Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The sickness of the Prophet (saws) and his death)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”آپ کو بھی مرنا ہے اور انہیں بھی مرنا ہے، پھر تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے حضور میں جھگڑا کرو گے۔“
4447.
حضرت کعب بن مالک انصاری ؓ سے روایت ہے، اور حضرت کعب بن مالک ؓ ان تین بزرگوں میں سے ایک ہیں جن کی توبہ قبول کی گئی تھی، انہوں نے کہا: مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے بتایا کہ ایک دن حضرت علی بن ابی طالب ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے باہر آئے جبکہ آپ مرض وفات میں مبتلا تھے۔ لوگوں نے پوچھا: اے ابوالحسن! رسول اللہ ﷺ اب کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا: الحمدللہ اب اچھے ہیں۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا: اللہ کی قسم! تم تین (دن) کے بعد محکوم اور لاٹھی کے غلام بن جاؤ گے کیونکہ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ عنقریب آپ اس مرض سے وفات پا جائیں گے۔ میں بنو مطلب کے چہرے ان کی موت کے وقت پہچانتا ہوں۔ آؤ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر اس امر کے متعلق دریافت کریں کہ آپ کے بعد کون آپ کا خلیفہ ہو گا؟ اگر آپ نے ہم لوگوں کو خلافت دی تو معلوم ہو جائے گا اور اگر آپ نے کسی دوسرے کو خلافت سونپی تو بھی معلوم ہو جائے گا اور تب آپ ہمارے متعلق حسن سلوک کی اسے وصیت فرمائیں گے۔ حضرت علی ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم نے آپ سے اس امر سے متعلق دریافت کیا اور آپ نے ہمیں محروم فرما دیا تو آپ کے بعد لوگ ہمیں کبھی خلیفہ نامزد نہیں کریں گے۔ اللہ کی قسم! میں تو رسول اللہ ﷺ سے خلافت کے متعلق سوال نہیں کروں گا۔
تشریح:
1۔ (عَبدُالعَصَا) کے معنی ہیں لاٹھی کا بندہ یعنی مسافر کیونکہ مسافر ہاتھ میں لاٹھی رکھتا ہے، اس کی حمایت کرنے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ حضرت عباس ؓ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا، اس لیے خلافت کا فیصلہ آپ کی زندگی میں ہو جانا چاہیے۔ 2۔ مرض میں ایک ایک چیز سنبھالنے کی ہوتی ہے۔ چونکہ حضرت علی ؓ ناتجربہ کار تھے اس لیے انھیں اس بات کا ادراک نہ ہوا جبکہ حضرت عباس ؓ تجربہ کار تھے انھیں اس امر کا احساس ہو گیا۔ یہ حضرت عباس ؓ کی فراست تھی۔ 3۔ اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ؓ کے دل میں خلافت کی تمنا موجود تھی چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے کہا: کیا ہمارے بغیر بھی کوئی اس خلافت کی طمع رکھتا ہے۔ حضرت عباس ؓ نے کہا میرا بھی یہی گمان ہے۔ ابن سعد کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی تو حضرت عباس ؓ نے حضرت علی ؓ سے کہا: ہاتھ پھیلاؤ تاکہ میں تمھاری بیعت کروں۔ پھر دوسرے لوگ بھی بیعت کر لیں گے۔ لیکن حضرت علی ؓ نے ایسا نہ کیا، اس کے بعد حضرت علی ؓ کہا کرتے تھے کاش ! میں حضرت عباس ؓ کی بات مان لیتا۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:28/4) 4۔ شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ وصی رسول ہیں۔ یعنی آپ نے ان کے لیے خلافت کی وصیت کی تھی۔ اگر یہ مفروضہ صحیح ہے تو انھیں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں محروم کر دیا تو آپ کے بعد لوگ ہیں کبھی خلیفہ نہیں بنائیں گے۔ بہر حال شیعہ حضرات کی وصیت والی بات لغو اور من گھڑت ہے۔ (فتح الباري:179/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4259
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4447
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4447
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4447
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
قرون اولیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعلق اختلاف رونما ہوا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ بالا آیات کی تلاوت کر کے وفات کا انکار کرنے والوں کو مطمئن کردیا۔ دور حاضر میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا انکار کرتے ہیں حیاتی اور مماتی گروہ کا تعلق اسی قسم کے اختلاف سے ہےممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں بھی اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہوں اس لیے آپ نے اسی آیت کریمہ کا حوالہ دیا جس کے پیش نظر منکرین لاجواب ہو گئے تھے۔ اس کی تفصیل آئندہ پیش ہو گی۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”آپ کو بھی مرنا ہے اور انہیں بھی مرنا ہے، پھر تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے حضور میں جھگڑا کرو گے۔“
حدیث ترجمہ:
حضرت کعب بن مالک انصاری ؓ سے روایت ہے، اور حضرت کعب بن مالک ؓ ان تین بزرگوں میں سے ایک ہیں جن کی توبہ قبول کی گئی تھی، انہوں نے کہا: مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے بتایا کہ ایک دن حضرت علی بن ابی طالب ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے باہر آئے جبکہ آپ مرض وفات میں مبتلا تھے۔ لوگوں نے پوچھا: اے ابوالحسن! رسول اللہ ﷺ اب کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا: الحمدللہ اب اچھے ہیں۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا: اللہ کی قسم! تم تین (دن) کے بعد محکوم اور لاٹھی کے غلام بن جاؤ گے کیونکہ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ عنقریب آپ اس مرض سے وفات پا جائیں گے۔ میں بنو مطلب کے چہرے ان کی موت کے وقت پہچانتا ہوں۔ آؤ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر اس امر کے متعلق دریافت کریں کہ آپ کے بعد کون آپ کا خلیفہ ہو گا؟ اگر آپ نے ہم لوگوں کو خلافت دی تو معلوم ہو جائے گا اور اگر آپ نے کسی دوسرے کو خلافت سونپی تو بھی معلوم ہو جائے گا اور تب آپ ہمارے متعلق حسن سلوک کی اسے وصیت فرمائیں گے۔ حضرت علی ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم نے آپ سے اس امر سے متعلق دریافت کیا اور آپ نے ہمیں محروم فرما دیا تو آپ کے بعد لوگ ہمیں کبھی خلیفہ نامزد نہیں کریں گے۔ اللہ کی قسم! میں تو رسول اللہ ﷺ سے خلافت کے متعلق سوال نہیں کروں گا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ (عَبدُالعَصَا) کے معنی ہیں لاٹھی کا بندہ یعنی مسافر کیونکہ مسافر ہاتھ میں لاٹھی رکھتا ہے، اس کی حمایت کرنے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ حضرت عباس ؓ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا، اس لیے خلافت کا فیصلہ آپ کی زندگی میں ہو جانا چاہیے۔ 2۔ مرض میں ایک ایک چیز سنبھالنے کی ہوتی ہے۔ چونکہ حضرت علی ؓ ناتجربہ کار تھے اس لیے انھیں اس بات کا ادراک نہ ہوا جبکہ حضرت عباس ؓ تجربہ کار تھے انھیں اس امر کا احساس ہو گیا۔ یہ حضرت عباس ؓ کی فراست تھی۔ 3۔ اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ؓ کے دل میں خلافت کی تمنا موجود تھی چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے کہا: کیا ہمارے بغیر بھی کوئی اس خلافت کی طمع رکھتا ہے۔ حضرت عباس ؓ نے کہا میرا بھی یہی گمان ہے۔ ابن سعد کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی تو حضرت عباس ؓ نے حضرت علی ؓ سے کہا: ہاتھ پھیلاؤ تاکہ میں تمھاری بیعت کروں۔ پھر دوسرے لوگ بھی بیعت کر لیں گے۔ لیکن حضرت علی ؓ نے ایسا نہ کیا، اس کے بعد حضرت علی ؓ کہا کرتے تھے کاش ! میں حضرت عباس ؓ کی بات مان لیتا۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:28/4) 4۔ شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ وصی رسول ہیں۔ یعنی آپ نے ان کے لیے خلافت کی وصیت کی تھی۔ اگر یہ مفروضہ صحیح ہے تو انھیں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں محروم کر دیا تو آپ کے بعد لوگ ہیں کبھی خلیفہ نہیں بنائیں گے۔ بہر حال شیعہ حضرات کی وصیت والی بات لغو اور من گھڑت ہے۔ (فتح الباري:179/8)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: "یقینا آپ وفات پانے والے ہیں اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔"
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو بشر بن شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عبد اللہ بن کعب بن مالک انصاری نے خبر دی اور کعب بن مالک ؓ ان تین صحابہ میں سے ایک تھے جن کی (غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے کی) توبہ قبول ہوئی تھی۔ انہیں عبد اللہ بن عباس ؓ نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے باہر آئے۔ یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی تھی۔ صحابہ ؓ نے آپ سے پوچھا، ابو الحسن! حضور اکرم ﷺ کا آج مزاج کیا ہے؟ صبح انھوں نے بتایا کہ الحمد للہ اب آپ کو افاقہ ہے۔ پھر عباس بن عبد المطلب ؓ نے علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کے کہا کہ تم، خدا کی قسم تین دن کے بعد زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاؤگے۔ خدا کی قسم، مجھے تو ایسے آثار نظر آرہے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ اس مرض سے صحت نہیں پاسکیں گے۔ موت کے وقت بنو عبد المطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے۔ اب ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہئیے اور آپ سے پوچھنا چاہئیے کہ ہمارے بعد خلافت کسے ملے گی۔ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا اور اگر کوئی دوسرا مستحق ہوگا تو وہ بھی معلوم ہوجائے گا اور حضورﷺ ہمارے متعلق اپنے خلیفہ کو ممکن ہے کچھ وصیتیں کردیں لیکن حضرت علی ؓ نے کہا کہ خدا کی قسم! اگر ہم نے اس وقت آ پ سے اس کے متعلق کچھ پوچھا اور آپ نے انکار کردیا تو پھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کردیں گے۔ میں تو ہر گز حضور ﷺ سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھوں گا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت علی ؓ کی کمال دانائی تھی جو انہوں نے یہ خیال ظاہر فرمایا جس سے کئی فتنون کا دروازہ بند ہوگیا، رضي اللہ عنه۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah bin Abbas (RA): Ali bin Abu Talib came out of the house of Allah's Apostle (ﷺ) during his fatal illness. The people asked, "O Abu Hasan (i.e. Ali)! How is the health of Allah's Apostle (ﷺ) this morning?" 'Ali replied, "He has recovered with the Grace of Allah." 'Abbas bin 'Abdul Muttalib held him by the hand and said to him, "In three days you, by Allah, will be ruled (by somebody else ), And by Allah, I feel that Allah's Apostle (ﷺ) will die from this ailment of his, for I know how the faces of the offspring of 'Abdul Muttalib look at the time of their death. So let us go to Allah's Apostle (ﷺ) and ask him who will take over the Caliphate. If it is given to us we will know as to it, and if it is given to somebody else, we will inform him so that he may tell the new ruler to take care of us." 'Ali said, "By Allah, if we asked Allah's Apostle (ﷺ) for it (i.e. the Caliphate) and he denied it us, the people will never give it to us after that. And by Allah, I will not ask Allah's Apostle (ﷺ) for it."