باب: کسی عورت کا شوہر اگر غائب ہو تو اس کی عورت کیونکرخرچ کرے اور اولاد کے خرچ کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Supporting the Family
(Chapter: The expenditure of a woman and her child, whose husband is away from her)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5359.
سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ہند بنت عتبہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: اللہ کے رسول! ابو سفیان انتہائی بخیل آدمی ہیں کیا مجھے گناہ ہوگا اگر میں (ان کے علم کے بغیر) ان کے مال میں سے اپنے بچوں کو کھلاؤں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ مگر ایسا دستور کے مطابق ہونا چاہیئے۔“
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ تم معروف طریقے کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو جائے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2211) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر شوہر گھر میں موجود نہ ہو اور گھر کے اخراجات کا بندوبست نہ کر کے گیا ہو تو اس کے مال سے اتنا خرچ لیا جا سکتا ہے جو گھر کے اخراجات کے لیے کافی ہو۔ (3) اس حدیث سے درج ذیل مسائل کا اثبات ہوتا ہے: ٭ بیوی کے خرچے کی مقدار مقرر نہیں ہے کیونکہ آپ نے فرمایا: ’’تم اتنا لے لو جو تمہیں کافی ہو۔‘‘ ٭ بیوی کا خرچ بچوں کے خرچ کی جنس سے ہے، یعنی دونوں معروف طریقے سے ادا کیے جائیں گے۔ ٭ اولاد کے اخراجات کا ذمہ دار صرف اس کا والد ہے۔ ٭ اگر عورت اپنے شوہر کے مال سے حسب کفایت خرچہ لے سکتی ہو تو اسے فسخ نکاح کا حق نہیں ہے۔ ٭ جن واجبات کی حد مقرر نہ ہو، ان میں عرف کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ ٭ اگر شوہر اور والد اپنے واجبات ادا نہ کریں تو کسی بھی طریقے سے ان سے وصول کیے جا سکتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5150
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5359
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5359
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5359
تمہید کتاب
عربی زبان میں نفقہ کی جمع نفقات ہے۔ اس سے مراد وہ اخراجات ہیں جو شوہر اپنی بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے برداشت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد حضرات کو "قوام" کہا ہے اور اس کی قوامیت اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی کمائی سے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مرد، عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں کیونکہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔" (النساء: 4/34) مہر کی ادائیگی کے بعد مرد کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے ضروریات زندگی فراہم کرے، یعنی وہ روٹی، کپڑے اور رہائش کا بندوبست کرے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "کشادگی والے کو اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے، اس میں سے حسب توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (الطلاق: 56/7) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر معروف طریقے کے مطابق ان عورتوں کو کھانا پلانا اور انہیں لباس مہیا کرنا ضروری ہے۔" (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خبردار! عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرو۔" (مسند احمد: 5/73) مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے اخراجات برداشت کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے مگر اس میں شوہر کی حیثیت کا خیال رکھا جائے گا لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ عورت کی حیثیت، مرضی اور خواہش کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "خوش حال انسان پر اس کی وسعت کے مطابق اور مفلس پر اس کی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہے۔" (البقرۃ: 2/236) اس آیت کے پیش نظر اگر شوہر مال دار ہو اور اس کی آمدنی اچھی خاصی ہو اور عورت بھی مال دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو شوہر کو اخراجات کے سلسلے میں اپنی حیثیت اور اس کے معیار زندگی کا خیال رکھنا ہو گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورت اپنے گھر تو اچھا کھاتی پیتی اور اچھا پہنتی ہو اور شوہر بھی مال دار ہو اور اس کے معیار زندگی کے مطابق اخراجات برداشت کر سکتا ہو مگر بخل کی وجہ سے سادہ کھانا دے اور عام سا پہنائے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عورت اس سے بذریعۂ عدالت اپنے معیار کا کھانا اور لباس طلب کر سکتی ہے۔ آرائش و زیبائش کی وہ چیزیں جو عورت کی صحت و صفائی کے لیے ضروری ہیں وہ اخراجات میں شامل ہیں اور ان کا فراہم کرنا بھی شوہر کے لیے ضروری ہے، مثلاً: تیل، کنگھی، صابن، نہانے دھونے کا سامان اور پانی وغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! عورتوں کے ہمارے ذمے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور جب تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ۔" (سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2142) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت مسلمہ کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پچیس (25) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور باقی بائیس (22) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں تین (3) کے علاوہ باقی تمام احادیث مکرر ہیں۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد آثار بھی پیش کیے ہیں اور ان احادیث و آثار پر سولہ (16) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند ایک کو ذکر کیا جاتا ہے: ٭ اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت۔ ٭ مرد کو بیوی بچوں کا خرچہ دینا ضروری ہے۔ ٭ عورت کو لباس دستور کے مطابق دینا چاہیے۔ ٭ مرد اپنے بیوی بچوں کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر سکتا ہے۔ ٭ جب خاوند گھر سے باہر جائے تو بیوی بچوں کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ بہرحال پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہیں بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، ہم نے چیدہ چیدہ حواشی لکھے ہیں جو فہم احادیث کے لیے ضروری تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پڑھنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تمہید باب
پہلی آیت سے معلوم ہوا کہ دودھ پلانے والی عورت کی اجرت بچے کے والد کے ذمے ہے، خواہ وہ اس کے نکاح میں ہو یا اس کی زوجیت سے الگ ہو چکی ہو۔ قرآن کریم میں ہے: ''اگر وہ تمہارے کہنے کے مطابق بچوں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو۔'' (الطلاق: 65/6) دوسری آیت میں دودھ پلانے کی مدت مذکور ہے کہ وہ دو سال تک ہے۔ اس سے کم تو ہو سکتی ہے لیکن زیادہ کسی صورت میں نہیں ہونی چاہیے۔ تیسری آیت میں خرچے کی مقدار کا بیان ہے کہ وہ باپ کی حیثیت کے مطابق ہو۔ اگر وہ مال دار ہے تو فراخ دلی سے کام لینا چاہیے اور اگر تنگ دست ہے تو اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ ماں پر دودھ پلانا ضروری نہیں ہے، البتہ درج ذیل صورتوں میں اسے اپنے بچے کو ضرور دودھ پلانا چاہیے: ٭ جب بچہ کسی دوسری عورت کا دودھ نہ پیے۔ ٭ کوئی دوسری دودھ پلانے والی موجود نہ ہو۔ ٭ دوسری دودھ پلانے والی موجود ہو لیکن مرد اس کا خرچہ برداشت نہ کر سکے۔ واللہ اعلم
سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ہند بنت عتبہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: اللہ کے رسول! ابو سفیان انتہائی بخیل آدمی ہیں کیا مجھے گناہ ہوگا اگر میں (ان کے علم کے بغیر) ان کے مال میں سے اپنے بچوں کو کھلاؤں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ مگر ایسا دستور کے مطابق ہونا چاہیئے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ تم معروف طریقے کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو جائے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2211) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر شوہر گھر میں موجود نہ ہو اور گھر کے اخراجات کا بندوبست نہ کر کے گیا ہو تو اس کے مال سے اتنا خرچ لیا جا سکتا ہے جو گھر کے اخراجات کے لیے کافی ہو۔ (3) اس حدیث سے درج ذیل مسائل کا اثبات ہوتا ہے: ٭ بیوی کے خرچے کی مقدار مقرر نہیں ہے کیونکہ آپ نے فرمایا: ’’تم اتنا لے لو جو تمہیں کافی ہو۔‘‘ ٭ بیوی کا خرچ بچوں کے خرچ کی جنس سے ہے، یعنی دونوں معروف طریقے سے ادا کیے جائیں گے۔ ٭ اولاد کے اخراجات کا ذمہ دار صرف اس کا والد ہے۔ ٭ اگر عورت اپنے شوہر کے مال سے حسب کفایت خرچہ لے سکتی ہو تو اسے فسخ نکاح کا حق نہیں ہے۔ ٭ جن واجبات کی حد مقرر نہ ہو، ان میں عرف کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ ٭ اگر شوہر اور والد اپنے واجبات ادا نہ کریں تو کسی بھی طریقے سے ان سے وصول کیے جا سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس بن یزید نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ہند بنت عتبہ ؓ حاضر ہوئیں اور عرض کیا، یا رسول اللہ! ابو سفیان (ان کے شوہر) بہت بخیل ہیں، تو کیا میرے لیے اس میں کوئی گناہ ہے اگر میں ان کے مال میں سے (اس کے پیٹھ پیچھے) اپنے بچوں کو کھلاؤں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، لیکن دستور کے مطابق ہونا چاہیے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی حد سے زیادہ نہ ہو تاکہ خیانت کا جرم عائد نہ ہو سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Hind bint 'Utba came and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Abu Sufyan (RA) is a miser so is it sinful of me to feed our children from his property?" Allah's Apostle (ﷺ) said, "No except if you take for your needs what is just and reasonable. "