باب:مومن کو ڈرنا چاہئے کہ کہیں اس کے اعمال مٹ نہ جائیں اور اس کو خبر تک نہ ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: (What is said regarding) the fear of a believer that his good deeds may be annulled (lost) without his knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابراہیم تیمی ( واعظ ) نے کہا میں نے اپنے گفتار اور کردار کو جب ملایا، تو مجھ کو ڈر ہوا کہ کہیں میں شریعت کے جھٹلانے والے ( کافروں ) میں سے نہ ہو جاؤں اور ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیس صحابہ سے ملا، ان میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر نفاق کا ڈر لگا ہوا تھا، ان میں کوئی یوں نہیں کہتا تھا کہ میرا ایمان جبرئیل و میکائیل کے ایمان جیسا ہے اور حسن بصری سے منقول ہے، نفاق سے وہی ڈرتا ہے جو ایماندار ہوتا ہے اور اس سے نڈر وہی ہوتا ہے جو منافق ہے۔ اس باب میں آپس کی لڑائی اور گناہوں پر اڑے رہنے اور توبہ نہ کرنے سے بھی ڈرایا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے سورہ آل عمران میں فرمایا :’’اور اپنے برے کاموں پر جان بوجھ کر وہ اڑا نہیں کرتے۔‘‘
49.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ شب قدر بتانے کے لیے (اپنے حجرے سے) نکلے۔ اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑ پڑے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تمہیں شب قدر بتاؤں، مگر فلاں فلاں آدمی جھگڑ پڑے، اس لیے وہ (میرے دل سے) اٹھا لی گئی اور شاید یہی تمہارے حق میں مفید ہو۔ اب تم شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث کا تعلق عنوان کے پہلے حصے سے ہے کیونکہ لڑائی کے موقع پر عموماً آوازیں بلند ہوجاتی ہیں اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں رفع صوت پر حبط اعمال کا خطرہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ (الحجرات: 49 : 2) پہلے تو لڑائی جھگڑا خود ہی ایک مذموم فعل ہے۔ پھر اگر یہ فعل مسجد میں ہوتو اس کی شناعت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پھر یہ واقعہ خود مسجد نبوی میں پیش آیا جہاں ایک نماز پڑھنے سے ایک ہزار نماز کا ثواب ملتا ہے، مزید برآں وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ یہ تمام چیزیں ایک بُرائی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر تو حبط اعمال کا خطرہ ہی خطرہ ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے اس کی تعیین کا علم محو کردینے میں امت کے لیے یہ تنبیہ ہے کہ یہ بھی احباط ہی کی ایک قسم ہے، لہذا ہمیں حبط کے تمام اسباب سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 2۔ اس حدیث کا عنوان کے دوسرے حصے سے بھی تعلق ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں باہمی جنگ وجدال پر اصرار سے اجتناب کا امر تھا۔ اس حدیث میں تقاتل(باہم لڑائی) کی خرابی اور اس کا انجام بتایا گیا ہے کہ اس خصومت کی نحوست سے شب قدر کی تعیین جیسی عظیم دولت سے ہمیں محروم کردیاگیا اگرچہ اس میں یہ حکمت تھی کہ اس کی تلاش میں لوگ زیادہ عبادت کریں۔ عنوان کے آخری حصے سے اس حدیث کی مناسبت بایں طور پر بھی بیان کی گئی ہےکہ باہمی جنگ وجدال بسا اوقات گالی گلوچ تک پہنچا دیتا ہے جو فسق ہے جورفتہ رفتہ ایمان کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے اور وہ ہرسال انھی تاریخوں میں آتی ہے۔ جو لوگ اس کو ستائیسویں رات کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال درست نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
49
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
49
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
49
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
49
