باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa of Tabuk, also called Ghazwa Al-‘Usrah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4415.
حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دوستوں نے، جو جیش عسرت، یعنی غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جانے والے تھے، آپ کے پاس سواریوں کے لیے بھیجا۔ میں نے آ کر خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں سواریاں مہیا کریں۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں تمہیں کوئی سواری دینے والا نہیں۔‘‘ اتفاق سے آپ اس وقت غصے میں تھے لیکن مجھے معلوم نہ تھا۔ میں بہت رنجیدہ ہو کر واپس لوٹا۔ مجھے ایک رنج تو یہ تھا کہ نبی ﷺ نے سواریاں نہیں دیں اور دوسرا یہ رنج تھا کہ کہیں نبی ﷺ میرے سواری مانگنے پر ناراض نہ ہو گئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور نبی ﷺ نے جو فرمایا تھا، وہ ان سے کہہ دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں نے سنا کہ حضرت بلال ؓ پکار رہے ہیں: اے عبداللہ بن قیس! میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں یاد فرمایا ہے، آپ کے پاس جاؤ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے چھ تیار اونٹوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ’’لے جاؤ ان دو اونٹوں کو، اور ان دو اونٹوں کو، (یعنی تین دفعہ فرمایا)۔‘‘ آپ نے یہ (چھ) اونٹ اسی وقت حضرت سعد بن عبادہ ؓ سے خریدے تھے۔ آپ نے مزید فرمایا: ان اونٹوں کو اپنے ساتھیوں کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ اللہ تعالٰی نے، یا آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ اونٹ تمہیں سواری کے لیے دیے ہیں، لہذا تم ان پر سوار ہو جاؤ۔ پھر میں ان اونٹوں کو لے کر ان کے پاس آیا اور کہا کہ نبی ﷺ نے تمہاری سواری کے لیے یہ اونٹ عنایت فرمائے ہیں لیکن اللہ کی قسم! میں تمہیں ہرگز چھوڑنے والا نہیں ہوں یہاں تک کہ تم میں سے کچھ لوگ میرے ساتھ اس شخص کے پاس چلیں جس نے رسول اللہ ﷺ کی گفتگو سنی تھی تاکہ تمہیں یہ خیال نہ ہو کہ میں نے اپنی طرف سے تمہیں ایسی بات کہہ دی تھی جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کہی تھی۔ انہوں نے کہا: (نہیں اس اہتمام کی چنداں ضرورت نہیں)۔ ہم تجھے سچا سمجھتے ہیں اور اگر تم تصدیق کرانا چاہتے ہو تو ہم ایسا ہی کریں گے۔ چنانچہ حضرت ابو موسٰی چند آدمیوں کو لے کر ان لوگوں کے پاس آئے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی (پہلی) گفتگو اور آپ کا انکار سنا تھا مگر اس کے بعد سواری عنایت فرمائی، تو انہوں نے بھی اسی طرح بیان کیا جس طرح حضرت ابو موسٰی ؓ نے ان سے کہا تھا، یعنی حضرت ابو موسٰی ؓ کی تصدیق کی۔
تشریح:
1۔ اس حدیث میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے سواریاں طلب کرنے کا ذکر ہے، اتفاق سے اس وقت سواریاں موجود نہ تھیں لہذا رسول اللہ ﷺ نے انکار فرما دیا۔ تھوڑی دیر بعد سواریاں مہیا ہوگئیں اورآپ نے حضرت موسیٰ اشعری ؓ کو بلا کر چند سواریاں مہیا کر دیں۔ اب حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو ڈر پیدا ہوا کہ میرے ساتھی مجھے جھوٹا کہیں گے یعنی ابھی تو اس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سواریاں نہیں ہیں اوربھی سواریاں لے کر بھی آگئے۔ اس بنا پر انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میرے ہمراہ چل کر میری بات کی تصدیق کرلو تاکہ تمھیں میری بات کا یقین ہوجائے، چنانچہ ان کے اصرار پر چھ آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے بیان کی تصدیق کی۔ 2۔ قدوم اشعریین کے باب میں پانچ اونٹوں کا ذکر تھا اور اس روایت میں چھ اونٹوں کاذکر ہے؟ ممکن ہے کہ واقعات متعدد ہوں۔ جب اشعری حضرات آئے تو انھیں پانچ اونٹ دیے اور غزوہ تبوک میں شمولیت کے لیے چھ اونٹ دیے کیونکہ اشعری حضرات سات ہجری میں آئے تھے جبکہ غزوہ تبوک نوہجری میں ہوا تھا، اس کےعلاوہ تھوڑی تعداد زیادہ کے منافی نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4229
