باب: خلع کے بیان میں اور خلع میں طلاق کیونکر پڑے گی ؟
)
Sahi-Bukhari:
Divorce
(Chapter: Al-Khul' and how a divorce is given according to it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ ” اور تمہارے لیے ( شوہروں کے لیے ) جائز نہیں کہ جو ( مہر ) تم انہیں ( اپنی بیویوں کو ) دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ بھی واپس لو ، سوا اس صورت کے جبکہ زوجین اس کا خوف محسوس کریں کہ وہ ( ایک ساتھ رہ کر ) اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے ۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے خلع جائز رکھا ہے ۔ اس میں بادشاہ یا قاضی کے حکم کی ضرورت نہیں ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر جورو اپنے سارے مال کے بدلہ میں خلع کرے صرف جوڑا باندھنے کا دھاگہ رہنے دے تب بھی خلع کرانا درست ہے ۔ طاؤس نے کہا کہ الا ان یخافا ان لا یقیما حدود اللہ کا یہ مطلب ہے کہ جب جورو اور خاوند اپنے اپنے فرائض کو جو حسن معاشرت اور صحبت سے متعلق ہیں ادانہ کر سکیں ( اس وقت خلع کرانا درست ہے ) طاؤس نے ان بیوقوفوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ خلع اسی وقت درست ہے جب عورت کہے کہ میں جنابت یا حیض سے غسل ہی نہیں کروں گی ۔تشریح : اب تو صحبت کیسے کرے گا۔ اسے عبدالرزاق نے وصل کیا یہ ابن طاؤس کا قول ہے کہ ان بے وقوفوں کی طرح یہ نہیں کہا۔ انہوں نے اس کا رد کیا کہ خلع صرف اسی وقت درست ہے جب عورت بالکل مرد کا کہنا نہ سنے اور کسی طرح اصلاح کی امید نہ ہو جیسے سعید بن منصور نے شعبی سے نکالا ۔ ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا میں تو تیری کوئی بات نہیں سنوں گی نہ تیری قسم پوری کروں گی نہ میں جنابت کا غسل کروں گی۔ اس وقت شعبی نے کہا اگر عورت ایسی ناراض ہے تو اب خاوند کو جائز ہے کہ اس سے کچھ لے لے اوراسے چھوڑ دے۔نوٹ : جو معترضین کہتے ہیں کہ عورت کو شادی کے معاملہ میں اسلام نے مجبور کردیا ہے ان کا یہ قول سرا سر غلط ہے۔ اول تو عورت کی بغیر اجازت نکاح ہی نہیں ہوسکتا ۔ دوسرے اگر عورت پر ظلم ہو رہا ہے تو اس کو اپنے خاوند سے خلاصی حاصل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اسی کو اسلام میں لفظ خلع سے ذکر کیا گیا ہے۔ عورت اس حالت میں قاضی اسلام کے ذریعہ شرعی طریقہ پر خلع کے ذریعہ ایسے خاوند سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے پورے طور پر مختار ہے۔ لہٰذا معترضین کے ایسے جملہ اعتراضات غلط ہیں۔
5276.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ثابت بن قیس بن شماس ؓ کی بیوی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: اللہ کے رسول! میں ثابت بن قیس ؓ عنہ کی دینداری اور اس کے اچھے خلق کا انکار نہیں کرتی لیکن میں اسلام میں رہتے ہوئے ناسپاسی اور ناشکری سے ڈرتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تو اس کا باغ اسے واپس کردے گی؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ چنانچہ اس نے ان کا باغ واپس کر دیا۔ اور انہوں نے آپ ﷺ کے حکم سے اسے جدا کر دیا۔
تشریح:
(1) یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ اس لیے لائے ہیں کہ سابقہ احادیث میں جو اسے طلاق کا حکم دیا گیا تھا اس سے مراد لغوی طلاق ہے، یعنی اسے چھوڑ دے، اس سے اصطلاحی طلاق مراد نہیں ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ تو اسے جدا کر دے۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق خلع فسخ نکاح ہے، طلاق نہیں کیونکہ: ٭ خلع کی عدت ایک حیض ہے جبکہ طلاق کی عدت تین حیض ہے۔ ٭خلع میں مرد کو رجوع کا حق نہیں جبکہ طلاق دینے کے بعد مرد کو رجوع کا حق ہوتا ہے۔ ٭خلع میں مرد اپنا دیا ہوا حق مہر واپس لے سکتا ہے جبکہ طلاق میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ٭ خلع حالت حیض میں بھی جائز ہے جبکہ طلاق حالت حیض میں منع ہے۔ ٭ خلع کے بعد میاں بیوی نئے سرے سے نکاح کر کے اکٹھے ہو سکتے ہیں جبکہ طلاق کا نصاب پورا ہونے کے بعد عام حالات میں میاں بیوی اکٹھے نہیں ہو سکتے، البتہ دوسری جگہ شادی کرنا پھر مکمل طور پر ہم بستر ہونے کے بعد اگر طلاق مل جائے تو پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔ والله اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5073
