باب:مومن کو ڈرنا چاہئے کہ کہیں اس کے اعمال مٹ نہ جائیں اور اس کو خبر تک نہ ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: (What is said regarding) the fear of a believer that his good deeds may be annulled (lost) without his knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابراہیم تیمی ( واعظ ) نے کہا میں نے اپنے گفتار اور کردار کو جب ملایا، تو مجھ کو ڈر ہوا کہ کہیں میں شریعت کے جھٹلانے والے ( کافروں ) میں سے نہ ہو جاؤں اور ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیس صحابہ سے ملا، ان میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر نفاق کا ڈر لگا ہوا تھا، ان میں کوئی یوں نہیں کہتا تھا کہ میرا ایمان جبرئیل و میکائیل کے ایمان جیسا ہے اور حسن بصری سے منقول ہے، نفاق سے وہی ڈرتا ہے جو ایماندار ہوتا ہے اور اس سے نڈر وہی ہوتا ہے جو منافق ہے۔ اس باب میں آپس کی لڑائی اور گناہوں پر اڑے رہنے اور توبہ نہ کرنے سے بھی ڈرایا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے سورہ آل عمران میں فرمایا :’’اور اپنے برے کاموں پر جان بوجھ کر وہ اڑا نہیں کرتے۔‘‘
48.
زبید بن حارث سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو وائل سے مرجیہ کے متعلق دریافت کیا (کہ ان کا عقیدہ ہے کہ گناہ سے آدمی فاسق نہیں ہوتا) انہوں نے اس کے جواب میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت پیش کی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث کا تعلق عنوان کے دوسرے حصے سے ہے۔ اس میں مرجیہ کی تردید ہے جن کے ہاں اہل طاعت اور اہل معصیت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ایمان کے بعد نہ اطاعت کا کوئی فائدہ ہے اور نہ معصیت سے کوئی ضرر۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض معاصی انسان کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں جبکہ کچھ گناہ انسان کو فاسق بنا دیتے ہیں۔ کفر اورفسق دونوں ہی ایمان کے لیے نقصان دہ ہیں۔ کفر تو ایمان ہی کی ضد ہے۔ اسی طرح فسق کا نقصان ظاہر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ﴾’’لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا ہے اور کفر کو،گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے۔‘‘ (الحجرات 49/7) 2۔ واضح رہے کہ اس کفر سے مراد کفر حقیقی نہیں ہے کہ اس کامرتکب دین اسلام سے خارج ہو جائے جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا عقید ہ ہے بلکہ اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے۔ اس کی سنگینی کے پیش نظر اس پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے۔ ہاں اگر اس جرم کو حلال سمجھتا ہو تو اس کا مرتکب کفر حقیقی کا حامل ہوگا۔ (فتح الباري: 150/1) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ آپس میں گالی گلوچ اور لعن طعن ایک مسلمان کے شایان شان نہیں، نیز ایک دوسرے کی ناحق گردنیں مارنے سے ایمان خطرے میں پڑسکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
48
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
48
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
48
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
48
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی چیز کمال کو پہنچ جاتی ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ اس کمال کو زوال نہ آئے اس مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تکمیلات ایمان بیان کرنے کے بعد اس کے مضرات کا ذکر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ مرجیہ کی تردید بھی مقصود ہے جو ایمان کے لیے کسی بھی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔مقصد یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد مومن کو نڈر نہیں ہوجانا چاہیے بلکہ وہ اپنے ایمان کے متعلق ہمہ وقت خائف رہے اور اس کی حفاظت کی تدبیر کرتا رہے اور ایمان کی حفاظت نیک اعمال سے ہوتی ہے جن کی مرجیہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے۔اعمال کے ضائع ہونے کے دومعنی ہیں۔الف۔نیک اعمال محو ہوجائیں اور کیا دھرا سوخت ہوجائے،کفر وارتداد وغیرہ کی وجہ سے ایساہوتا ہے۔ب۔عمل میں کمزوری کیوجہ سے وہ ماند پڑجائے یا اس کی تاثیر باقی نہ رہے۔یعنی میزان حسنات میں اس کا کوئی وزن نہ ہو۔