Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: Husband and wife should have the same religion)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
` اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ وہی ہے جس نے انسان کو پانی (نطفے) سے پیدا کیا، پھر اسے ددھیال اور سسرال کے رشتوں میں بانٹ دیا (اس کو کسی کا بیٹا، بیٹی کسی کا داماد، بہو بنا دیا (یعنی خاندانی اور سسرال دونوں رشتے رکھے) اور اے پیغمبر! تیرا مالک بڑی قدرت والا ہے۔“تشریح:یعنی کافر مسلمان کا کفو نہیں ہو سکتا بعضوں نے کفائت میں صرف دین کا اتحاد کافی سمجھا ہے اور کسی بات کی ضرورت نہیں مثلاً سید‘ شیخ مغل‘پٹھان جو مسلمان ہوں وہ سب ایک دوسرے کے کفو ہیں لیکن جمہور علماء کے نزدیک (اسلام کے بعد) کفائت میں نسب اور خاندان کا بھی لحاظ ہونا چاہیےحضرت امام ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ قریش ایک دوسرے کے کفو ہیں دوسرے عرب ان کے کفو نہیں ہیں شافعیہ اور حنفیہ کے نزدیک اگر ولی راضی ہوں تو غیر کفو میں بھی نکاح صحیح ہے مگر ایک ولی بھی اگر ناراض ہو تو نکاح فسخ کرا سکتا ہے (وحیدی)( مہاجرین صحابہ کا نصار کی عورتوں سے نکاح کرنا ثابت کرتا ہے کہ کفائت میں صرف دین ہی کافی ہے باقی سب کچھ اضافی اور ثانوی حیثیت رہے اور اگلی حدیث بھی اسی بات کی مؤید ہیں عبدالرشید تونسوی)
5090.
سیدنا ابو ہریرۃ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”عورت سے چار خصلتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے: مال، نسب، خوبصورتی اور دینداری۔ تمھارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں! تم دیندار عورت سے شادی کر کے کامیابی حاصل کرو۔“
تشریح:
(1) نکاح کے موقع پر حسب ونسب کا خیال رکھنا مصالح اور فوائد سے خالی نہیں لیکن دینداری اور اخلاق و کردار کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ (2) مال میں ہم پلہ ہونا کی ضروری نہیں جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جو ایک تاجر اور مال دار شخص تھے انھوں نے اپنی ہمشیر کا نکاح حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کیا تھا جو ایک حبشی غلام تھے۔ (سنن الدارقطني: 3/302) اسی طرح حسب و نسب میں بھی ہم پلہ ہونا ضرور نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (جو کہ غلام تھے) کا نکاح حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہما (جو ایک قریشی خاتون تھیں) سے کر دیا تھا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا اشارہ ملتا ہے۔ (الأحزاب: 37)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4893
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5090
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5090
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5090
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
اكفاء، كفو کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: ہم مثل اور ہم پلہ۔شادی کرتے وقت دین میں ہم پلہ ہونا ضروری ہے،لہٰذا ایک مسلمان عورت کا نکاح کافر مرد سے نہیں ہوسکتا۔ اکثر اہم علم کے نزدیک نکاح کے وقت میاں بیوی کا صرف دین میں متحد ہونا ضروری ہے،اس کے علاوہ اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، مثلاً: سید، شیخ، مغل، ارائیں، رانا، بلوچ اور پٹھان جو مسلمان ہوں وہ سب ایک دوسرے کے لیے ہم پلہ ہیں۔لیکن کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ دین کے علاوہ نسب اور خاندان کا بھی لحاظ ہونا چاہیے لیکن مہاجرین صحابہ کا انصار کی عورتوں سے نکاح کرنا اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ہم پلہ ہونے میں صرف دین کا ہونا ضروری ہے باقی سب کچھ اضافی اور ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے اور پیش کردہ احادیث بھی ا سی موقف کی تائید کرتی ہے۔ والله اعلم
` اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ وہی ہے جس نے انسان کو پانی (نطفے) سے پیدا کیا، پھر اسے ددھیال اور سسرال کے رشتوں میں بانٹ دیا (اس کو کسی کا بیٹا، بیٹی کسی کا داماد، بہو بنا دیا (یعنی خاندانی اور سسرال دونوں رشتے رکھے) اور اے پیغمبر! تیرا مالک بڑی قدرت والا ہے۔“تشریح:یعنی کافر مسلمان کا کفو نہیں ہو سکتا بعضوں نے کفائت میں صرف دین کا اتحاد کافی سمجھا ہے اور کسی بات کی ضرورت نہیں مثلاً سید‘ شیخ مغل‘پٹھان جو مسلمان ہوں وہ سب ایک دوسرے کے کفو ہیں لیکن جمہور علماء کے نزدیک (اسلام کے بعد) کفائت میں نسب اور خاندان کا بھی لحاظ ہونا چاہیےحضرت امام ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ قریش ایک دوسرے کے کفو ہیں دوسرے عرب ان کے کفو نہیں ہیں شافعیہ اور حنفیہ کے نزدیک اگر ولی راضی ہوں تو غیر کفو میں بھی نکاح صحیح ہے مگر ایک ولی بھی اگر ناراض ہو تو نکاح فسخ کرا سکتا ہے (وحیدی)( مہاجرین صحابہ کا نصار کی عورتوں سے نکاح کرنا ثابت کرتا ہے کہ کفائت میں صرف دین ہی کافی ہے باقی سب کچھ اضافی اور ثانوی حیثیت رہے اور اگلی حدیث بھی اسی بات کی مؤید ہیں عبدالرشید تونسوی)
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرۃ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”عورت سے چار خصلتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے: مال، نسب، خوبصورتی اور دینداری۔ تمھارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں! تم دیندار عورت سے شادی کر کے کامیابی حاصل کرو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) نکاح کے موقع پر حسب ونسب کا خیال رکھنا مصالح اور فوائد سے خالی نہیں لیکن دینداری اور اخلاق و کردار کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ (2) مال میں ہم پلہ ہونا کی ضروری نہیں جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جو ایک تاجر اور مال دار شخص تھے انھوں نے اپنی ہمشیر کا نکاح حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کیا تھا جو ایک حبشی غلام تھے۔ (سنن الدارقطني: 3/302) اسی طرح حسب و نسب میں بھی ہم پلہ ہونا ضرور نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (جو کہ غلام تھے) کا نکاح حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہما (جو ایک قریشی خاتون تھیں) سے کر دیا تھا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا اشارہ ملتا ہے۔ (الأحزاب: 37)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اللہ وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا، پھر اسے نسب اور سسرال والا بنایا“
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحی بن سعید قطان نے، ان سے عبید اللہ عموی نے، کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "A woman is married for four things, i.e., her wealth, her family status, her beauty and her religion. So you should marry the religious woman (otherwise) you will be a losers.