Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The dismounting of the Prophet (saws) at Al-Hijr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4419.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ مقام حجر سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ’’جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہو جب تم ان کی بستیوں سے گزرو تو گریہ و زاری کرتے ہوئے گزرو مبادا تم پر وہی عذاب آ جائے جو ان پر آیا تھا۔‘‘ پھر آپ نے اپنے سر مبارک پر چادر ڈال لی اور بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگے یہاں تک کہ اس وادی سے باہر نکل گئے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4233
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4419
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4419
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4419
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
حجر،شام اور مدینے کے درمیان ایک بستی کا نام ہے۔اس مقام پر حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود آبادتھی۔یہ وہی قوم ہے جس پر اللہ کا عذاب زلزنے ،شدید دھماکے اور بجلی کی کڑک کی صورت میں نازل ہواتھا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو یہ مقام راستے میں پڑا تھا جس کی وضاحت درج ذیل حدیث میں ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ مقام حجر سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ’’جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہو جب تم ان کی بستیوں سے گزرو تو گریہ و زاری کرتے ہوئے گزرو مبادا تم پر وہی عذاب آ جائے جو ان پر آیا تھا۔‘‘ پھر آپ نے اپنے سر مبارک پر چادر ڈال لی اور بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگے یہاں تک کہ اس وادی سے باہر نکل گئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، انہیں سالم بن عبد اللہ نے اور ان سے ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ مقام حجر سے گزر ے تو آپ نے فرمایا ، ان لوگوں کی بستیوں سے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ، جب گزنا ہوتو روتے ہوئے ہی گزرو ، ایسا نہ ہوکہ تم پر بھی وہی عذاب آجائے جو ان پر آیا تھا ۔ پھر آپ نے سرمبارک پر چا در ڈال لی اور بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگے ، یہاں تک کہ اس وادی سے نکل آئے ۔کہ اس معاملہ میں جھوٹ بول کر میں اپنے کو کسی طرح محفوظ نہیں کر سکتا ۔ چنانچہ میں نے سچی بات کہنے کا پختہ ارادہ کرلیا ۔ صبح کے وقت آنحضر ت اتشریف لائے ۔ جب آپ کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو یہ آپ کی عادت تھی کہ پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دورکعت نماز پڑھتے ، پھر لوگوں کے ساتھ مجلس میں بیٹھتے ۔ جب آپ اس عمل سے فارغ ہوچکے تو آپ کی خدمت میں لوگ آنے لگے جوغزوہ میں شریک نہیںہو سکے تھے اور قسم کھا کھا کر اپنے عذر بیان کرنے لگے ۔ ایسے لوگوںکی تعداد اسی کے قریب تھی ۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے ظاہر کو قبول فرمالیا ، ان سے عہد لیا ۔ ان کے لیے مغفرت کی د عا فرمائی اوران کے باطن کو اللہ کے سپرد کیا ۔ اس کے بعد میں حاضرہوا ۔ میں نے سلام کیا تو آپ مسکرائے ۔ آپ کی مسکراہٹ میں خفگی تھی ۔ آپ نے فرمایا آؤ ، میں چند قدم چل کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۔ آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم غزوہ میں کیوں شریک نہیں ہوئے ۔ کیا تم نے کوئی سواری نہیں خریدی تھی ؟ میں نے عرض کیا ، میرے پاس سواری موجود تھی ، خداکی قسم ! اگر میں آپ کے سوا کسی دنیا دار شخص کے سا منے آج بیٹھا ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذر گھڑکر اس کی خفگی سے بچ سکتا تھا ، مجھے خوبصورتی کے ساتھ گفتگو کا سلیقہ معلوم ہے ۔ لیکن خداکی قسم ! مجھے یقین ہے کہ اگر آج میں آپ کے سا منے کوئی جھوٹا عذر بیان کر کے آپ کو راضی کرلوں تو بہت جلد اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کردے گا ۔ اس کے بجائے اگر میں آپ سے سچی بات بیان کر دوں تو یقینا آپ کو میری طرف سے خفگی ہوگی لیکن اللہ سے مجھے معافی کی پوری امید ہے ۔ نہیں ، خداکی قسم ! مجھے کوئی عذر نہیں تھا ، خدا کی قسم اس وقت سے پہلے کبھی میں اتنا فارغ البال نہیں تھا اور پھر بھی میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہوسکا ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ انھوں نے سچی بات بتادی ، اچھا اب جاؤ ، یہا ں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں خود کوئی فیصلہ کردے ۔ میں اٹھ گیا اور میرے پیچھے بنوسلمہ کے کچھ لوگ بھی دوڑے ہوئے آئے اور مجھسے کہنے لگے کہ خداکی قسم ، ہمیں تمہارے متعلق یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سے پہلے تم نے کوئی گنا ہ کیا ہے اور تم نے بڑی کوتا ہی کی ، آنحضرت ﷺ کے سامنے ویسا ہی کوئی عذر نہیں بیان کیا جیسا دوسرے نہ شریک ہونے والوں نے بیان کردیاتھا ۔ تمہارے گناہ کے لیے آنحضرت ﷺ کا استغفار ہی کا فی ہوجاتا ۔ خدا کی قسم ان لوگوں نے مجھے اس پر اتنی ملامت کی کہ مجھے خیا ل آیا کہ واپس جاکر آنحضرت ﷺ سے کوئی جھوٹا عذر کرآؤں ، پھر میں نے ان سے پوچھا کیا میرے علاوہ کسی اور نے بھی مجھ جیسا عذر بیان کیا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں دو حضرات نے اسی طرح معذرت کی جس طرح تم نے کی ہے اور انہیں جواب بھی وہی ملا ہے جو تمہیں ملا ۔ میں نے پوچھا کہ ان کے نام کیا ہیں ؟ انہوں نے بتا کیا کہ مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقفی ؓ ۔ ان دو ایسے صحابہ کا نام انہوں نے لے دیا تھا جو صالح تھے اور بدر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے ۔ ان کا طرز عمل میرے لیے نمونہ بن گیا ۔ چنانچہ انہوں نے جب ان بزرگوں کا نام لیا تو میں اپنے گھر چلاآیا اور آنحضرت ﷺ نے لوگوںکو ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کردی ، بہت سے لوگ جو غزوے میں شریک نہیں ہوئے تھے ، ان میں سے صرف ہم تین تھے ! لوگ ہم سے الگ رہنے لگے اور سب لوگ بدل گئے ۔ ایسا نظر آتا تھا کہ ہم سے ساری دنیا بدل گئی ہے ۔ ہمارا اس سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے ۔ پچاس دن تک ہم اسی طرح رہے ، میرے دو ساتھیوں نے تو اپنے گھروں سے نکلنا ہی چھوڑ دیا ، بس روتے رہتے تھے لیکن میرے اندر ہمت تھی کہ میں باہر نکلتا تھا ، مسلمانوںکے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں گھو کرتا تھالیکن مجھ سے بولتا کوئی نہ تھا ۔ میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھی حاضرہوتا تھا ، آپ کو سلام کرتا ، جب آپ نماز کے بعد مجلس میں بیٹھتے ، میں اس کی جستجومیں لگا رہتا تھاکہ دیکھوں سلام کے جواب میں آنحضرت ﷺ کے مبارک ہونٹ ہلے یا نہیں ، پھر آپ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگ جاتا اور آپ کو کنکھیوں سے دیکھتا رہتاجب میں اپنی نماز میں مشغول ہوجاتا تو آنحضرت ﷺ میری طرف دیکھتے لیکن جونہی میں آپ کی طرف دیکھتا آپ رخ مبارک پھیر لےتے ۔ آخر جب اس طرح لوگوںکی بے رخی بڑھتی ہی گئی تو میں ( ایک دن ) ابو قتادہ ؓ کے باغ کی دیوار پر چڑھ گیا ، وہ میرے چچا زاد بھائی تھے اور مجھے ان سے بہت گہرا تعلق تھا ، میں نے انہیں سلام کیا ، لیکن خدا کی قسم ! انھوں نے بھی میرے سلام کا جواب نہیں دیا ۔ میںنے کہا ، ابو قتادہ ! تمہیں اللہ کی قسم ! کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ اور اس کے رسول اسے مجھے کتنی محبت ہے ۔ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ میں نے دوبارہ ان سے یہی سوا ل کیا خداکی قسم دے کر لیکن اب بھی وہ خاموش تھے ، پھر میں نے اللہ کا واسطہ دے کر ان سے یہی سوال کیا ۔ اس مرتبہ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کوزیادہ علم ہے ۔ اس پر میرے آنسو پھوٹ پڑے ۔ میں واپس چلاآیا اور دیوار پر چڑھ کر ( نیچے ، باہر اتر آیا ) انھوں نے بیان کیا کہ ایک دن میں مدینہ کے بازار میں جارہاتھا کہ شام کا ایک کاشتکا رجو غلہ بیچنے مدینہ آیا تھا ، پوچھ رہا تھا کہ کعب بن مالک کہا ںرہتے ہیں ؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا تووہ میرے پاس آیا اور ملک غسان کا ایک خط مجھے دیا ، اس خط میں یہ تحریر تھا ۔ ” امابعد ! مجھے معلوم ہواہے کہ تمہار ے صاحب ( یعنی آنحضرت ﷺ ) تمہارے ساتھ زیادتی کرنے لگے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کوئی ذلیل نہیں پیدا کیا ہے کہ تمہارا حق ضائع کیا جائے ، تم ہمارے پاس آجاؤ ، ہم تمہارے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کریں گے ۔ “ جب میں نے یہ خط پڑھا تو میں نے کہا کہ یہ ایک اور امتحان آگیا ۔ میں نے اس خط کو تنور میں جلادیا ۔ ان پچاس دنوںمیںسے جب چالیس دن گزر چکے تو رسول کریم ﷺ کے ایلچی میرے پاس آئے اور کہا کہ آنحضرت ﷺ نے تمہیں حکم دیاہے کہ اپنی بیوی کے بھی قریب نہ جاؤ ۔ میں نے پوچھا میں اسے طلاق دے دوںیا پھر مجھے کیا کرنا چاہئےے ؟ انھوں نے بتایا کہ نہیں صرف ان سے جدا ہو ، ان کے قریب نہ جاؤ رے دونوں ساتھیوںکو ( جنہوں نے میری طرح معذرت کی تھی ) بھی یہی حکم آپ نے بھیجا تھا ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اب اپنے میکے چلی جاؤ اور اس وقت تک وہیں رہو جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا کوئی فیصلہ نہ کردے ۔ کعب ؓ نے بیان کیا کہ ہلال بن امیہ ( جن کا مقاطعہ ہواتھا ) کی بیوی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیںاور عرض کی یا رسول اللہ ! ہلال بن امیہ بہت ہی بوڑھے اور کمزور ہیں ، ان کے پاس کوئی خادم بھی نہیں ہے ، کیا اگرمیں ان کی خدمت کردیاکروںتوآپ ﷺ ناپسندفرمائیں گے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ صرف وہ تم سے صحبت نہ کریں ۔ انھوں نے عرض کی ۔ خداکی قسم ! وہ تو کسی چیز کے لیے حرکت بھی نہیں کرسکتے ۔ جب سے یہ خفگی ان پر ہوئی ہے وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ان کے آنسو تھمنے میں نہیں آتے ۔ میرے گھر کے بعض لوگوں نے کہا کہ جس طرح ہلال بن امیہ ؓ کی بیوی کو ان کی خدمت کرتے رہنے کی اجازت آنحضرت ﷺ نے دے دی ہے ، آپ بھی اسی طرح کی اجازت حضور اسے لے لیجئے ۔ میں نے کہا نہیں ، خدا کی قسم ! میں اس کے لیے آنحضرت ﷺ سے اجازت نہیں لوں گا ، میں جوان ہوں ، معلوم نہیں جب سے اجازت لےنے جا ؤ ں تو آنحضرت ﷺ کیا فرمائیں ۔ اس طرح دس دن اور گزر گئے اور جب سے آنحضرت ﷺ نے ہم سے بات چیت کر نے کی م نعت فرمائی تھی اس کے پچاس دن پورے ہوگئے ۔ پچاسویں رات کی صبح کو جب میں فجر کی ن ز پڑھ چکا اور اپنے گھر کے چھت پر بیٹھا ہوا تھا ، اس طرح جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے ، میرا دم گھٹا جارہا تھا اور زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود میرے لیے تنگ ہوتی جارہی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی ، جبل سلع پر چڑھ کر کوئی بلند آواز سے کہہ رہا تھا ، اے کعب بن مالک ! تمہیں بشارت ہو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی میں سجدے میں گر پڑا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اب فراخی ہوجائے گی ۔ فجر کی نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی بار گا ہ میں ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان کردیا تھا ۔ لوگ میرے یہاں بشارت دینے کے لیے آنے لگے اور میرے دو ساتھیوں کو بھی جاکر بشارت دی ۔ ایک صاحب ( زبیر بن عوام ؓ ) اپنا گھوڑا دوڑا ئے آرہے تھے ، ادھر قبیلہ اسلم کے ایک صحابی نے پہاڑی پر چڑھ کر ( آواز دی ) اور آواز گھوڑے سے زیادہ تیز تھی ۔ جن صحا بی نے ( سلع پہاڑی پر سے ) آواز دی تھی ، جب وہ میرے پاس بشارت دینے آئے تو اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس بشارت کی خوشی میں ، میں نے انہیں دے دئےے ۔ خدا کی قسم کہ اس وقت ان دوکپڑوں کے سوا ( دینے کے لائق ) اور میرے پاس کوئی چیز نہیں تھی ۔ پھرمیں نے ( ابوقتادہ ؓ سے ) دوکپڑے مانگ کر پہنے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، جوق درجوق لوگ مجھ سے ملاقات کرتے جاتے تھے اور مجھے توبہ کی قبولیت پر بشارت دیتے جاتے تھے ، کہتے تھے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کی قبولت مبارک ہو ۔ کعب ؓ نے بیان کیا ، آخرمیں مسجد میں داخل ہوا حضور اکرم ﷺ تشریف رکھتے تھے ۔ چاروں طرف صحابہ کا مجمع تھا ۔ طلحہ بن عبید اللہ ؓ دوڑ کر میری طرف بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی ۔ خدا کی قسم ! ( وہاں موجود ) مہاجرین میں سے کوئی بھی ان کے سوا ، میرے آنے پر کھڑا نہیں ہوا ۔ طلحہ ؓ کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا ۔ کعب ؓ نے بیان کیا کہ جب میں آنحضرت ﷺ کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا ، ( چہرہ مبارک خوشی اور مسرت دمک اٹھا تھا ) اس مبارک دن کے لیے تمہیں بشارت ہوجو تمہاری عمر کا سب سے مبارک دن ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ؟ فرمایا نہیں ، بلکہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ آنحضرت ﷺ جب کسی بات پر خوش ہوتے تو چہرہ مبارک روشن ہوجاتاتھا ، ایسا جیسے چاند کاٹکڑا ہو ۔ آپ کی مسرت ہم توچہرہ مبارک سے سمجھ جاتے تھے ۔ پھر جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو عرض کیایا رسول اللہ ! اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں ، میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کردوں ؟ آپ نے فرمایالیکن کچھ مال اپنے پاس بھی رکھ لو ، یہ زیادہ بہتر ہے ۔ میں نے عرض کیا پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لوںگا ۔ پھر میں نے عرض کیا ، یارسول اللہ ! اللہ رتعالیٰ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی ۔ اب میں اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میںیہ عہد کرتاہوں کہ جب تک زندہ رہوں گا سچ کے سوا اور کوئی بات زبان پر نہ لاؤںگا ۔ پس خدا کی قسم ! جب سے میں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ عہد کیا ، میں کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جسے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے اتنانوازا ہو ، جتنی نوازشات اس کی مجھ پر سچ بولنے کی وجہ سے ہیں ۔ جب سے میں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ عہد کیا ، پھر آج تک کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت ( ہمارے بارے میں ) نازل کی تھی ۔ ” یقینا اللہ تعالیٰ نے نبی ، مہاجرین اور انصار کی توبہ قبول کی “ اس کے ارشاد ” وکونوا مع الصادقین “ تک خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے لیے ہدایت کے بعد ، میری نظر میں آنحضرت ﷺ کے سامنے اس سچ بولنے سے بڑھ کر اللہ کا مجھ پر اور کوئی انعام نہیں ہوا کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا اور اس طرح اپنے کو ہلاک نہیں کیا ۔ جیسا کہ جھوٹ بولنے والے ہلاک ہوگئے تھے ۔ نزول وحی کے زمانہ میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے اتنی شدید وعید فرمائی جتنی شدید کسی دوسرے کے لیے نہیں فرمائی ہوگی ۔ فرمایا ہے (( سیحلفون باللہ لکم اذا انقلبتم )) ارشاد (( فان اللہ لایرضی عن القوم الفاسقین )) تک کعب ؓ نے بیان کیا ۔ چنانچہ ہم تین ، ان لوگوں کے معاملے سے جدارہے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے قسم کھالی تھی اور آپ نے ان کی بات مان بھی لی تھی ، ان سے بیعت بھی لی تھی اور ان کے لیے طلب مغفرت بھی فرمائی تھی ۔ ہمارا معاملہ آنحضرت ﷺ نے چھوڑدیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کا فیصلہ فرمایاتھا ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (( وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا )) سے یہی مراد ہے کہ ہمار ا مقدمہ ملتوی رکھا گیا اور ہم ڈھیل میں ڈال دئےے گئے ۔ یہ نہیں مراد ہے کہ جہاد سے پیچھے رہ گئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوںکے پیچھے رہے جنہوں نے قسمیں کھاکر اپنے عذر بیا ن کئے اور آنحضرت ﷺ نے ان کے عذر قبول کر لیے ۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں مذکورہ مقام ”حجر“ حضرت صالح ؑ کی قوم ثمود کی بستی کانام ہے۔ یہ وہی قوم ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب زلزلہ شدید دھماکوں اور بجلی کی کڑک کی صورت میں نازل ہوتھا۔ جب آنحضرت ﷺ غزوئہ تبوک کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو یہ مقام راستے میں پڑا تھا۔ حجر، شام اور مدینہ کے درمیان ایک بستی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): When the Prophet (ﷺ) passed by Al-Hijr, he said, "Do not enter the dwelling places of those people who were unjust to themselves unless you enter in a weeping state lest the same calamity as of theirs should befall you." Then he covered his head and made his speed fast till he crossed the valley.