اس مقام پر دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں ،لہذا مومن کو دونوں باتوں سے ڈرتے رہنا چاہیے۔مباداشیطان غفلت میں کوئی ایسا کام کرادے جو تمام اعمال کی بربادی یا ان کے بے وزن ہونے کا باعث ہو۔اس عنوان کے دو حصے ہیں۔الف۔مومن کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں اس کے اعمال غیر دانستہ طور پر ضائع نہ ہوجائیں۔ب۔بغیر توبہ کے جنگ وجدال اور نافرمانی پر اصرار سے ایمان خطرے میں پڑسکتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان کے ہردوحصوں کی احادیث مبارکہ اور اقوال سلف کی روشنی میں وضاحت کی ہے۔ب۔حضرت ابراہیم تیمی بڑے عابد،زاہد اور واعظ تھے۔جب وعظ ونصیحت کرتے تو دیکھتے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں خواہ اس پر میرا عمل بھی ہے یا نہیں۔ایسا نہ ہو کہ میرے قول وفعل میں تضاد ہو۔انھیں ہمیشہ یہ خطرہ لاحق رہتا کہ میری تکذیب نہ کردی جائے لوگ میرا وعظ سن کر کہیں گے کہ جناب آپ کا عمل آپ کی باتوں کوجھٹلاتارہا ہے۔(مكذباً) کی ذال کو کسرہ سے پڑھاجائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کہیں میں دین کی تکذیب کرنے والوں میں نہ ہوجاؤں،یعنی منافقین میں،جن کی زبان تو بہت تیز ہوتی ہے لیکن عملی میدان میں وہ صفر ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ اس تعلیق کوامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب التاریخ الکبیر اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الزھد میں موصولاً بیان کیا ہے۔(ج)۔ابن ابی ملیکہ نے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ملاقات کی ہے جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عتبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں۔فرماتے ہیں کہ میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ایمان کے متعلق مطمئن نہیں پایا بلکہ ہر شخص اپنے ایمان کے متعلق نفاق کا اندیشہ ظاہر کرتاتھا۔حالانکہ ان کے کمال ایمان کی شہادت خود قرآن کریم اور متعدد احادیث میں موجود ہے۔یہ ان حضر ات کے تقویٰ کی انتہا ہے۔(د)۔مرجیہ کاعقید ہے کہ صدیقین ،شہدا اور عام انسانوں کے ایمان میں کوئی فرق نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مشہور ہے کہ انھوں نے فرمایا :میرا ایمان حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ایمان کی طرح ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان کی تردید فرماتے ہیں کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جیسے بلند مرتبہ حضرات اس قسم کے دعاوی سے اجتناب کرتے تھے تو دوسرے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے ایمان کو حضرت جبرئیل کے ایمان جیسا قراردیں کیونکہ حضرت جبرئیل کاایمان یقینی ہے اور ان کا خاتمہ علی الایمان بھی یقینی۔ان کے علاوہ کسی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ دنیا میں اپنے حسن وخاتمہ کا ڈھنڈورا پیٹے۔(س) امام حصن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان میں موصولاً بیان کیا ہے۔اس کامطلب بھی یہی ہے کہ مومن کو اللہ کی رحمت کی امید اور اس کے عذاب کا ڈررہتا ہے بلکہ ایمان ان دونوں کی درمیانی کیفیت کا نام ہے۔مومن کی تو شان یہ ہے کہ اسے کبھی اپنے اعمال پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمہ وقت اسے نفاق سے خائف رہنا چاہیے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صیغہ مجہول کا استعمال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مطلقاً کمزوری کی علامت نہیں بلکہ بعض اوقات اختصار یانقل بالمعنی میں صیغہ مجہول استعمال کرتے ہیں۔( فتح الباری 148/1۔)عنوان کے دوسے حصے کے متعلق وضاحت بایں طور ہے کہ گناہوں پر اصرارسے بھی مومن کو ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ بہت خطرناک چیز ہے۔اسکے لیے بطور دلیل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ آیت پیش کی ہے:(وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ)"جب ان (محسنین) سے کوئی ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اوراپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں۔درحقیقت اللہ کے سوا کون گناہوں کو بخش سکتا ہے اور وہ لوگ اپنے فعل نارواپردانستہ اصرار نہیں کرتے۔"( آل عمران 135/3۔)اس سے بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ایمان کی موجودگی میں کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا اور نہ کوئی نیک عمل ہی اس میں برگ وبار پیدا کرسکتا ہے۔یہ آیت کریمہ اس گروہ کی واضح طور پر تردید کرتی ہے کیونکہ گناہوں سے استغفار اور ان پر عدم اصرار کی بنا پر ان کی تعریف کی گئی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو گناہوں پر اصرار کرے گا اور ان کی معافی طلب نہیں کرے گا وہ اللہ کے ہاں پسندیدہ نہیں ہے۔وھوالمقصود۔
