Sahi-Bukhari:
Virtues of the Qur'an
(Chapter: What is the proper period for reciting the whole Qur'an)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”پس پڑھو جو کچھ بھی اس میں سے تمہارے لیے آسان ہو۔“
5052.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے والد گرامی نے میرا نکاح ایک خاندانی عورت سے کر دیا اور وہ ہمیشہ اپنی بہو کی خبر گیری کرتے رہتے اور اس سے اس کے شوہر (اپنے بیٹے) کا حال دریافت کرتے رہتے تھے۔ وہ کہتی تھیں کہ میرا شوہر اچھا آدمی ہے البتہ جب سے میں اس کے نکاح میں آئی ہوں انہوں نے اب تک ہمارے بستر پر قدم نہیں رکھا اور کبھی میرے کپڑے ہی میں ہاتھ ڈالا ہے۔ جب بہت سے دن اسی طرح گزر گئے تو میرے والد گرامی نے نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا ”مجھ سے اس کی ملاقات کراؤ۔ “ چنانچہ اس کے بعد میں نےآپ ﷺ سے ملاقات کی تو آپ نے دریافت فرمایا: تم روزے کیسے رکھتے ہو؟ میں نے کہا: ہر روز روزے سے ہوتا ہوں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: ”قرآن مجید کس طرح ختم کرتے ہو؟“ میں نے عرض کی: ہر رات قرآن مجید ختم کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو اور ہر مہینے میں ایک بار قرآن ختم کیا کرو۔“ میں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر ہفتے میں تین روزے رکھا کرو۔“ میں نے عرض کی: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: دو دن افطار کرو اور ایک دن روزہ رکھو۔“ میں نے عرض کی: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر وہ افضل روزے رکھو جو سیدنا داود ؑ کے روزے ہیں ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور سات دن میں ایک بار قرآن ختم کرو۔“ (سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ کہا کرتے تھے: ) کاش! میں رسول اللہ ﷺ کی رخصت کو قبول کرلیتا کیونکہ اب میں بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہوں۔ بہرحال سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ اپنے گھر کے کسی آدمی کو قرآن مجید کا ساتواں حصہ سنا دیتے تھے اور جو وہ پڑھتے دن کے وقت اس کا دور کر لیتے تھے تا کہ رات کو پڑھنے میں آسانی رہے اور جب قوت حاصل کرنا چاہتے تو چند روز افطار کر لیتے تھے اور افطار کے دن شمار کر لیتے پھر ان دنوں کے برابر روزے رکھ لیتے کیونکہ وہ اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ وہ ایسی شے ترک کر دیں جس پر پابندی کرتے ہوئے نبی ﷺ سے مفارقت کی تھی ابو عبد اللہ (امام بخاری ؓ ) کہتے ہیں کہ بعض راویوں نے تین دن میں بعض نے پانچ دن میں قرآن ختم کرنے کا ذکر کیا ہے، لیکن بیشتر روایات سات رات میں قرآن ختم کرنے کی ہیں۔
تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے تین رات کم میں قرآن ختم کیا اس نے قرآن نہیں سمجھا۔‘‘ (سنن أبي داود، شهد رمضان، حدیث: 1390) ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ ’’قرآن سات دن میں ختم کرو اور تین دن سے کم مدت میں تو ختم نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ (سنن سعید بن منصور ، التفسیر، حدیث:143) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم نہیں کرتے تھے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، حدیث: 2466) 2۔ اکثر علماء کا موقف یہ ہے کہ ختم قرآن کے لیے مدت کی کوئی حد مقرر نہیں بلکہ یہ مختلف احوال و مختلف اشخاص پر موقوف ہے۔ جو شخص تدبر سے پڑھنا چاہے اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اتنی مدت میں ختم کرے کہ اصل مقصود یعنی تدبر و تفکر متاثر نہ ہو۔ اور جو شخص اہم معاملات یا مصالح میں مشغول ہے اس کے لیے اسی قدر مستحب ہے کہ مہمات دین میں خلل نہ آئے ہاں اگر کسی کو اہم مصروفیات نہیں ہے تو جس قدر زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھ سکتا ہو پڑھ لے یہاں تک کہ اکتا نہ جائے اور اسے تیز تیز پڑھنے سے بھی بچے۔ (فتح الباري:121/9)
بعض حضرات کا خیال ہے قرآن کریم کو کم ازکم چالیس دنوں میں ضرور پڑھنا چاہیے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں مدت کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ اس میں ہے کہ جس قدر آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لو۔ اس آیت کریمہ کا تقاضا ہے کہ جز معین کی کوئی تحدید نہیں اور نہ اس کے وقت ہی کا تعین ہے۔واللہ اعلم۔(فتح الباری:9/119)