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی چیز کمال کو پہنچ جاتی ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ اس کمال کو زوال نہ آئے اس مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تکمیلات ایمان بیان کرنے کے بعد اس کے مضرات کا ذکر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ مرجیہ کی تردید بھی مقصود ہے جو ایمان کے لیے کسی بھی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔مقصد یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد مومن کو نڈر نہیں ہوجانا چاہیے بلکہ وہ اپنے ایمان کے متعلق ہمہ وقت خائف رہے اور اس کی حفاظت کی تدبیر کرتا رہے اور ایمان کی حفاظت نیک اعمال سے ہوتی ہے جن کی مرجیہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے۔اعمال کے ضائع ہونے کے دومعنی ہیں۔الف۔نیک اعمال محو ہوجائیں اور کیا دھرا سوخت ہوجائے،کفر وارتداد وغیرہ کی وجہ سے ایساہوتا ہے۔ب۔عمل میں کمزوری کیوجہ سے وہ ماند پڑجائے یا اس کی تاثیر باقی نہ رہے۔یعنی میزان حسنات میں اس کا کوئی وزن نہ ہو۔اس مقام پر دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں ،لہذا مومن کو دونوں باتوں سے ڈرتے رہنا چاہیے۔مباداشیطان غفلت میں کوئی ایسا کام کرادے جو تمام اعمال کی بربادی یا ان کے بے وزن ہونے کا باعث ہو۔اس عنوان کے دو حصے ہیں۔الف۔مومن کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں اس کے اعمال غیر دانستہ طور پر ضائع نہ ہوجائیں۔ب۔بغیر توبہ کے جنگ وجدال اور نافرمانی پر اصرار سے ایمان خطرے میں پڑسکتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان کے ہردوحصوں کی احادیث مبارکہ اور اقوال سلف کی روشنی میں وضاحت کی ہے۔ب۔حضرت ابراہیم تیمی بڑے عابد،زاہد اور واعظ تھے۔جب وعظ ونصیحت کرتے تو دیکھتے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں خواہ اس پر میرا عمل بھی ہے یا نہیں۔ایسا نہ ہو کہ میرے قول وفعل میں تضاد ہو۔انھیں ہمیشہ یہ خطرہ لاحق رہتا کہ میری تکذیب نہ کردی جائے لوگ میرا وعظ سن کر کہیں گے کہ جناب آپ کا عمل آپ کی باتوں کوجھٹلاتارہا ہے۔(مكذباً) کی ذال کو کسرہ سے پڑھاجائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کہیں میں دین کی تکذیب کرنے والوں میں نہ ہوجاؤں،یعنی منافقین میں،جن کی زبان تو بہت تیز ہوتی ہے لیکن عملی میدان میں وہ صفر ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ اس تعلیق کوامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب التاریخ الکبیر اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الزھد میں موصولاً بیان کیا ہے۔(ج)۔ابن ابی ملیکہ نے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ملاقات کی ہے جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عتبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں۔فرماتے ہیں کہ میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ایمان کے متعلق مطمئن نہیں پایا بلکہ ہر شخص اپنے ایمان کے متعلق نفاق کا اندیشہ ظاہر کرتاتھا۔حالانکہ ان کے کمال ایمان کی شہادت خود قرآن کریم اور متعدد احادیث میں موجود ہے۔یہ ان حضر ات کے تقویٰ کی انتہا ہے۔(د)۔مرجیہ کاعقید ہے کہ صدیقین ،شہدا اور عام انسانوں کے ایمان میں کوئی فرق نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مشہور ہے کہ انھوں نے فرمایا :میرا ایمان حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ایمان کی طرح ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان کی تردید فرماتے ہیں کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جیسے بلند مرتبہ حضرات اس قسم کے دعاوی سے اجتناب کرتے تھے تو دوسرے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے ایمان کو حضرت جبرئیل کے ایمان جیسا قراردیں کیونکہ حضرت جبرئیل کاایمان یقینی ہے اور ان کا خاتمہ علی الایمان بھی یقینی۔ان کے علاوہ کسی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ دنیا میں اپنے حسن وخاتمہ کا ڈھنڈورا پیٹے۔(س) امام حصن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان میں موصولاً بیان کیا ہے۔اس کامطلب بھی یہی ہے کہ مومن کو اللہ کی رحمت کی امید اور اس کے عذاب کا ڈررہتا ہے بلکہ ایمان ان دونوں کی درمیانی کیفیت کا نام ہے۔