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4415
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4415
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4415
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ ہرقل شاہ روم نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بہت سی فوج جمع کرکے تبوک کے باڈر پر بھیج دی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کی تیاری شروع کی۔تبوک کامقام مدینہ طیبہ سے شمال کی جانب سات سو کلومیٹر کی دوری پر شام کے قریب واقع ہے۔یہ رجب نوہجری کا واقعہ ہے۔گرمی کا موسم تھا۔جب وہاں پہنچے تو کوئی لشکر مقابلے میں نہ آیا۔آپ نے بیس دن وہاں قیام فرمایا۔گردونواح کی ریاستوں پر قابض ہوئے اسے غزوہ عسرت بھی کہاجاتا ہے کیونکہ مال کی تنگی تھی۔کھجوریں پک رہی تھیں،دیگر سازوسامان بھی قلیل تھا۔خوراک ختم ہوگئی تو کھجوروں پر اکتفا کیا گیا۔جب وہ ختم ہوگئیں تو گٹھلیاں چوس چوس کرگزارا کیا۔دس دس آدمی ایک اونٹ پر باری باری سوارہوتے تھے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو حجۃ الوداع کے بعدذکر کیا ہے،حالانکہ حجۃ الوداع دس ہجری میں ہوا؟شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عمداً ایسا کیاہے کیونکہ غزوہ تبوک آخری غزوہ ہے جس پر انھوں نے کتاب المغازی کو ختم کیا،پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترتیب کا التزام نہیں کیا،نیزحجۃ الوداع کا غزوہ تبوک کے بعد ہونا تو معروف ومشہور تھا۔واللہ اعلم۔
حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دوستوں نے، جو جیش عسرت، یعنی غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جانے والے تھے، آپ کے پاس سواریوں کے لیے بھیجا۔ میں نے آ کر خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں سواریاں مہیا کریں۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں تمہیں کوئی سواری دینے والا نہیں۔‘‘ اتفاق سے آپ اس وقت غصے میں تھے لیکن مجھے معلوم نہ تھا۔ میں بہت رنجیدہ ہو کر واپس لوٹا۔ مجھے ایک رنج تو یہ تھا کہ نبی ﷺ نے سواریاں نہیں دیں اور دوسرا یہ رنج تھا کہ کہیں نبی ﷺ میرے سواری مانگنے پر ناراض نہ ہو گئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور نبی ﷺ نے جو فرمایا تھا، وہ ان سے کہہ دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں نے سنا کہ حضرت بلال ؓ پکار رہے ہیں: اے عبداللہ بن قیس! میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں یاد فرمایا ہے، آپ کے پاس جاؤ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے چھ تیار اونٹوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ’’لے جاؤ ان دو اونٹوں کو، اور ان دو اونٹوں کو، (یعنی تین دفعہ فرمایا)۔‘‘ آپ نے یہ (چھ) اونٹ اسی وقت حضرت سعد بن عبادہ ؓ سے خریدے تھے۔ آپ نے مزید فرمایا: ان اونٹوں کو اپنے ساتھیوں کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ اللہ تعالٰی نے، یا آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ اونٹ تمہیں سواری کے لیے دیے ہیں، لہذا تم ان پر سوار ہو جاؤ۔ پھر میں ان اونٹوں کو لے کر ان کے پاس آیا اور کہا کہ نبی ﷺ نے تمہاری سواری کے لیے یہ اونٹ عنایت فرمائے ہیں لیکن اللہ کی قسم! میں تمہیں ہرگز چھوڑنے والا نہیں ہوں یہاں تک کہ تم میں سے کچھ لوگ میرے ساتھ اس شخص کے پاس چلیں جس نے رسول اللہ ﷺ کی گفتگو سنی تھی تاکہ تمہیں یہ خیال نہ ہو کہ میں نے اپنی طرف سے تمہیں ایسی بات کہہ دی تھی جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کہی تھی۔ انہوں نے کہا: (نہیں اس اہتمام کی چنداں ضرورت نہیں)۔ ہم تجھے سچا سمجھتے ہیں اور اگر تم تصدیق کرانا چاہتے ہو تو ہم ایسا ہی کریں گے۔ چنانچہ حضرت ابو موسٰی چند آدمیوں کو لے کر ان لوگوں کے پاس آئے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی (پہلی) گفتگو اور آپ کا انکار سنا تھا مگر اس کے بعد سواری عنایت فرمائی، تو انہوں نے بھی اسی طرح بیان کیا جس طرح حضرت ابو موسٰی ؓ نے ان سے کہا تھا، یعنی حضرت ابو موسٰی ؓ کی تصدیق کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے سواریاں طلب کرنے کا ذکر ہے، اتفاق سے اس وقت سواریاں موجود نہ تھیں لہذا رسول اللہ ﷺ نے انکار فرما دیا۔ تھوڑی دیر بعد سواریاں مہیا ہوگئیں اورآپ نے حضرت موسیٰ اشعری ؓ کو بلا کر چند سواریاں مہیا کر دیں۔ اب حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو ڈر پیدا ہوا کہ میرے ساتھی مجھے جھوٹا کہیں گے یعنی ابھی تو اس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سواریاں نہیں ہیں اوربھی سواریاں لے کر بھی آگئے۔ اس بنا پر انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میرے ہمراہ چل کر میری بات کی تصدیق کرلو تاکہ تمھیں میری بات کا یقین ہوجائے، چنانچہ ان کے اصرار پر چھ آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے بیان کی تصدیق کی۔ 2۔ قدوم اشعریین کے باب میں پانچ اونٹوں کا ذکر تھا اور اس روایت میں چھ اونٹوں کاذکر ہے؟ ممکن ہے کہ واقعات متعدد ہوں۔ جب اشعری حضرات آئے تو انھیں پانچ اونٹ دیے اور غزوہ تبوک میں شمولیت کے لیے چھ اونٹ دیے کیونکہ اشعری حضرات سات ہجری میں آئے تھے جبکہ غزوہ تبوک نوہجری میں ہوا تھا، اس کےعلاوہ تھوڑی تعداد زیادہ کے منافی نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبد اللہ بن ابی بردہ نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ مجھے میرے ساتھیوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا کہ میں آپ ﷺ سے ان کے لیے سواری کے جانور وں کی درخواست کروں۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ جیش عسرت (یعنی غزوئہ تبوک) میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا، یارسول اللہ ! میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے لیے سواری کے جانوروں کا انتظام کرا دیں۔ آپ نے فرمایا، خدا کی قسم! میں تم کو سواری کے جانور نہیں دے سکتا۔ میں جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ غصہ میں تھے اور میں اسے معلوم نہ کرسکا تھا۔ آپ اکے انکارسے میں بہت غمگین واپس ہوا۔ یہ خوف بھی تھا کہ کہیں آپ سواری مانگنے کی وجہ سے خفانہ ہوگئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور انہیں حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کی خبر دی، لیکن ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میں نے بلال ؓ کی آواز سنی، وہ پکار رہے تھے، اے عبد اللہ بن قیس ! میں نے جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں بلا رہے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ دو جوڑے اور یہ دو جوڑے اونٹ کے لے جاؤ۔ آپ نے چھ اونٹ عنایت فرمائے۔ ان اونٹوں کو آپ نے اسی وقت سعد ؓ سے خریدا تھا اور فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھیوں کو دے دو اورا نہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے یا آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہاری سواری کے لیے انہیں دیا ہے، ان پر سوار ہوجاؤ۔ میں ان اونٹوں کو لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا کہ آنحضورﷺ نے تمہاری سواری کے لیے یہ عنایت فرمائے ہیں لیکن خدا کی قسم ! کہ اب تمہیں ان صحابہ ؓ کے پاس چلنا پڑے گا، جنہوں نے حضور اکرم ﷺ کا انکار فرمانا سنا تھا، کہیں تم یہ خیا ل نہ کر بیٹھو کہ میں نے تم سے آنحضور ﷺ کے ارشاد کے متعلق غلط بات کہہ دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری سچائی میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو ہم ایسا بھی کرلیں گے۔ ابو موسیٰ ؓ ان میں سے چند لوگوں کو لے کر ان صحابہ ؓ کے پاس آئے جنہوں نے آنحضور ﷺ کا وہ ارشاد سنا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے پہلے تودینے سے انکا ر کیا تھا لیکن پھر عنایت فرمایا۔ ان صحابہ ؓ نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح ابو موسیٰ ؓ نے ان سے بیان کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا رسول کریم ﷺ سے سواریاں مانگنے کا ذکر ہے۔ اتفاق سے اس وقت سواریاں موجودنہ تھیں۔ لہٰذا آنحضر ت انے انکار فرما دیا۔ تھوڑی دیر بعد سواریاں مہیا ہوگئیں اور رسول پاک ﷺ نے ابوموسیٰ ؓ کو واپس بلوا کر پانچ چھ اونٹ ان کو دلوا دئیے۔ اب ابو موسیٰ ؓ کو یہ ڈر ہوا کہ میرے ساتھی مجھ کو جھوٹا نہ سمجھ بیٹھيں کہ ابھی تو اس نے یہ کہا تھا کہ آنحضرت ﷺ سواری نہیں دے رہے ہیں اور ابھی سواریاں لے کر آگیا۔ اس لیے حضرت ابوموسیٰ ؓ نے ان سے یہ کہا کہ میرے ہمراہ چل کر میری بات کی تصدیق آنحضرت ﷺ سے کرلو تاکہ میری بات کا تم کو یقین ہوجائے۔ چنانچہ ابو موسیٰ ؓ کے اصرار شدید پر چھ آدمی خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور انہوں نے ابو موسیٰ ؓ کے بیان کی تصدیق کی۔ حضرت ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس اشعری ؓ مشہور مہاجر صحابی ہیں۔ جنہوں نے حبشہ کی طرف بھی ہجرت کی تھی اور یہ اہل سفینہ کے ساتھ مدینہ آئے تھے جبکہ رسول کریم ﷺ خیبر میں تھے۔ حضرت فاروق اعظم ؓ نے 20ھ میں ان کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا اور خلافت عثمانی میں ان کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا گیا۔ جب ہی یہ مکہ آگئے تھے۔ 52ھ میں مکہ ہی میں ان کا انتقال ہوا، رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA) : My Companions sent me to Allah's Apostle (ﷺ) to ask him for some animals to ride on as they were accompanying him in the army of Al-Usra, and that was the Ghazwa (Battle) of Tabuk, I said, "O Allah's Prophet! My companions have sent me to you to provide them with means of transportation." He said, "By Allah! I will not make you ride anything." It happened that when I reached him, he was in an angry mood, and I didn't notice it. So I returned in a sad mood because of the refusal the Prophet (ﷺ) and for the fear that the Prophet (ﷺ) might have become 'angry with me. So I returned to my companions and informed them of what the Prophet (ﷺ) had said. Only a short while had passed when I heard Bilal (RA) calling, "O ' Abdullah bin Qais (RA) !" I replied to his call. Bilal (RA) said, "Respond to Allah's Apostle (ﷺ) who is calling you." When I went to him (i.e. the Prophet), he said, "Take these two camels tied together and also these two camels tied together,"' referring to six camels he had brought them from Sad at that time. The Prophet (ﷺ) added, "Take them to your companions and say, 'Allah (or Allah's Apostle) (ﷺ) allows you to ride on these,' so ride on them." So I took those camels to them and said, "The Prophet (ﷺ) allows you to ride on these (camels) but by Allah, I will not leave you till some of you proceed with me to somebody who heard the statement of Allah's Apostle. Do not think that I narrate to you a thing which Allah's Apostle (ﷺ) has not said." They said to me, "We consider you truthful, and we will do what you like." The sub-narrator added: So Abu Musa (RA) proceeded along with some of them till they came to those who have heard the statement of Allah's Apostle (ﷺ) wherein he denied them (some animals to ride on) and (his statement) whereby he gave them the same. So these people told them the same information as Abu Musa (RA) had told them.