اور ابراہیم تیمی ( واعظ ) نے کہا میں نے اپنے گفتار اور کردار کو جب ملایا، تو مجھ کو ڈر ہوا کہ کہیں میں شریعت کے جھٹلانے والے ( کافروں ) میں سے نہ ہو جاؤں اور ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیس صحابہ سے ملا، ان میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر نفاق کا ڈر لگا ہوا تھا، ان میں کوئی یوں نہیں کہتا تھا کہ میرا ایمان جبرئیل و میکائیل کے ایمان جیسا ہے اور حسن بصری سے منقول ہے، نفاق سے وہی ڈرتا ہے جو ایماندار ہوتا ہے اور اس سے نڈر وہی ہوتا ہے جو منافق ہے۔ اس باب میں آپس کی لڑائی اور گناہوں پر اڑے رہنے اور توبہ نہ کرنے سے بھی ڈرایا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے سورہ آل عمران میں فرمایا :’’اور اپنے برے کاموں پر جان بوجھ کر وہ اڑا نہیں کرتے۔‘‘
حدیث ترجمہ:
زبید بن حارث سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو وائل سے مرجیہ کے متعلق دریافت کیا (کہ ان کا عقیدہ ہے کہ گناہ سے آدمی فاسق نہیں ہوتا) انہوں نے اس کے جواب میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت پیش کی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث کا تعلق عنوان کے دوسرے حصے سے ہے۔ اس میں مرجیہ کی تردید ہے جن کے ہاں اہل طاعت اور اہل معصیت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ایمان کے بعد نہ اطاعت کا کوئی فائدہ ہے اور نہ معصیت سے کوئی ضرر۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض معاصی انسان کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں جبکہ کچھ گناہ انسان کو فاسق بنا دیتے ہیں۔ کفر اورفسق دونوں ہی ایمان کے لیے نقصان دہ ہیں۔ کفر تو ایمان ہی کی ضد ہے۔ اسی طرح فسق کا نقصان ظاہر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ﴾’’لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا ہے اور کفر کو،گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے۔‘‘ (الحجرات 49/7) 2۔ واضح رہے کہ اس کفر سے مراد کفر حقیقی نہیں ہے کہ اس کامرتکب دین اسلام سے خارج ہو جائے جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا عقید ہ ہے بلکہ اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے۔ اس کی سنگینی کے پیش نظر اس پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے۔ ہاں اگر اس جرم کو حلال سمجھتا ہو تو اس کا مرتکب کفر حقیقی کا حامل ہوگا۔ (فتح الباري: 150/1) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ آپس میں گالی گلوچ اور لعن طعن ایک مسلمان کے شایان شان نہیں، نیز ایک دوسرے کی ناحق گردنیں مارنے سے ایمان خطرے میں پڑسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابراہیم تیمی کہتے ہیں: جب بھی میں نے اپنے قول و فعل کا تقابل کیا تو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں میری تکذیب نہ کر دی جائے۔ اور ابن ابی ملیکہ نے کہا: میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ہوئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنے متعلق نفاق کا اندیشہ تھا۔ ان میں سے کوئی یہ نہ کہتا تھا کہ میرا ایمان جبرئیل و میکائیل جیسا ہے۔ حسن بصری سے منقول ہے کہ نفاق سے مومن کے علاوہ اور کوئی نہیں ڈرتا اور اس سے منافق کے علاوہ اور کوئی بے فکر نہیں ہوتا۔ اس باب میں باہمی جنگ و جدال اور گناہوں پر اصرار، نیز توبہ نہ کرنے سے بھی ڈرایا گیا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مومن دانستہ اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے زبید بن حارث سے، کہا میں نے ابووائل سے مرجیہ کے بارے میں پوچھا، (وہ کہتے ہیں گناہ سے آدمی فاسق نہیں ہوتا) انھوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Abusing a Muslim is Fusuq (an evil doing) and killing him is Kufr (disbelief)."