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5276
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5276
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5276
تمہید کتاب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے پہلے رشتۂ نکاح قائم کرنے اور پھر اسے باقی رکھنے کے لیے جو قانونی،اخلاقی اور شرعی ہدایا ت تھیں انھیں بیان کیا تھا۔چونکہ وجود کے اعتبار سے نکاح، طلاق سے پہلے ہوتا ہے،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے احکام ومسائل کے بیان کو بھی اسی اعتبار سے ملحوظ رکھا ہے،اس لیے اب طلاق کے متعلق شرعی ہدایات بیان کی جائیں گی۔ طلاق کے لغوی معنی بندھن کھولنا ہیں اور شرعی اصطلاح میں اس گرہ اور بندھن (عقد) کے کھول دینے کو طلاق کہتے ہیں جو نکاح کے ذریعے سے لگائی گئی تھی۔یہ دور جاہلیت کی اصطلاح ہے جسے اسلام نے بھی باقی رکھا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کبھی طلاق ناجائز ہوتی ہے،جیسے دوران حیض میں طلاق دی جائے یا بیک وقت تینوں طلاقیں دے دی جائیں اور کبھی مکروہ جو بلا سبب محض شہوت رانی اور نئی دلھن کی ہوس میں ہو جبکہ حالات بھی ساز گار ہوں۔بعض اوقات طلاق واجب ہوتی ہے،جب بیوی اور خاوند کے درمیان اس حد تک مخالفت ہو کہ کسی طرح بھی اتفاق ممکن نہ ہو اور فریقین کے نمائندے طلاق ہونے کو ہی مناسب خیال کریں۔کبھی مستحب بھی ہوتی ہے،جب عورت نیک چلن نہ ہو اور کبھی طلاق جواز کے درجے میں ہوتی ہے،جب بیوی کی طرف دلی آمادگی نہ ہو اور خاوند اس کا خرچہ وغیرہ ناپسند اور اسے بے فائدہ خیال کرے۔(فتح الباری: 9/430) زندگی کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل ہمارے دین میں موجود نہ ہو جبکہ باقی ادیان میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی،چنانچہ یہودی مذہب میں خاوند کو صرف تحریری شکل میں طلاق دینے کا حق ہے۔اس کے بغیر زبانی طلاق دینے کی اجازت نہیں ہے،نیز طلاق کے بعد خاوند کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کی قطعاً اجازت نہیں۔اس کے برعکس عیسائی اور ہندو مذہب میں انتہائی سنگین حالات میں بھی خاوند کو طلاق دینے کا حق نہیں جبکہ دین اسلام اس قسم کی افراط وتفریط سے بالا ہوکر ایک معتدل راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔اگر ہم اعتدال پسندی کا مظاہرہ کریں تو زندگی کے کسی موڑ پر ہمیں پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔اس اعتدال کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے،پھر خاوند کو بیوی کے لیے اور بیوی کو خاوند کے لیے سکون واطمینان کا ذریعہ بنایا ہے،اس طرح دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے طالب بھی ہیں اورمطلوب بھی اور دونون میں اس قدر محبت رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر فدا ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔اسی جذبہ فدائیت کا نتیجہ ہے کہ دونوں اپنے مقدس رشتے کو زندگی بھر نبھانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔٭اس رشتے کی خشت اول یہ ہے کہ نکاح سے پہلے اپنی بننے والی بیوی کو سرسری نظر سے دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ شکل وصورت کی ناپسندیدگی آئندہ اختلاف اور علیحدگی کا باعث نہ ہو۔حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: "تو نے اسے دیکھا ہے؟" میں نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا: "اسے دیکھ لو اس طرح زیادہ توقع ہے کہ تم میں الفت پیدا ہوجائے۔"