Sahi-Bukhari:
Virtues of the Qur'an
(Chapter: The superiority of Surat Al-Fath (No48))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5012.
حضرات اسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو ایک سفر میں جا رہے تھے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے آپ ﷺ سے کچھ پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا لیکن اس مرتبی بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے (تیسری مرتبہ) پھر پوچھا تو(اس مرتبہ) بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ تب سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے (اپنے آپ سے) کہا: اے عمر! تیری ماں تجھے گم پائے، تو نے تین مرتبہ نہایت اصرار کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا لیکن ہر بار تجھے کوئی جواب نہ ملا۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا بیان ہے کہ پھر میں نے اپنی اونٹنی کو خوب دوڑایا حتیٰ کہ میں سب لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ مبادی میرے متعلق کوئی آیت نازل ہو جائے۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو با آواز بلند مجھے پکار رہا تھا۔ مجھے ڈر لگا کہ میرے متعلق قرآن نازل ہو گیا ہے بہرحال میں (فوراً) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام پیش کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آج رات مجھ پر ایک ایسے سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔“ پھر آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: ”ہم نے تمہارے لیے واضح فتح فرمائی۔“
تشریح:
1۔ مذکورہ سفر صلح حدیبیہ کا تھا۔ اس میں واضح طور پر سورہ الفتح کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اس سورہ مبارکہ کو ایک خاص تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے نازل ہونے کے بعد فتوحات اسلامیہ کا ایک دروازہ کھل گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بخوبی جانتے تھے کہ میرا آگے بڑھ جانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو جانا نزول وحی سے رکاوٹ کا باعث نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ آگے اس لیے چلے گئے کہ بار بار سوال کرنے سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی کا باعث بنا ہوں۔ جب میں دور چلا جاؤں گا تو جو پریشانی آپ کو میری وجہ سے لاحق ہوئی تھی وہ دور ہو جائے گی۔ 2۔ بہر حال اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال گزرا کہ میرے سوال کرنے میں بے ادبی ہو گئی ہے، اس لیے اونٹ بھگا کر لے گئے کہ کہیں میری اس حرکت پر کوئی آیت ہی نازل نہ ہو جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول وحی میں مصروفیت کی وجہ سے جواب نہ دیا ہو، یہ بھی احتمال ہے کہ انھوں نے فراغت کے بعد جواب دیا ہو جس کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذکر نہ کیا۔ واللہ اعلم۔
حضرات اسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو ایک سفر میں جا رہے تھے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے آپ ﷺ سے کچھ پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا لیکن اس مرتبی بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے (تیسری مرتبہ) پھر پوچھا تو(اس مرتبہ) بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ تب سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے (اپنے آپ سے) کہا: اے عمر! تیری ماں تجھے گم پائے، تو نے تین مرتبہ نہایت اصرار کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا لیکن ہر بار تجھے کوئی جواب نہ ملا۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا بیان ہے کہ پھر میں نے اپنی اونٹنی کو خوب دوڑایا حتیٰ کہ میں سب لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ مبادی میرے متعلق کوئی آیت نازل ہو جائے۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو با آواز بلند مجھے پکار رہا تھا۔ مجھے ڈر لگا کہ میرے متعلق قرآن نازل ہو گیا ہے بہرحال میں (فوراً) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام پیش کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آج رات مجھ پر ایک ایسے سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔“ پھر آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: ”ہم نے تمہارے لیے واضح فتح فرمائی۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ مذکورہ سفر صلح حدیبیہ کا تھا۔ اس میں واضح طور پر سورہ الفتح کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اس سورہ مبارکہ کو ایک خاص تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے نازل ہونے کے بعد فتوحات اسلامیہ کا ایک دروازہ کھل گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بخوبی جانتے تھے کہ میرا آگے بڑھ جانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو جانا نزول وحی سے رکاوٹ کا باعث نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ آگے اس لیے چلے گئے کہ بار بار سوال کرنے سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی کا باعث بنا ہوں۔ جب میں دور چلا جاؤں گا تو جو پریشانی آپ کو میری وجہ سے لاحق ہوئی تھی وہ دور ہو جائے گی۔ 2۔ بہر حال اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال گزرا کہ میرے سوال کرنے میں بے ادبی ہو گئی ہے، اس لیے اونٹ بھگا کر لے گئے کہ کہیں میری اس حرکت پر کوئی آیت ہی نازل نہ ہو جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول وحی میں مصروفیت کی وجہ سے جواب نہ دیا ہو، یہ بھی احتمال ہے کہ انھوں نے فراغت کے بعد جواب دیا ہو جس کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذکر نہ کیا۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے اور ان سے ان کے والد اسلم نے کہ رسول کریم ﷺ رات کو ایک سفر میں جا رہے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ حضرت عمر ؓ نے آنحضرت ﷺ سے کچھ پوچھا۔ لیکن آنحضرت اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت عمر ؓ نے پھر پوچھا آپ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔ تیسری مرتبہ پھر پوچھا اور جب اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں دیا تو حضرت عمر ؓ نے ( اپنے آپ کو) کہا تیری ماں تجھ پر روئے تو نے آنحضرت ﷺ سے تین مرتبہ عاجزی سے سوال کیا اور آنحضرت نے کسی مرتبہ بھی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر ؓ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنی اونٹنی کو دوڑایا اور لوگوں سے آگے ہوگیا (آپ کے برابر چلنا چھوڑ دیا) مجھے خوف تھا کہ کہیں اس حرکت پر میرے بارے میں کوئی آیت نازل نہ ہو جائے ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا جو پکار رہا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے سوچا مجھے تو خوف تھا ہی کہ میرے بارے میں کچھ وحی نازل ہوگی۔ حضرت عمر ؓ نے بیان کیا چنانچہ میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ کو سلام کیا (سلام کے جواب کے بعد آنحضرت نے فرمایا کہ اے عمر! آج رات مجھ پر ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن پرسورج نکلتا ہے۔ پھر آپ نے سورہ ﴿إنا فَتحنَا لكَ فَتحاً مبیناً﴾ کی تلاوت فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
اس سورت کی فضیلت کے لئے یہ حدیث کافی وافی ہے، اس کا تعلق صلح حدیبیہ سے ہے جس کے بعد فتوحات اسلامی کا دروازہ کھل گیا۔ اس لحاظ سے اس سورت کو ایک خاص تاریخی حیثیت حاصل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aslam (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) was traveling on one of his journeys, and 'Umar bin Al-Khattab (RA) was traveling along with him at night. 'Umar asked him about something, but Allah's Apostle (ﷺ) I did not answer him. He asked again, but he did not answer. He asked for the third time!, but he did not answer. On that, 'Umar said to himself, "May your mother lose you! You have asked Allah's Apostle (ﷺ) three times, but he did not answer at all!" Umar said, "So I made my camel go fast till I was ahead of the people, and I was afraid that something might be! revealed about me. After a little while I heard a call maker calling me, I said, 'I was afraid that some Qur'anic Verse might be revealed about me.' So I went to Allah's Apostle (ﷺ) and greeted him. He said, 'Tonight there has been revealed to me a Surah which is dearer to me than that on which the sun shines (i.e. the world).' Then he recited: 'Verily! We have given you ( O Muhammad (ﷺ) I, a manifest victory.' " (Surat al-Fath) No. (48.1).