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”پس پڑھو جو کچھ بھی اس میں سے تمہارے لیے آسان ہو۔“
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے والد گرامی نے میرا نکاح ایک خاندانی عورت سے کر دیا اور وہ ہمیشہ اپنی بہو کی خبر گیری کرتے رہتے اور اس سے اس کے شوہر (اپنے بیٹے) کا حال دریافت کرتے رہتے تھے۔ وہ کہتی تھیں کہ میرا شوہر اچھا آدمی ہے البتہ جب سے میں اس کے نکاح میں آئی ہوں انہوں نے اب تک ہمارے بستر پر قدم نہیں رکھا اور کبھی میرے کپڑے ہی میں ہاتھ ڈالا ہے۔ جب بہت سے دن اسی طرح گزر گئے تو میرے والد گرامی نے نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا ”مجھ سے اس کی ملاقات کراؤ۔ “ چنانچہ اس کے بعد میں نےآپ ﷺ سے ملاقات کی تو آپ نے دریافت فرمایا: تم روزے کیسے رکھتے ہو؟ میں نے کہا: ہر روز روزے سے ہوتا ہوں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: ”قرآن مجید کس طرح ختم کرتے ہو؟“ میں نے عرض کی: ہر رات قرآن مجید ختم کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو اور ہر مہینے میں ایک بار قرآن ختم کیا کرو۔“ میں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر ہفتے میں تین روزے رکھا کرو۔“ میں نے عرض کی: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: دو دن افطار کرو اور ایک دن روزہ رکھو۔“ میں نے عرض کی: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر وہ افضل روزے رکھو جو سیدنا داود ؑ کے روزے ہیں ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور سات دن میں ایک بار قرآن ختم کرو۔“ (سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ کہا کرتے تھے: ) کاش! میں رسول اللہ ﷺ کی رخصت کو قبول کرلیتا کیونکہ اب میں بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہوں۔ بہرحال سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ اپنے گھر کے کسی آدمی کو قرآن مجید کا ساتواں حصہ سنا دیتے تھے اور جو وہ پڑھتے دن کے وقت اس کا دور کر لیتے تھے تا کہ رات کو پڑھنے میں آسانی رہے اور جب قوت حاصل کرنا چاہتے تو چند روز افطار کر لیتے تھے اور افطار کے دن شمار کر لیتے پھر ان دنوں کے برابر روزے رکھ لیتے کیونکہ وہ اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ وہ ایسی شے ترک کر دیں جس پر پابندی کرتے ہوئے نبی ﷺ سے مفارقت کی تھی ابو عبد اللہ (امام بخاری ؓ ) کہتے ہیں کہ بعض راویوں نے تین دن میں بعض نے پانچ دن میں قرآن ختم کرنے کا ذکر کیا ہے، لیکن بیشتر روایات سات رات میں قرآن ختم کرنے کی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے تین رات کم میں قرآن ختم کیا اس نے قرآن نہیں سمجھا۔‘‘ (سنن أبي داود، شهد رمضان، حدیث: 1390) ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ ’’قرآن سات دن میں ختم کرو اور تین دن سے کم مدت میں تو ختم نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ (سنن سعید بن منصور ، التفسیر، حدیث:143) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم نہیں کرتے تھے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، حدیث: 2466) 2۔ اکثر علماء کا موقف یہ ہے کہ ختم قرآن کے لیے مدت کی کوئی حد مقرر نہیں بلکہ یہ مختلف احوال و مختلف اشخاص پر موقوف ہے۔ جو شخص تدبر سے پڑھنا چاہے اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اتنی مدت میں ختم کرے کہ اصل مقصود یعنی تدبر و تفکر متاثر نہ ہو۔ اور جو شخص اہم معاملات یا مصالح میں مشغول ہے اس کے لیے اسی قدر مستحب ہے کہ مہمات دین میں خلل نہ آئے ہاں اگر کسی کو اہم مصروفیات نہیں ہے تو جس قدر زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھ سکتا ہو پڑھ لے یہاں تک کہ اکتا نہ جائے اور اسے تیز تیز پڑھنے سے بھی بچے۔ (فتح الباري:121/9)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے ”: قرآن سے جو آسان ہو اسے پڑھو“۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عوانہ نے، ان سے مغیرہ بن مقسم نے، ان سے مجاہد بن جبیر نے اور ان سے عبد اللہ بن عمرو ؓ نے بیان کیا کہ میرے والد عمرو بن العاص ؓ نے میرا نکاح ایک شریف خاندان کی عورت (ام محمد بنت محمیہ) سے کر دیا تھا اور ہمیشہ اس کی خبر گیری کرتے رہتے تھے اور ان سے بار بار اس کے شوہر (یعنی خود ان) کے متعلق پوچھتے رہتے تھے۔ میری بیوی کہتی کہ بہت اچھا مرد ہے۔ البتہ جب سے میں ان کے نکاح میں آئی ہوں انہوں نے اب تک ہمارے بستر پر قدم بھی نہیں رکھا نہ میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ ڈالا۔ جب بہت دن اسی طرح ہو گئے تو والد صاحب نے مجبور ہو کر اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا مجھ سے اس کی ملاقات کراؤ۔ چنانچہ میں اس کے بعد آنحضرت ﷺ سے ملا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ روزہ کس طرح رکھتے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ روزانہ پھر دریافت فرمایا قرآن مجید کس طرح ختم کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا ہر رات۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو اور قرآن ایک مہینے میں ختم کرو۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر بلا روزے کے رہو اور ایک دن روزے سے۔ میں نے عرض کیا مجھے اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر وہ روزہ رکھو جو سب سے افضل ہے، یعنی داؤد ؑ کا روزہ، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور قرآن مجید سات دن میں ختم کرو۔ عبد اللہ بن عمرو ؓ کہا کرتے تھے کاش میں نے آنحضرت ﷺ کی رخصت قبول کرلی ہوتی کیونکہ اب میں بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہوں۔ حجاج نے کہا کہ آپ اپنے گھر کے کسی آدمی کو قرآن مجید کا ساتواں حصہ یعنی ایک منزل دن میں سنا دیتے تھے۔ جتنا قرآن مجید آپ رات کے وقت پڑھتے اسے پہلے دن میں سنا رکھتے تا کہ رات کے وقت آسانی سے پڑھ سکیں اور جب (قوت ختم ہو جاتی اور نڈھال ہو جاتے اور) قوت حاصل کرنی چاہتے تو کئی کئی دن روزہ نہ رکھتے کیونکہ آپ کو یہ پسند نہیں تھا کہ جس چیز کا رسول اللہ ﷺ کے آگے وعدہ کرلیا ہے (ایک دن روزہ رکھنا ایک دن افطار کرنا) اس میں سے کچھ بھی چھوڑیں۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ بعض راویوں نے تین دن میں اور بعض نے پانچ دن میں۔ لیکن اکثر نے سات راتوں میں ختم کی حدیث روایت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ختم قرآن کی مدتوں کا بیان ہے، باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah bin Amr (RA) bin Al-As (RA) : My father got me married to a lady of a noble family, and often used to ask my wife about me, and she used to reply, "What a wonderful man he is! He never comes to my bed, nor has he approached me since he married me." When this state continued for a long period, my father told the story to the Prophet (ﷺ) who said to my father, "Let me meet him." Then I met him and he asked me, "How do you fast?" I replied, "I fast daily," He asked, "How long does it take you to finish the recitation of the whole Qur'an?" I replied, "I finish it every night." On that he said, "Fast for three days every month and recite the Qur'an (and finish it) in one month." I said, "But I have power to do more than that." He said, "Then fast for three days per week." I said, "i have the power to do more than that." He said, "Therefore, fast the most superior type of fasting, (that is, the fasting of (prophet) David who used to fast every alternate day; and finish the recitation of the whole Qur'an In seven days." I wish I had accepted the permission of Allah's Apostle (ﷺ) as I have become a weak old man. It is said that 'Abdullah used to recite one-seventh of the Qur'an during the day-time to some of his family members, for he used to check his memorization of what he would recite at night during the daytime so that it would be easier for him to read at night. And whenever he wanted to gain some strength, he used to give up fasting for some days and count those days to fast for a similar period, for he disliked to leave those things which he used to do during the lifetime of the Prophet.