مومن کی تو شان یہ ہے کہ اسے کبھی اپنے اعمال پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمہ وقت اسے نفاق سے خائف رہنا چاہیے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صیغہ مجہول کا استعمال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مطلقاً کمزوری کی علامت نہیں بلکہ بعض اوقات اختصار یانقل بالمعنی میں صیغہ مجہول استعمال کرتے ہیں۔( فتح الباری 148/1۔)عنوان کے دوسے حصے کے متعلق وضاحت بایں طور ہے کہ گناہوں پر اصرارسے بھی مومن کو ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ بہت خطرناک چیز ہے۔اسکے لیے بطور دلیل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ آیت پیش کی ہے:(وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ)"جب ان (محسنین) سے کوئی ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اوراپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں۔درحقیقت اللہ کے سوا کون گناہوں کو بخش سکتا ہے اور وہ لوگ اپنے فعل نارواپردانستہ اصرار نہیں کرتے۔"( آل عمران 135/3۔)اس سے بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ایمان کی موجودگی میں کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا اور نہ کوئی نیک عمل ہی اس میں برگ وبار پیدا کرسکتا ہے۔یہ آیت کریمہ اس گروہ کی واضح طور پر تردید کرتی ہے کیونکہ گناہوں سے استغفار اور ان پر عدم اصرار کی بنا پر ان کی تعریف کی گئی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو گناہوں پر اصرار کرے گا اور ان کی معافی طلب نہیں کرے گا وہ اللہ کے ہاں پسندیدہ نہیں ہے۔وھوالمقصود۔
اور ابراہیم تیمی ( واعظ ) نے کہا میں نے اپنے گفتار اور کردار کو جب ملایا، تو مجھ کو ڈر ہوا کہ کہیں میں شریعت کے جھٹلانے والے ( کافروں ) میں سے نہ ہو جاؤں اور ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیس صحابہ سے ملا، ان میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر نفاق کا ڈر لگا ہوا تھا، ان میں کوئی یوں نہیں کہتا تھا کہ میرا ایمان جبرئیل و میکائیل کے ایمان جیسا ہے اور حسن بصری سے منقول ہے، نفاق سے وہی ڈرتا ہے جو ایماندار ہوتا ہے اور اس سے نڈر وہی ہوتا ہے جو منافق ہے۔ اس باب میں آپس کی لڑائی اور گناہوں پر اڑے رہنے اور توبہ نہ کرنے سے بھی ڈرایا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے سورہ آل عمران میں فرمایا :’’اور اپنے برے کاموں پر جان بوجھ کر وہ اڑا نہیں کرتے۔‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ شب قدر بتانے کے لیے (اپنے حجرے سے) نکلے۔ اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑ پڑے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تمہیں شب قدر بتاؤں، مگر فلاں فلاں آدمی جھگڑ پڑے، اس لیے وہ (میرے دل سے) اٹھا لی گئی اور شاید یہی تمہارے حق میں مفید ہو۔ اب تم شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث کا تعلق عنوان کے پہلے حصے سے ہے کیونکہ لڑائی کے موقع پر عموماً آوازیں بلند ہوجاتی ہیں اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں رفع صوت پر حبط اعمال کا خطرہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ (الحجرات: 49 : 2) پہلے تو لڑائی جھگڑا خود ہی ایک مذموم فعل ہے۔ پھر اگر یہ فعل مسجد میں ہوتو اس کی شناعت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پھر یہ واقعہ خود مسجد نبوی میں پیش آیا جہاں ایک نماز پڑھنے سے ایک ہزار نماز کا ثواب ملتا ہے، مزید برآں وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ یہ تمام چیزیں ایک بُرائی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر تو حبط اعمال کا خطرہ ہی خطرہ ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے اس کی تعیین کا علم محو کردینے میں امت کے لیے یہ تنبیہ ہے کہ یہ بھی احباط ہی کی ایک قسم ہے، لہذا ہمیں حبط کے تمام اسباب سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 2۔ اس حدیث کا عنوان کے دوسرے حصے سے بھی تعلق ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں باہمی جنگ وجدال پر اصرار سے اجتناب کا امر تھا۔ اس حدیث میں تقاتل(باہم لڑائی) کی خرابی اور اس کا انجام بتایا گیا ہے کہ اس خصومت کی نحوست سے شب قدر کی تعیین جیسی عظیم دولت سے ہمیں محروم کردیاگیا اگرچہ اس میں یہ حکمت تھی کہ اس کی تلاش میں لوگ زیادہ عبادت کریں۔ عنوان کے آخری حصے سے اس حدیث کی مناسبت بایں طور پر بھی بیان کی گئی ہےکہ باہمی جنگ وجدال بسا اوقات گالی گلوچ تک پہنچا دیتا ہے جو فسق ہے جورفتہ رفتہ ایمان کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے اور وہ ہرسال انھی تاریخوں میں آتی ہے۔ جو لوگ اس کو ستائیسویں رات کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال درست نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابراہیم تیمی کہتے ہیں: جب بھی میں نے اپنے قول و فعل کا تقابل کیا تو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں میری تکذیب نہ کر دی جائے۔ اور ابن ابی ملیکہ نے کہا: میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ہوئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنے متعلق نفاق کا اندیشہ تھا۔ ان میں سے کوئی یہ نہ کہتا تھا کہ میرا ایمان جبرئیل و میکائیل جیسا ہے۔ حسن بصری سے منقول ہے کہ نفاق سے مومن کے علاوہ اور کوئی نہیں ڈرتا اور اس سے منافق کے علاوہ اور کوئی بے فکر نہیں ہوتا۔ اس باب میں باہمی جنگ و جدال اور گناہوں پر اصرار، نیز توبہ نہ کرنے سے بھی ڈرایا گیا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مومن دانستہ اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، انھوں نے حمید سے، انھوں نے انس ؓ سے، کہا مجھ کو عبادہ بن صامتؓ نے خبر دی کہ آنحضرت ﷺ اپنے حجرے سے نکلے، لوگوں کو شب قدر بتانا چاہتے تھے (وہ کون سی رات ہے) اتنے میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تم کو شب قدر بتلاؤں اور فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے تو وہ میرے دل سے اٹھالی گئی اور شاید اسی میں کچھ تمہاری بہتری ہو۔ (تو اب ایسا کرو کہ) شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں و پچیسویں رات میں ڈھونڈا کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی حضرت امام بخاری کا مقصود مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے یہ بتلانا ہے کہ نیک اعمال سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے۔ شب قدر کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ وہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے اور وہ ہرسال ان تواریخ میں گھومتی رہتی ہے، جو لوگ شب قدر کو ستائیسویں شب کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں۔‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓ: حدیث 45 میں اور اسی طرح بہت سی مرویات میں حضرت ابوہریرہ ؓ کا نام باربار آتا ہے لہٰذا ان کے مختصر حالات جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ علم حدیث کے سب سے بڑے حافظ اور اساطین میں شمار ہیں، صاحب فتویٰ ائمہ کی جماعت میں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔ علمی شوق میں سارا وقت صحبت نبویﷺ میں گزارتے تھے دعائیں بھی ازدیاد علم ہی کی مانگتے تھے، نشرحدیث میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے، مرویات کی تعداد5374 تک پہنچی ہوئی ہے۔ جن میں 325 متفق علیہ ہیں، فقہ میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔ عربی کے علاوہ فارسی وعبرانی بھی جانتے تھے، مسائل توارۃ سے بھی پوری واقفیت تھی۔ خشیت ربانی کایہ عالم تھا کہ ’’احتساب قیامت‘‘ کے ذکر پر چیخ مارکر بے ہوش ہوجاتے تھے، ایک مرتبہ مخصوص طور پر یہ حدیث سنائی جس کے دوران میں کئی مرتبہ بے ہوش ہوئے۔ ’’حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ’’بروز قیامت سب سے پہلے عالم قرآن، شہید اور دولت مند فیصلہ کے لیے طلب ہوں گے، اول الذکر سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تجھے علم قرآن عطا کیا، اس پر تونے عمل بھی کیا؟ جواب دے گا شبانہ روز تلاوت کرتا رہتا تھا۔ فرمائے گا، جھوٹ بولتا ہے، تواس لیے تلاوت کرتا تھا کہ قاری کا خطاب مل جائے، مل گیا۔ دولت مند سے سوال ہوگا کہ میں نے تجھے دولت مند بنا کر دوسروں کی دست نگری سے بے نیاز نہیں کیا تھا؟ اس کا بدلا کیا دیا؟ عرض کرے گا صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا۔ ارشادہوگا، جھوٹ بولتا ہے مقصد تو یہ تھا کہ سخی مشہور ہوجائے، وہ ہوگیا۔ شہید سے سوال ہوگا۔ وہ کہے گا کہ الٰہ العالمین میں توتیرے حکم جہاد ہی کے تحت لڑا، یہاں تک کہ تیری راہ میں مارا گیا۔ حکم ہوگا غلط ہے، تیری نیت تو یہ تھی کہ دنیا میں شجاع وجری مشہور ہو جائے، وہ مقصد حاصل ہوگیا۔ ہمارے لیے کیا کیا؟ یہ حدیث بیان کرکے حضور ﷺنے میرے زانو پر ہاتھ مارکر ارشاد فرمایا : سب سے پہلے انہیں تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔‘‘ (ترمذی، ابواب الزہد) عبادت سے عشق تھا، گھر میں ایک بیوی اور ایک خادم تھا، تینوں باری باری تہائی تہائی شب مصروف عبادت رہتے تھے بعض اوقات پوری پوری راتیں نماز میں گذار دیتے۔آغاز ماہ میں تین روزے التزام کے ساتھ رکھتے، ایک روز تکبیر کی آواز سن کر ایک صاحب نے پوچھا توفرمایا کہ خدا کا شکر ادا کررہاہوں کہ ایک دن تھا کہ میں برہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی پر ملازم تھا، اس کے بعد وہ دن بھی اللہ نے دکھایا کہ وہ میرے عقد میں آگئی۔ حضور ﷺ سے بے حد محبت تھی، اسوۂ رسول ﷺ پر سختی سے پابند تھے، اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور جب حضرت حسن ؓ کو دیکھتے توآبدیدہ ہوجاتے تھے۔ اطاعت والدین کا یہ کتنا شان دار مظاہرہ تھا کہ شوق عبادت کے باوجود محض ماں کی تنہائی کے خیال سے ان کی زندگی میں حج نہیں کیا۔ (مسلم، جلد: 2) قابل فخر خصوصیت یہ ہے کہ ویسے تو آپ کے اخلاق بہت بلند تھے اور حق گوئی کے جوش میں بڑے سے بڑے شخص کو فوراً پیچھے روک دیتے تھے، چنانچہ جب مدینہ میں ہنڈی یا چک کا رواج ہوا ہے تو آپ نے مروان سے جاکر کہا کہ تونے ربا حلال کردیا، کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ’’ اشیائے خوردنی کی بیع اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ بائع اسے ناپ تول نہ لے، اسی طرح اس کے یہاں تصاویر آویزاں دیکھ کر اسے ٹوکا اور اسے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔‘‘ ایک دفعہ مروان کی موجودگی میں فرمایا: حضور ﷺ نے صحیح فرمایا ہے : ’’میری امت کی ہلاکت قریش کے لونڈوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔‘‘ لیکن سب سے نمایاں چیز یہ تھی کہ منصب امارت پر پہنچ کر اپنے فقر کو نہ بھولے۔ یاتویہ حالت تھی کہ روٹی کے لیے گھوڑے کے پیچھے دوڑتے، مسلسل فاقوں سے غش پہ غش آتے، حضور ﷺ کے سواکوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اصحاب صفہ میں تھے کسی سے سوال نہ کرتے، لکڑیاں جنگل سے کاٹ لاتے، اس سے بھی کام نہ چلتا، رہ گزر پر بیٹھ جاتے کہ کوئی کھلانے کے لیے لے جائے یایہ عالم ہوا کہ گورنری پر پہنچ گئے، سب کچھ حاصل ہوگیا، لیکن فقیرانہ سادگی برابر قائم رکھی، ویسے اچھے سے اچھا پہنا، کتاں کے بنے ہوئے کپڑے پہنے اور ایک سے ناک صاف کرکے کہا، واہ واہ! ابوہریرہؓ آج تو کتاں سے ناک صاف کرتے ہو، حالانکہ کل شدت فاقہ سے مسجد نبوی میں غش کھاکر گر پڑا کرتے تھے۔ شہر سے نکلتے توسواری میں گدھا ہوتا، جس پر معمولی نمدہ کسا ہوتا۔ چھال کی رسی کی لگام ہوتی۔ جب سامنے کوئی آ جاتا تو مزاحا خود کہتے، راستہ چھوڑو امیرکی سواری آرہی ہے۔ بڑے مہمان نواز اور سیرچشم تھے، اللہ تعالیٰ آج کسی کو معمولی فارغ البالی بھی عطا کرتا ہے توغرور سے حالت اور ہوجاتی ہے مگر خدا نے آپ کو زمین سے اٹھاکر عرش پر بٹھادیا، لیکن سادگی کا وہی عالم رہا۔ (رضی اللہ عنہ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' ' 'Ubadah bin As-Samit (RA): "Allah's Apostle (ﷺ) went out to inform the people about the (date of the) night of decree (Al-Qadr) but there happened a quarrel between two Muslim men. The Prophet (ﷺ) said, "I came out to inform you about (the date of) the night of Al-Qadr, but as so and so and so and so quarreled, its knowledge was taken away (I forgot it) and maybe it was better for you. Now look for it in the 7th, the 9th and the 5th (of the last 1O nights of the month of Ramadan)."