(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 1865)٭نکاح کے بعد خاوند کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے حسن سلوک اور رواداری سے پیش آئے اور اس سے اچھا برتاؤ کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ان بیویوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔"(النساء: 4/19) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اہل ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہوں۔"(مسند احمد: 2/250)٭خاوند کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ اپنی بیوی کی معمولی معمولی لغزشوں کو خاطر میں نہ لائے بلکہ اس کی اچھی خصلتوں کی وجہ سے اس کی کوتاہیوں کو نظرانداز کرتا رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں ناگوار ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو۔"(النساء: 4/19)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہ رکھے،اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی تو ضرور کوئی دوسری پسند بھی ہوگی۔"(مسند احمد: 2/329)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کو عورت کی فطری کمزوری سے بھی آگاہ کیا ہے تاکہ یہ جلد بازی میں کوئی ایسا اقدام نہ کر بیٹھے جس پر وہ آئندہ نادم وپریشان ہو،آپ نے فرمایا: "عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دوگے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہوتو اس ٹیڑھ کی موجودگی میں فائدہ اٹھاتے رہو۔"(صحیح البخاری، النکاح، حدیث: 5184)صحیح مسلم میں ہے: " اس کا توڑ دینا اسے طلاق دینا ہے۔"(صحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 3643 (715))٭خاوند اس بات کا بھی پابند ہے کہ اگر بیوی میں کوئی ناقابل برداشت چیز دیکھے تو طلاق دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ ممکن حد تک اصلاح احوال کی کوشش کرے جس کے تین قرآنی مراحل حسب ذیل ہیں:٭پہلا قدم یہ ہے کہ بیوی کو نرمی سے سمجھایا جائے اور اسے اس کے اختیار کیے ہوئے رویے کے انجام سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ محض اپنی بہتری اور مفاد کی خاطر گھر کی فضا خراب نہ کرے۔٭اگر خاوند کے سمجھانے بجھانے کا اثر قبول نہیں کرتی تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرے میں سونا شروع کردے اور اس سے میل جول بند کردے۔اگر بیوی میں کچھ سمجھ بوجھ ہوگی تو وہ اس کی سرد جنگ کو برداشت نہیں کرسکے گی۔٭اگر خاوند کے اس اقدام پر بیوی کو ہوش نہیں آتا تو پھر آخری حربے کے طور پر مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں:٭مارتے وقت اسے برا بھلا نہ کہا جائے اور گالی گلوچ نہ دی جائے۔٭اس کے چہرے پر نہ مارا جائے۔(مسند احمد: 2/251، و سنن ابی داود، حدیث: 2142)ایسی مار نہ ہو جس سے زخم ہوجائیں یا نشان پڑجائیں۔(مسند احمد: 5/72، 73)ان حدودوقیود کے ساتھ خاوند کو بحالت مجبوری بیوی کو احتیاط کے ساتھ مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔٭ایسے حالات میں بیوی کو بھی تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنا مقام خاوند کے ہاں دیکھتی رہے کہ کیا ہے۔خاوند اس کے لیے جنت ہے اور وہی اس کے لیے آگ بھی ہے۔(مسند احمد: 4/341)نیز جب بھی دنیا میں کوئی عورت اپنے خاوند کو تکلیف پہنچاتی ہے تو اس کی جنتی بیویوں میں سے ایک حور کہتی ہے:اللہ تجھے برباد کردے!اسے تکلیف نہ دے۔یہ تو تیرے پاس مہمان ہے۔عنقریب یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے ہاں آجائے گا۔(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 2014)٭اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف انتہائی سنگین صورت اختیار کرجائے کہ مذکورہ تینوں مراحل کارگر ثابت نہ ہوں تو فریقین اپنے اپنے خاندان مین سے ثالث منتخب کریں جو پوری صورت حال سمجھ کر نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں اور بروقت مداخلت کرکے حالات پر کنٹرول کریں۔