Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: Yellow coloured perfume for a bridegroom)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کی روایت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے نبی کریم ﷺ سے کی ہے۔تشریح:دولہا کے زردی لگانا حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک مطلق منع ہے اور مالکیہ نے صرف کپڑے میں لگانا دولہا کے لئے جائز رکھا ہے نہ کہ بدن میں ان کی دلیل ابوموسیٰ کی حدیث ہے جس میں مذکورہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جس کے بدن میں زرد خوشبوئیں ہوں حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن کی حدیث سے مرد کے لئے زردی لگانے کا جواز نہیں نکلتا کیونکہ عبدالرحمٰن نے زردی نہیں لگائی تھی بلکہ ان کی دلہن کی زردی ان کے بدن یا کپڑے سے لگ گئی ہوگی (وحیدی)
5153.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ رسول للہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان پر زرد رنگ کے نشانات تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے آپ نے پوچھا: ”اسے حق مہر کتنا دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: گٹھلی کے وزن کے برابر سونا دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ولیمہ ضرور کرو، ایک بکری ہی ذبح کرو۔
تشریح:
(1) امام بخاري رحمہ اللہ نے دلھے کے لیے زرد رنگ کا جواز ثابت کیا ہے۔ دراصل انھوں نے اس انداز کی دو مختلف احادیث کے درمیان تطبیق دی ہے: ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے لیے زعفرانی رنگ ممنوع قرار دیا ہے۔ ان کے درمیان تطبیق اس طرح ہے کہ اس امتناعی حکم سے دلھا مستثنیٰ ہے۔ اس کے لیے اس رنگ کے استعمال کی رخصت معلوم ہوتی ہے۔ والله اعلم(فتح الباري: 276/9) (2) نيز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد گرامي ہے: ’’مردوں کی خوشبو کا رنگ مخفی اور مہک نمایاں اور عورتوں کی خوشبو کی مہک مخفی اوررنگ نمایاں ہوتا ہے۔‘‘ (سنن النسائي، الزینة، حدیث: 5120)جس کی نئی نئی شادی ہوئی ہو اس کے لیے رنگ دار خوشبو کے استعمال کی اجازت ہے تاکہ نکاح کا اعلان ہو جو شریعت کا مقصود ہے۔ اس امر کا اشارہ ایک دوسری حدیث سے بھی ملتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کو رنگین خوشبو لگی دیکھی تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تیری بیوی ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں،ت و آپ نے فرمایا: ’’اسے دھو ڈالو اورآئندہ ایسا نہ کرنا۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے دھو ڈالا اور آئندہ نہ لگانے کا عزم کر لیا۔ (سنن النسائي، الزینة، حدیث: 5121)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4953
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5153
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5153
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5153
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
اس کی روایت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے نبی کریم ﷺ سے کی ہے۔تشریح:دولہا کے زردی لگانا حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک مطلق منع ہے اور مالکیہ نے صرف کپڑے میں لگانا دولہا کے لئے جائز رکھا ہے نہ کہ بدن میں ان کی دلیل ابوموسیٰ کی حدیث ہے جس میں مذکورہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جس کے بدن میں زرد خوشبوئیں ہوں حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن کی حدیث سے مرد کے لئے زردی لگانے کا جواز نہیں نکلتا کیونکہ عبدالرحمٰن نے زردی نہیں لگائی تھی بلکہ ان کی دلہن کی زردی ان کے بدن یا کپڑے سے لگ گئی ہوگی (وحیدی)
حدیث ترجمہ:
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ رسول للہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان پر زرد رنگ کے نشانات تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے آپ نے پوچھا: ”اسے حق مہر کتنا دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: گٹھلی کے وزن کے برابر سونا دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ولیمہ ضرور کرو، ایک بکری ہی ذبح کرو۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاري رحمہ اللہ نے دلھے کے لیے زرد رنگ کا جواز ثابت کیا ہے۔ دراصل انھوں نے اس انداز کی دو مختلف احادیث کے درمیان تطبیق دی ہے: ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے لیے زعفرانی رنگ ممنوع قرار دیا ہے۔ ان کے درمیان تطبیق اس طرح ہے کہ اس امتناعی حکم سے دلھا مستثنیٰ ہے۔ اس کے لیے اس رنگ کے استعمال کی رخصت معلوم ہوتی ہے۔ والله اعلم(فتح الباري: 276/9) (2) نيز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد گرامي ہے: ’’مردوں کی خوشبو کا رنگ مخفی اور مہک نمایاں اور عورتوں کی خوشبو کی مہک مخفی اوررنگ نمایاں ہوتا ہے۔‘‘ (سنن النسائي، الزینة، حدیث: 5120)جس کی نئی نئی شادی ہوئی ہو اس کے لیے رنگ دار خوشبو کے استعمال کی اجازت ہے تاکہ نکاح کا اعلان ہو جو شریعت کا مقصود ہے۔ اس امر کا اشارہ ایک دوسری حدیث سے بھی ملتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کو رنگین خوشبو لگی دیکھی تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تیری بیوی ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں،ت و آپ نے فرمایا: ’’اسے دھو ڈالو اورآئندہ ایسا نہ کرنا۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے دھو ڈالا اور آئندہ نہ لگانے کا عزم کر لیا۔ (سنن النسائي، الزینة، حدیث: 5121)
ترجمۃ الباب:
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓنے اس امر کو نبیﷺسے بیان کیا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان کو مالک نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے اور انہیں انس بن مالک نے کہ عبدالرحمن بن عوف ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے اوپر زرد رنگ کا نشان تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے انصارکی ایک عورت سے نکاح کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا اسے مہر کتنا دیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک گٹھلی کے برابر سونا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ پھر ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کا ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): 'Abdur-Rahman bin 'Auf came to Allah's Apostle (ﷺ) and he had marks of Sufra (yellow perfume). Allah's Apostle (ﷺ) asked him (about those marks). 'AbdurRahman bin Auf told him that he had married a woman from the Ansar. The Prophet (ﷺ) asked, "How much Mahr did you pay her?" He said, "I paid gold equal to the weight of a date stone." Allah's Apostle (ﷺ) said to him, "Give a wedding banquet, even if with one sheep."