بہت سے اصولی احکام کا ابلاغ فرمایا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑنے جھگڑنے سے خاص طور پر منع فرمایا، مگر صدافسوس! کہ امت میں اختلاف پھر انشقاق وافتراق کا جو منظر دیکھا جارہا ہے۔ اس سے اندازہ لگايا جاسکتاہے کہ مسلمانوں نے اپنے رسول اللہ ﷺ کی آخری وصیت پر کہاں تک عمل درآمد کیا ہے۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے روایت میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے۔ باب سے یہی وجہ مطابقت ہے۔ حضرت محمد بن سیرین تابعین میں بڑے زبردست عالم، فقیہ، محدث، متقی، باخدا بزرگ گزرے ہیں۔ اتنے نیک تھے کہ ان کو دیکھنے سے خدا یاد آجاتا تھا۔ موت کو بکثرت یاد فرماتے تھے۔ خواب کی تعبیر میں بھی امام فن تھے۔ 77سال کی عمر پاکر110ھ میں انتقال فرمایا۔ رحمه اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Time has taken its original shape which it had when Allah created the Heavens and the Earth. The year is of twelve months, four of which are sacred, and out of these (four) three are in succession, i.e. Dhul-Qa'da, Dhul-Hijja and Al-Muharram, and the fourth is Rajab which is named after the Mudar tribe, between (the month of) Jumaida (ath-thania) and Sha'ban." Then the Prophet (ﷺ) asked, "Which is this month?" We said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." On that the Prophet (ﷺ) kept quiet so long that we thought that he might name it with another name. Then the Prophet (ﷺ) said, "Isn't it the month of Dhul-Hijja?" We replied, "Yes." Then he said, "Which town is this?" "We replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." On that he kept quiet so long that we thought that he might name it with another name. Then he said, "Isn't it the town of Makkah?" We replied, "Yes, " Then he said, "Which day is today?" We replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." He kept quiet so long that we thought that he might name it with another name. Then he said, "Isn't it the day of An-Nahr (i.e. sacrifice)?" We replied, "Yes." He said, "So your blood, your properties, (The sub-narrator Muhammad said, 'I think the Prophet (ﷺ) also said: And your honor..) are sacred to one another like the sanctity of this day of yours, in this city of yours, in this month of yours; and surely, you will meet your Lord, and He will ask you about your deeds. Beware! Do not become infidels after me, cutting the throats of one another. It is incumbent on those who are present to convey this message (of mine) to those who are absent. May be that some of those to whom it will be conveyed will understand it better than those who have actually heard it." (The sub-narrator, Muhammad, on remembering that narration, used to say, "Muhammad spoke the truth!") He (i.e. Prophet) then added twice, "No doubt! Haven't I conveyed (Allah's Message) to you?"