اگر ان کی نیت بھلائی کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں موافقت کی ضرور کوئی راہ پیدا کردے گا۔یہ ثالث میاں بیوی کی طرف سے ایک ایک،دو،دو اور تین تین بھی ہوسکتے ہیں۔جو بات بھی میاں بیوی کو تسلیم ہو اختیار کی جاسکتی ہے۔(النساء: 4/35)٭اگر مذکورہ جملہ اقدامات سے حسن معاشرت کی کوئی صورت پیدا ہوتی نظر نہ آئے تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانے میں ہروقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور دونوں میاں بیوی کے لیے وہ گھر جہنم بنا رہے۔اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں،خواہ مرد طلاق دےدے یا عورت خلع لےلے،پھر دونوں کا اللہ مالک ہے،وہ ان کے لیے کوئی نہ کوئی متبادل صورت پیدا کردے گا۔(النساء: 4/130)لیکن مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھنا ہوگا:٭ایسے حالات میں اگرچہ طلاق دینا جائز ہے،لیکن شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے۔طلاق دینے والے کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زندگی بھر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے صرف تین اختیارات دیے ہیں۔وقفے وقفے سے دومرتبہ طلاق دینے سے رجوع کا اختیار بھی اسے دیا گیا ہے اور تیسری طلاق ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے،اس کے بعد عام حالات میں رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔٭طلاق دیتے وقت اسے دیکھنا ہوگا کہ اس کی بیوی بحالت حیض نہ ہو۔شریعت نے اس حالت میں طلاق دینے سے منع کیا ہے تاکہ طلاق وقتی کراہت اور کسی عارضی ناگواری کی وجہ سے نہ ہو،نیز طلاق دیتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھے کہ اس طہر میں بیوی سے ہم بستری بھی نہ کی ہو،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: "بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دو جس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو۔"(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4908)٭ حالت حمل میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے۔ہمارے ہاں یہ بات غلط مشہور ہوچکی ہے کہ دوران حمل میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوتی،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے: "اسے حالت طہر یا حالت حمل میں طلاق دو،یہ طلاق جائز اور مباح ہے۔"(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3659 (1471))٭ شریعت نے طلاق دینے کا اختیار خاوند کو دیا ہے،عورت کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ خود طلاق دے تاکہ کم عقلی کی بنا پر فطرتی جلد بازی میں کسی معمولی سی بات پر یہ اقدام نہ کربیٹھے۔٭اگر خاوند نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا عزم کرلیا ہے تو قرآن وحدیث کی ہدایات کے مطابق وہ صرف ایک طلاق دے ،خواہ وہ تحریر کرکے دے یازبانی کہے۔اس کے بعد بیوی کو اس کے حال پر چھوڑے دے تاکہ سوچ بچار کے راستے بند نہ ہوں اور فریقین سنجیدگی اور متانت کے ساتھ اپنے آخری اقدام پر غوروفکر کرسکیں۔ایسے حالات میں بیک وقت تین طلاقیں دینے سے شریعت نے انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی تھیں تو آپ نے فرمایا: "میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔"آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ ایک آدمی آپ کا اظہار ناراضی دیکھ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اسے قتل کردوں،(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3430)تاہم ایسا اقدام کرنے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگی۔