Sahi-Bukhari:
Virtues of the Qur'an
(Chapter: The collection of the Qur'an)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4986.
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جنگ یمامہ کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی انے پاس موجود تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ میرے پاس سیدنا عمر بن خطاب ؓ آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ جنگ یمامہ میں بہت سے قاری قرآن شہید ہوگئے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگرقراء کی شہادت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو قراء ختم ہو جائیں گے اور قرآن کریم کا بہت سا حصہ بھی ان کے ساتھ جاتا رہے گا اس لیے میری خواہش ہے کہ آپ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دیں۔ میں نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے کہا کو جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا تم کیسے کرو گے؟ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے اس کا یہ جواب دیا: اللہ کی قسم ! یہ تو ایک کار خیر ہے اور وہ میرے ساتھ اس سلسلے میں تکرار کرتے رہی۔ آخر اللہ تعالٰی نے اس مسئلے میں میرا سینہ بھی کھول دیا اور میری بھی وہی رائے ہے جو سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی تھی۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے مزید فرمایا کہ تم ایک نوجوان اور عقلمند آدمی ہو۔ ہم نے تمہیں کسی معاملی میں متہم بھی نہیں کیا اور تم رسول اللہ ﷺ کے کاتب وحی بھی تھے۔ اس لیے قرآن مجید کو پوری جستجو اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دو۔ سیدنا زيد ؓ نےنے کہا: ) اللہ کی قسم ! اگر کوئی پہاڑ دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو قرآن جمع کرنے کی نسبت یہ کام میرے لیے آسان تھا۔ بہرحال میں نے عرض کی: آپ حضرات وہ کام کیسے کر سکتے ہو جو خود رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ ایک عمل خیر ہے اور آپ میرے ساتھ تکرار کرتے رہے کہ اللہ تعالٰی نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا ہے جس کے لیے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اور سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا سینہ کھولا تھا۔ چنانچہ میں قرآن مجید کی تلاش شروع کر دی اور میں اسے کھجور کی شاخوں، باریک پتھروں اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا حتیٰ کہ سورہ توبہ کی آخری آیات مجھے سیدنا ابو خزیمہ ؓ کے پاس سے ملیں۔ یہ آیات ان کے علاوہ کسی اور کے پاس نہ تھیں۔ ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ﴾ جمع کرنے کے بعد یہ صحیفے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے پاس رہے۔ پھر ان کی وفات کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے زندگی بھر انہیں اپنے پاس رکھا، ان کے بعد وہ ام المومنین سیدنا حفصہ بنت عر ؓ کے پاس محفوظ رہے۔
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کریم کے متعلق بیان کیا ہے کہ اسے اوراق میں کیونکر جمع کیا گیا؟ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قرآن کریم کو سینوں اور تحریری شکل میں جمع کرلیاگیاتھا لیکن تحریری طور پر یکجا نہیں تھا بلکہ کھجور کی شاخوں،باریک پتھروں ،کاغذ کے ٹکڑوں ،چمڑے کی جھلیوں ،شانے کی ہڈیوں اور پسلیوں پر لکھا گیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک مصحف میں اس جمع نہ کیا تھا کہ زمانہ نزول کے وقت کچھ آیات منسوخ ہوجاتی تھیں،اگرانھیں ایک مصحف میں جمع کرتے پھر نسخ کی وجہ سے بعض آیات کی تلاوت اٹھائی جاتی تو اختلاف پیدا ہوجاتا اور منسوخ آیات کا ناسخ آیات کے ساتھ اختلاط رہتا،اس لیے اللہ تعالیٰ نے نسخ کے زمانے میں قرآن کریم کو سینوں میں محفوظ رکھا،اسی لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی حفظ قرآن کااہتمام کیا،لکھنے کی طرف اتنی توجہ نہ دی،لیکن متفرق طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قرآن کریم کو لکھ لیا گیا تھا،البتہ ایک جگہ پر جمع نہ تھا اور نہ اس کی سورتیں ہی مرتب تھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نسخ کااندیشہ نہ رہا اور نہ مزید آیات کے نازل ہونے کی امید ہی تھی۔اس لیے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریک پر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تعاون سے قرآن کریم کو جمع فرمایا۔ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریک پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرتب کردہ مصحف کو ازسر نومرتب کیا اور اس انداز سے جمع کیا کہ ثابت شدہ احرف سبعہ کو بھی اس میں سمودیاگیا،نیزمنسوخ آیات کو خارج کردیا گیا۔واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام سے قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے۔وہ اس ترتیب کے مطابق ہوتا تھا جو آج ہمارے مصاحف میں موجود ہے۔اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔باذن اللہ تعالیٰ۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جنگ یمامہ کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی انے پاس موجود تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ میرے پاس سیدنا عمر بن خطاب ؓ آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ جنگ یمامہ میں بہت سے قاری قرآن شہید ہوگئے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگرقراء کی شہادت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو قراء ختم ہو جائیں گے اور قرآن کریم کا بہت سا حصہ بھی ان کے ساتھ جاتا رہے گا اس لیے میری خواہش ہے کہ آپ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دیں۔ میں نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے کہا کو جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا تم کیسے کرو گے؟ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے اس کا یہ جواب دیا: اللہ کی قسم ! یہ تو ایک کار خیر ہے اور وہ میرے ساتھ اس سلسلے میں تکرار کرتے رہی۔ آخر اللہ تعالٰی نے اس مسئلے میں میرا سینہ بھی کھول دیا اور میری بھی وہی رائے ہے جو سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی تھی۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے مزید فرمایا کہ تم ایک نوجوان اور عقلمند آدمی ہو۔ ہم نے تمہیں کسی معاملی میں متہم بھی نہیں کیا اور تم رسول اللہ ﷺ کے کاتب وحی بھی تھے۔ اس لیے قرآن مجید کو پوری جستجو اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دو۔ سیدنا زيد ؓ نےنے کہا: ) اللہ کی قسم ! اگر کوئی پہاڑ دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو قرآن جمع کرنے کی نسبت یہ کام میرے لیے آسان تھا۔ بہرحال میں نے عرض کی: آپ حضرات وہ کام کیسے کر سکتے ہو جو خود رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ ایک عمل خیر ہے اور آپ میرے ساتھ تکرار کرتے رہے کہ اللہ تعالٰی نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا ہے جس کے لیے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اور سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا سینہ کھولا تھا۔ چنانچہ میں قرآن مجید کی تلاش شروع کر دی اور میں اسے کھجور کی شاخوں، باریک پتھروں اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا حتیٰ کہ سورہ توبہ کی آخری آیات مجھے سیدنا ابو خزیمہ ؓ کے پاس سے ملیں۔ یہ آیات ان کے علاوہ کسی اور کے پاس نہ تھیں۔ ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ﴾ جمع کرنے کے بعد یہ صحیفے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے پاس رہے۔ پھر ان کی وفات کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے زندگی بھر انہیں اپنے پاس رکھا، ان کے بعد وہ ام المومنین سیدنا حفصہ بنت عر ؓ کے پاس محفوظ رہے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبید بن سباق نے اور ان سے زید بن ثابت ؓ نے بیان کیا کہ جنگ یمامہ میں (صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے) شہید ہو جانے کے بعد ابوبکر ؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت عمر ؓ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو (باقاعدہ کتابی شکل میں) جمع کرنے کا حکم دے دیں۔ میں نے عمر ؓ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ ﷺ نے (اپنی زندگی میں) نہیں کیا؟ عمر ؓ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم! یہ تو ایک کارخیر ہے۔ عمر ؓ یہ بات مجھ سے باربار کہتے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہو گئی جو عمر ؓ کی تھی۔ زید ؓ نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ نے کہا آپ (زید ؓ) جوان اور عقلمند ہیں، آپ کو معاملہ میں متہم بھی نہیں کیا جا سکتا اور آپ رسول اللہ ﷺ کی وحی لکھتے بھی تھے، اس لیے آپ قرآن مجید کو پوری تلاش اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیں۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے دوسری جگہ ہٹانے کے لیے کہتے تو میرے لیے یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ ان کا یہ حکم کہ میں قرآن مجید کو جمع کر دوں۔ میں نے اس پر کہا کہ آپ لوگ ایک ایسے کام کو کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے خود نہیں کیا تھا۔ ابوبکر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایک عمل خیر ہے۔ ابوبکر ؓ یہ جملہ برابر دہراتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر ؓ کی طرح سینہ کھول دیا۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید (جو مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا) کی تلاش شروع کر دی اور قرآن مجید کو کھجور کی چھلی ہوئی شاخوں، پتلے پتھروں سے، (جن پر قرآن مجید لکھا گیا تھا) اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا۔ سورۃ التوبہ کی آخری آیتیں مجھے ابوخزیمہ انصاری ؓ کے پاس لکھی ہوئی ملیں، یہ چند آیات مکتوب شکل میں ان کے سوا اور کسی کے پاس نہیں تھیں ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ﴾ سے سورۃ براۃ (سورۃ توبہ) کے خاتمہ تک۔ جمع کے بعد قرآن مجید کے یہ صحیفے ابوبکر ؓ کے پاس محفوظ تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد عمر ؓ نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر ؓ کے پاس محفوظ رہے۔