(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3435)٭ ایک طلاق دینے کے بعد رشتۂ ازدواج ختم نہیں ہوتا بلکہ دوران عدت میں اگر میاں بیوی سے کوئی فوت ہوجائے تو انھیں ایک دوسرے کی وراثت سے باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔بہرحال خاوند کو شریعت نے ہدایت کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: "انھیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الایہ کہ وہ کسی واضح برائی کی مرتکب ہوں۔(الطلاق: 65/1)٭طلاق کے بعد عورت نے عدت کے دن گزارنے ہیں جن کا شمار انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس پر کئی ایک نازک اور قانونی مسائل کا انحصار ہے۔مختلف حالات کے پیش نظر عدت کے ایام بھی مختلف ہیں،جس کی تفصیل یہ ہے:٭نکاح کے بعد اگر رخصتی عمل میں نہیں آئی تو ایسی عورت پر کوئی عدت نہیں ہے۔(الاحزاب: 33/49)٭مطلقہ بیوی اگر حمل سے ہوتو اس کی عدت بچہ جنم دینے تک ہے۔(الطلاق: 65/4)٭اگر حمل کے بغیر حیض منقطع ہے،یہ انقطاع بچپن،بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے ہوسکتا ہے تو ایسے حالات میں تین قمری مہینے عدت کے طور پر گزارنے ہوں گے۔اگر مہینوں کا شمار نہ ہوسکے تو 90دن پورے کیے جائیں۔اگر عورت کو ایام آتے ہوں تو تین حیض مکمل کرنا ہوں گے۔(البقرۃ: 2/228)ایسی صورت حال کے پیش نظر تین ماہ یا نوے دن پورے کرنے کی ضرورت نہیں۔٭دوران عدت میں خاوند کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے بسانے اور آباد کرنے کی نیت ہو اسے روک کر مزید تکلیف پہنچانا مقصود نہ ہو۔(البقرۃ: 2/231)اس رجوع کے لیے کسی قسم کے کفارے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر عدت گزرجائے تو بھی نئے سرے سے نکاح کرکے اپنا گھر آباد کیا جاسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/232) لیکن اس نکاح کے لیے عورت کی رضامندی،سرپرست کی اجازت،حق مہر کی تعیین اور گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے،نیز رجوع کا حق پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے۔٭اگر رجوع کا پروگرام نہ ہوتو عدت گزرنے کے بعد عورت خود بخود آزاد ہوجائے گی۔اس کے لیے کسی مزید اقدام کی ضرورت نہیں ہے لیکن ایسے حالات میں اسے الزام تراشی یا بدتمیزی سے رخصت نہ کیا جائے بلکہ اس سلسلے میں اس کے جو حقوق ہیں انھیں فیاضی سے ادا کیا جائے۔قرآن کریم نے ہدایت کی ہے کہ مطلقہ عورتوں کو بھی معروف طریقے سے کچھ دے کر رخصت کرو۔ایسا کرنا اہل تقویٰ کے لیے ضروری ہے۔(البقرۃ: 2/241)٭ اگر تیسری طلاق بھی دے دی جائے تو رشتۂ ازدواج ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاتا ہے،تاہم عورت کے لیے عدت گزارنا ضروری ہے لیکن عام حالات میں اس سے رجوع نہیں ہوسکے گا۔اب رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ عورت کسی سازش کے طور پر نہیں بلکہ آباد ہونے کی نیت سے آگے کسی اور آدمی سے نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے ہم بستری کے بعد اسے اپنی مرضی سے طلاق دے یا فوت ہوجائے تو عدت طلاق یا عدت وفات گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/230)٭اگر عورت خاوند کی طرف سے بے اتفاقی کا شکار ہے اور وہ طلاق دے کر اسے فارغ بھی نہیں کرتا تو ایسی حالت میں عورت کو اختیار ہے کہ وہ بذریعۂ عدالت اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے یا خود اس سے کوئی معاملہ طے کرکے طلاق حاصل کرلے،جیسا کہ خلع میں ہوتا ہے۔(البقرۃ: 2/229)امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف طلاق کے مسائل ہی بیان نہیں کیے بلکہ خلع،لعان اور اظہار کے متعلق بہت سی قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔اس سلسلے میں آپ نے ایک سواٹھارہ(118)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چھبیس(26) معلق اور باقی بانوے(92) متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں بانوے(92)مکرر اور باقی چھبیس(26) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ آپ نے مختلف مسائل کے استنباط کے لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ کے نوّے(90)آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ان احادیث وآثار پر آپ نے تریپن(53)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی فقہی بصیرت اور ناقدانہ نظر کا پتا چلتا ہے۔