حدیث حاشیہ:
قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں متفرق الگ الگ صحیفوں‘ ورقوں‘ ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا۔ مگر سارا قرآن ایک جگہ ایک مصحف میں نہیں جمع ہوا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایک جگہ جمع کیا گیا، حضرت عثمان کی خلافت میں اس کی نقلیں مرتب ہو کر تمام ملکوں میں بھیجی گئیں۔ غرض یہ قرآن سارے کا سارا لکھا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی موجود تھا۔ مگر متفرق الگ الگ کسی کے پاس ایک ٹکرا کسی کے پاس دوسرا ٹکرا اور سورتوں میں بھی کوئی ترتیب نہ تھی۔ یہ ترتیب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں کی گئی۔ اس روایت سے یہ بھی نکلا کہ صحابہ بدعت سے سخت پرہیز کرتے تھے اور جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا اسے معیوب جانا کرتےتھے۔ حضرت ابوبکر صدیق‘ حضرت عمر پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے جو کام کیا کہ سارے قرآن کو ایک جگہ مرتب کر دیا ایسا ہونا ضروری تھا۔ ورنہ پہلی کتابوں کی طرح قرآن میں بھی شدید اختلاف پیدا ہو جاتے۔ بدعت وہ کام ہے جس کا ثبوت قرون ثلاثہ سے نہ ہو جیسا آج کل لوگ تیجہ، فاتحہ‘ چہلم کرتے ہیں۔ قبروں پر میلے لگاتے‘عرس کرتے‘ نذریں چڑھاتےہیں۔ یہ جملہ امور بدعات سیئہ میں داخل ہیں۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو بدعت سے بچا کر راہ سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ جمع قرآن شریف سے متعلق مفصل مقالہ اس پارہ کے آخر میں ملاحظہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Thabit (RA) : Abu Bakr (RA) As-Siddiq sent for me when the people! of Yamama had been killed (i.e., a number of the Prophet's Companions who fought against Musailama). (I went to him) and found 'Umar bin Al-Khattab (RA) sitting with him. Abu Bakr (RA) then said (to me), "Umar has come to me and said: "Casualties were heavy among the Qurra' of the! Qur'an (i.e. those who knew the Qur'an by heart) on the day of the Battle of Yalmama, and I am afraid that more heavy casualties may take place among the Qurra' on other battlefields, whereby a large part of the Qur'an may be lost. Therefore I suggest, you (Abu Bakr) order that the Qur'an be collected." I said to 'Umar, "How can you do something which Allah's Apostle (ﷺ) did not do?" 'Umar said, "By Allah, that is a good project. "Umar kept on urging me to accept his proposal till Allah opened my chest for it and I began to realize the good in the idea which 'Umar had realized." Then Abu Bakr (RA) said (to me). 'You are a wise young man and we do not have any suspicion about you, and you used to write the Divine Inspiration for Allah's Apostle. So you should search for (the fragmentary scripts of) the Qur'an and collect it in one book)." By Allah If they had ordered me to shift one of the mountains, it would not have been heavier for me than this ordering me to collect the Qur'an. Then I said to Abu Bakr, "How will you do something which Allah's Apostle (ﷺ) did not do?" Abu Bakr (RA) replied, "By Allah, it is a good project." Abu Bakr (RA) kept on urging me to accept his idea until Allah opened my chest for what He had opened the chests of Abu Bakr (RA) and 'Umar. So I started looking for the Qur'an and collecting it from (what was written on) palmed stalks, thin white stones and also from the men who knew it by heart, till I found the last Verse of Surat At-Tauba (Repentance) with Abi Khuzaima Al-Ansari, and I did not find it with anybody other than him. The Verse is: 'Verily there has come unto you an Apostle (ﷺ) (Muhammad) from amongst yourselves. It grieves him that you should receive any injury or difficulty..(till the end of Surat-Baraa' (At-Tauba) (9.128-129) Then the complete manuscripts (copy) of the Qur'an remained with Abu Bakr (RA) till he died, then with 'Umar till the end of his life, and then with Hafsah (RA), the daughter of 'Umar.