آخر میں آپ نے عدت اور اس کی اقسا م،پھر اس کے آداب،نیز مہر کے متعلق احکام ومسائل بھی بیان کیے ہیں۔اللہ کی توفیق سے ہم نے امام بخاری رحمہ اللہ کے اختیار کیے ہوئے موقف کو واضح کرنے کے لیے جابجا نوٹ لکھے ہیں۔اگر ان میں کوئی کام کی چیز ہے تو وہاں صرف اللہ کا فضل کار فرما ہے اور اگر کوئی غلط بات نوک قلم پر آگئی ہے تو وہ ہماری کم فہمی اور کوتاہی کا نتیجہ ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن محدثین کی جماعت میں سے اٹھائے اور خدام حدیث کی فہرست میں شامل کرے۔آمين يا رب العالمين
تمہید باب
لفظ خلع" خلع الثوب" سے ماخوذ ہے جس کے معنی کپڑے اتارنا ہیں۔ قرآن کریم کے واضح اور صاف بیان کے مطابق عورت مرد کے لیے اور مرد عورت کے لیے لباس ہے۔(البقرۃ: 2/187)چونکہ میاں بیوی خلع کے ذریعے سے ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں،اس لیے اس کا نام خلع رکھا گیا ہے۔حسبی لباس اتارنا خلع خاء کے زبر اور معنوی لباس اتارنا خُلع خاء کے پیش کے ساتھ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں خلع یہ ہے کہ عورت مہر میں وصول کی ہوئی رقم شوہر کو واپس دے کر اس سے علیحدگی اختیار کرے۔اس کی مشروعیت کتاب وسنت سے ثابت ہے۔قرآن کریم میں ہے: "اگر میاں بیوی کو اندیشہ ہوکہ وہ اللہ کی حدود قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان پر (خلع میں) کوئی گناہ نہیں ہے۔"(البقرۃ: 2/229)اگر عورت اپنے شوہر کو اس کی شکل وصورت یا سیرت واخلاق یا دین وشریعت یا عمر میں بڑا ہونے یا کمزور ہونے کی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور اسے خطرہ ہو کہ خاوند کی فرمانبرداری میں اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرسکے گی تو اس کے لیے جائز ہے کہ مال وغیرہ بطور فدیہ دے کر خُلع اور علیحدگی اختیار کرے۔لیکن بلاوجہ عورت کا شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنا حرام ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو عورت کسی معقول وجہ کے بغیر اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔"(سنن ابی داود، الطلاق، حدیث: 2226) اسے دوطرح سے عمل میں لایا جاسکتا ہے:٭خلع پر میاں بیوی دونوں راضی ہوں اور گھر میں ہی معاملہ طے کرکے ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔٭اگر ان کا آپس میں اتفاق نہ ہوسکے تو حاکم وقت ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرادے گا۔مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے لیکن اگر عورت پر ظلم ہورہا ہو اور وہ اسے طلاق بھی نہ دے اور حسن معاشرت کا مظاہرہ بھی نہ کرے تو عورت کو اپنے خاوند سے خلاصی حاصل کرنے کا پورا پورا حق ہے،اسی کو اسلام نے خلع سے تعبیر کیا ہے کہ وہ کچھ دے دلا کر حاکم وقت کے ذریعے سے اپنے خاوند سے خلاصی حاصل کرلے۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ ” اور تمہارے لیے ( شوہروں کے لیے ) جائز نہیں کہ جو ( مہر ) تم انہیں ( اپنی بیویوں کو ) دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ بھی واپس لو ، سوا اس صورت کے جبکہ زوجین اس کا خوف محسوس کریں کہ وہ ( ایک ساتھ رہ کر ) اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے ۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے خلع جائز رکھا ہے ۔ اس میں بادشاہ یا قاضی کے حکم کی ضرورت نہیں ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر جورو اپنے سارے مال کے بدلہ میں خلع کرے صرف جوڑا باندھنے کا دھاگہ رہنے دے تب بھی خلع کرانا درست ہے ۔ طاؤس نے کہا کہ الا ان یخافا ان لا یقیما حدود اللہ کا یہ مطلب ہے کہ جب جورو اور خاوند اپنے اپنے فرائض کو جو حسن معاشرت اور صحبت سے متعلق ہیں ادانہ کر سکیں ( اس وقت خلع کرانا درست ہے ) طاؤس نے ان بیوقوفوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ خلع اسی وقت درست ہے جب عورت کہے کہ میں جنابت یا حیض سے غسل ہی نہیں کروں گی ۔تشریح : اب تو صحبت کیسے کرے گا۔ اسے عبدالرزاق نے وصل کیا یہ ابن طاؤس کا قول ہے کہ ان بے وقوفوں کی طرح یہ نہیں کہا۔ انہوں نے اس کا رد کیا کہ خلع صرف اسی وقت درست ہے جب عورت بالکل مرد کا کہنا نہ سنے اور کسی طرح اصلاح کی امید نہ ہو جیسے سعید بن منصور نے شعبی سے نکالا ۔ ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا میں تو تیری کوئی بات نہیں سنوں گی نہ تیری قسم پوری کروں گی نہ میں جنابت کا غسل کروں گی۔ اس وقت شعبی نے کہا اگر عورت ایسی ناراض ہے تو اب خاوند کو جائز ہے کہ اس سے کچھ لے لے اوراسے چھوڑ دے۔نوٹ : جو معترضین کہتے ہیں کہ عورت کو شادی کے معاملہ میں اسلام نے مجبور کردیا ہے ان کا یہ قول سرا سر غلط ہے۔ اول تو عورت کی بغیر اجازت نکاح ہی نہیں ہوسکتا ۔ دوسرے اگر عورت پر ظلم ہو رہا ہے تو اس کو اپنے خاوند سے خلاصی حاصل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اسی کو اسلام میں لفظ خلع سے ذکر کیا گیا ہے۔ عورت اس حالت میں قاضی اسلام کے ذریعہ شرعی طریقہ پر خلع کے ذریعہ ایسے خاوند سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے پورے طور پر مختار ہے۔ لہٰذا معترضین کے ایسے جملہ اعتراضات غلط ہیں۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ثابت بن قیس بن شماس ؓ کی بیوی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: اللہ کے رسول! میں ثابت بن قیس ؓ عنہ کی دینداری اور اس کے اچھے خلق کا انکار نہیں کرتی لیکن میں اسلام میں رہتے ہوئے ناسپاسی اور ناشکری سے ڈرتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تو اس کا باغ اسے واپس کردے گی؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ چنانچہ اس نے ان کا باغ واپس کر دیا۔ اور انہوں نے آپ ﷺ کے حکم سے اسے جدا کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ اس لیے لائے ہیں کہ سابقہ احادیث میں جو اسے طلاق کا حکم دیا گیا تھا اس سے مراد لغوی طلاق ہے، یعنی اسے چھوڑ دے، اس سے اصطلاحی طلاق مراد نہیں ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ تو اسے جدا کر دے۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق خلع فسخ نکاح ہے، طلاق نہیں کیونکہ: ٭ خلع کی عدت ایک حیض ہے جبکہ طلاق کی عدت تین حیض ہے۔ ٭خلع میں مرد کو رجوع کا حق نہیں جبکہ طلاق دینے کے بعد مرد کو رجوع کا حق ہوتا ہے۔ ٭خلع میں مرد اپنا دیا ہوا حق مہر واپس لے سکتا ہے جبکہ طلاق میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ٭ خلع حالت حیض میں بھی جائز ہے جبکہ طلاق حالت حیض میں منع ہے۔ ٭ خلع کے بعد میاں بیوی نئے سرے سے نکاح کر کے اکٹھے ہو سکتے ہیں جبکہ طلاق کا نصاب پورا ہونے کے بعد عام حالات میں میاں بیوی اکٹھے نہیں ہو سکتے، البتہ دوسری جگہ شادی کرنا پھر مکمل طور پر ہم بستر ہونے کے بعد اگر طلاق مل جائے تو پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔ والله اعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان بیویوں کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ وآپس لے لو۔ ہاں اگر زن وشوہر کو خوف ہوکہ وہ اللہ تعالٰی کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گےحضرت عمر بن خطابؓ نے کہا کہ خلع جائز ہے اس میں حاکم وقت کے فیصلے کی ضرورت نہیںحضرت عثمان بن عفان ؓ نے ہر قسم کے مال سے خلع کی اجازت دی ہے، البتہ سر کے بالوں کو باندھنے والے چٹلے سے نہیں ہونا چاہیے حضرت طاؤس نے کہا: خلع اس وقت ہونا چاہیے جب دونوں اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ آپ نے بے وقوفوں کی بات نہیں کہی کہ خلع اس وقت ہی جائز ہے جب عورت کہے: میں تیرے جنابت سے غسل نہیں کروں گی
فائدہ: لفظ خلع ”خلع الثوب“ سے ماخوذ ہے جس ے معنیٰ ہیں: کپڑے اتارنا۔ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق عورت مرد کے لیے اور مرد عورت کے لیے لباس ہے، چونکہ میاں بیوی خلع کے زریعے سے ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں اس لیے اس کا نام خلع رکھا گیا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں خلع یہ ہے کہ عورت مہر میں وصول کی ہوئی رقم شوہر کو وآپس دے کر اس سے علیحدگی اختیار کرے۔ اس کی مشروعیت کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ”اگر میاں بیوی کو اندیشہ ہوکہ وہ اللہ کی حدود قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان پر (خلع میں) کوئی گناہ نہیں ہے۔“ اگر عورت اپنے شوہر کو اس کی شکل وصورت یا سیرت و اخلاق یا دین وشریعت یا عمر میں بڑا ہونے یا کمزور ہونے کی کسی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ خاوند کی فرما نبرداری میں اللہ کا حق ادا نہیں کرسکے گی تو اس کے لیے جائز ہے کہ مال وغیرہ بطور فدیہ دے کر خلع اور علیحدگی اختیار کرے لیکن بلاوجہ عورت کا شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنا حرام ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو عورت بھی کسی معقول وجہ کے بغیر اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔“ اسے دو طرح سے عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ خلع پر میاں بیوی دونوں راضی ہوں، اور گھر میں ہی معاملہ طے کرکے ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔ اگر ان کا باہمی اتفاق نہ ہوسکے تو حاکم وقت ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرادے گا۔ مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے لیکن اگر عورت پر ظلم ہورہا ہو اور وہ اسے طلاق بھی نہ دے اور حسن معاشرت کا مظاہرہ بھی نہ کرے تو عورت کو اپنے خاوند سے خلاصی حاصل کرنے کا پورا حق ہے، اسی کو اسلام نے خلع سے تعبیر کیا ہے کہ وہ کچھ دے دلا کر حاکم وقت کے زریعے سے اپنے خاوند سے خلاصی حاصل کرلے
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ بن مبارک مخرمی نے کہا، کہا ہم سے قراد ابو نوح نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ ثابت بن قیس بن شماس ؓ کی بیوی نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! ثابت ؓ کے دین اور ان کے اخلاق سے مجھے کوئی شکایت نہیں لیکن مجھے خطرہ ہے (کہ میں ثابت ؓ کی ناشکری میں نہ پھنس جاؤں) آنحضرت ﷺ نے اس پر ان سے دریافت فرمایا کیا تم ان کاباغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ چنانچہ انہوں نے وہ باغ واپس کر دیا اورآنحضرت ﷺ کے حکم سے ثابت ؓ نے انہیں اپنے سے جدا کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
ان سندوں کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ راویوں نے اس میں اختلاف کیا ہے ۔ ایوب پر ابن طہمان اور جریر نے اس کو موصولاً نقل کیا ہے اور حماد نے مرسلاً ایک روایت میں بیان کیا ہے کہ ثابت رضی اللہ عنہ کی اس عورت کا نام حبیبہ بنت سہل تھا۔ بزار نے روایت کیا کہ یہ پہلا خلع تھا اسلام میں۔ واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The wife of Thabit bin Qais bin Shammas came to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I do not blame Thabit for any defects in his character or his religion, but I am afraid that I (being a Muslim) may become unthankful for Allah's Blessings." On that, Allah's Apostle (ﷺ) said (to her), 'Will you return his garden to him?" She said, "Yes." So she returned his garden to him and the Prophet (ﷺ) told him to divorce her.