Sahi-Bukhari:
Supporting the Family
(Chapter: The working of a lady in her husband's house)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5361.
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور شکایت کی چکی پیسنے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں انہں اطلاع ملی تھی کہ آپ ﷺ کے پاس قیدی عورتیں آئی ہوئی ہیں۔ لیکن انہیں آپ سے ملاقات کرنے کا اتفاق نہ ہوا اس لیے سیدہ عائشہ ؓ سے ذکر کیا۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ ؓ نے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم اپنے ہستروں میں لیٹ چکے تھے۔ ہم نے اٹھنے کا ارادہ کیا آپ نے فرمایا: ”تم اپنی جگہ پر رہو۔“ چنانچہ آپ میرے اور سیدہ فاطمہ ؓ کے درمیان بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس کی، پھر آپ نے فرمایا: ”میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو تمہاری طلب کردہ چیز سے بہتر ہو۔ جب تم اپنے بستر ہو جاؤ تو 33 مرتبہ سبحان اللہ 33، الحمد اللہ اور 34 مرتبہ اللہ أکبر پڑھ لیا کرو۔ یہ تمہارے لیے غلام لونڈی سے بہتر ہوگا۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو گھر کے کام کاج روٹی پکانا، صفائی کرنا اور چکی پیسنا وغیرہ کی طاقت ہو اور متعارف ہو کہ وہ یہ کام بآسانی کر سکتی ہے تو شوہر کو اس کے لیے خادمہ کا بندوبست کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تکلیف سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہیں کہا کہ وہ ان کے لیے خادمہ کا بندوبست کریں یا کم از کم یومیہ اجرت پر کسی نوکرانی کو رکھ لیں جو یہ سارے کام کیا کرے۔ (2) تسبیح و تحمید میں بہت ثواب ہے۔ ممکن ہے کہ وظیفہ کرنے سے اللہ تعالیٰ ایسی طاقت پیدا کر دے کہ خادمہ کی ضرورت ہی نہ رہے اور خادمہ کی نسبت گھر کے کام سر انجام دینے زیادہ آسان ہو جائیں۔ (3) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کی یہ حالت ہے تو دوسری عورتوں کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو خاندانی اور معزز خیال کر کے گھریلو کام کو اپنے لیے عار محسوس کریں اور انہیں بجا لانے میں ذلت محسوس کریں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5152
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5361
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5361
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5361
تمہید کتاب
عربی زبان میں نفقہ کی جمع نفقات ہے۔ اس سے مراد وہ اخراجات ہیں جو شوہر اپنی بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے برداشت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد حضرات کو "قوام" کہا ہے اور اس کی قوامیت اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی کمائی سے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مرد، عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں کیونکہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔" (النساء: 4/34) مہر کی ادائیگی کے بعد مرد کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے ضروریات زندگی فراہم کرے، یعنی وہ روٹی، کپڑے اور رہائش کا بندوبست کرے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "کشادگی والے کو اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے، اس میں سے حسب توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (الطلاق: 56/7) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر معروف طریقے کے مطابق ان عورتوں کو کھانا پلانا اور انہیں لباس مہیا کرنا ضروری ہے۔" (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خبردار! عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرو۔" (مسند احمد: 5/73) مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے اخراجات برداشت کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے مگر اس میں شوہر کی حیثیت کا خیال رکھا جائے گا لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ عورت کی حیثیت، مرضی اور خواہش کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "خوش حال انسان پر اس کی وسعت کے مطابق اور مفلس پر اس کی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہے۔" (البقرۃ: 2/236) اس آیت کے پیش نظر اگر شوہر مال دار ہو اور اس کی آمدنی اچھی خاصی ہو اور عورت بھی مال دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو شوہر کو اخراجات کے سلسلے میں اپنی حیثیت اور اس کے معیار زندگی کا خیال رکھنا ہو گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورت اپنے گھر تو اچھا کھاتی پیتی اور اچھا پہنتی ہو اور شوہر بھی مال دار ہو اور اس کے معیار زندگی کے مطابق اخراجات برداشت کر سکتا ہو مگر بخل کی وجہ سے سادہ کھانا دے اور عام سا پہنائے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عورت اس سے بذریعۂ عدالت اپنے معیار کا کھانا اور لباس طلب کر سکتی ہے۔ آرائش و زیبائش کی وہ چیزیں جو عورت کی صحت و صفائی کے لیے ضروری ہیں وہ اخراجات میں شامل ہیں اور ان کا فراہم کرنا بھی شوہر کے لیے ضروری ہے، مثلاً: تیل، کنگھی، صابن، نہانے دھونے کا سامان اور پانی وغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! عورتوں کے ہمارے ذمے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور جب تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ۔" (سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2142) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت مسلمہ کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پچیس (25) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور باقی بائیس (22) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں تین (3) کے علاوہ باقی تمام احادیث مکرر ہیں۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد آثار بھی پیش کیے ہیں اور ان احادیث و آثار پر سولہ (16) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند ایک کو ذکر کیا جاتا ہے: ٭ اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت۔ ٭ مرد کو بیوی بچوں کا خرچہ دینا ضروری ہے۔ ٭ عورت کو لباس دستور کے مطابق دینا چاہیے۔ ٭ مرد اپنے بیوی بچوں کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر سکتا ہے۔ ٭ جب خاوند گھر سے باہر جائے تو بیوی بچوں کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ بہرحال پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہیں بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، ہم نے چیدہ چیدہ حواشی لکھے ہیں جو فہم احادیث کے لیے ضروری تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پڑھنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تمہید باب
اگر خاوند محتاج یا غریب ہو تو عورت پر گھر کا کام کاج لازم ہے اور وہ کام عورت کرے گی جو معمول کے مطابق ہوں، مثلاً: گھر کی صفائی، آٹا گوندھنا، روٹی پکانا، صفائی کرنا، کپڑے دھونا اور بچوں کو نہلانا وغیرہ اگرچہ وہ عورت امیر اور معزز گھرانے ہی سے تعلق کیوں نہ رکھتی ہو۔
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور شکایت کی چکی پیسنے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں انہں اطلاع ملی تھی کہ آپ ﷺ کے پاس قیدی عورتیں آئی ہوئی ہیں۔ لیکن انہیں آپ سے ملاقات کرنے کا اتفاق نہ ہوا اس لیے سیدہ عائشہ ؓ سے ذکر کیا۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ ؓ نے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم اپنے ہستروں میں لیٹ چکے تھے۔ ہم نے اٹھنے کا ارادہ کیا آپ نے فرمایا: ”تم اپنی جگہ پر رہو۔“ چنانچہ آپ میرے اور سیدہ فاطمہ ؓ کے درمیان بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس کی، پھر آپ نے فرمایا: ”میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو تمہاری طلب کردہ چیز سے بہتر ہو۔ جب تم اپنے بستر ہو جاؤ تو 33 مرتبہ سبحان اللہ 33، الحمد اللہ اور 34 مرتبہ اللہ أکبر پڑھ لیا کرو۔ یہ تمہارے لیے غلام لونڈی سے بہتر ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو گھر کے کام کاج روٹی پکانا، صفائی کرنا اور چکی پیسنا وغیرہ کی طاقت ہو اور متعارف ہو کہ وہ یہ کام بآسانی کر سکتی ہے تو شوہر کو اس کے لیے خادمہ کا بندوبست کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تکلیف سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہیں کہا کہ وہ ان کے لیے خادمہ کا بندوبست کریں یا کم از کم یومیہ اجرت پر کسی نوکرانی کو رکھ لیں جو یہ سارے کام کیا کرے۔ (2) تسبیح و تحمید میں بہت ثواب ہے۔ ممکن ہے کہ وظیفہ کرنے سے اللہ تعالیٰ ایسی طاقت پیدا کر دے کہ خادمہ کی ضرورت ہی نہ رہے اور خادمہ کی نسبت گھر کے کام سر انجام دینے زیادہ آسان ہو جائیں۔ (3) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کی یہ حالت ہے تو دوسری عورتوں کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو خاندانی اور معزز خیال کر کے گھریلو کام کو اپنے لیے عار محسوس کریں اور انہیں بجا لانے میں ذلت محسوس کریں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، کہا کہ مجھ سے حکم نے بیان کیا، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے، ان سے علی ؓ نے بیان کیا کہ فاطمہ ؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں یہ شکایت کرنے کے لیے حاضر ہوئیں کہ چکی پیسنے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں کتنی تکلیف ہے۔ انہیں معلوم ہوا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ غلام آئے ہیں لیکن آنحضرت ﷺ سے ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔ اس لیے عائشہ ؓ سے اس کا ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو عائشہ ؓ نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا۔ علی ؓ نے بیان کیا کہ پھر حضور اکرم ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے (رات کے وقت) ہم اس وقت اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے ہم نے اٹھنا چاہا آپ نے فرمایا کہ تم دونوں جس طرح تھے اسی طرح رہو۔ پھر آنحضور ﷺ میرے اور فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے۔ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس کی، پھر آپ نے فرمایا، تم دونوں نے جو چیز مجھ سے مانگی ہے، کیا میں تمہیں اس سے بہتر ایک بات نہ بتا دوں؟ جب تم (رات کے وقت) اپنے بستر پر لیٹ جاؤ تو 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ أکبر پڑھ لیا کرو یہ تمہارے لیے لونڈی غلام سے بہتر ہے۔
حدیث حاشیہ:
اللہ تم کو کام کاج کی طاقت دے گا اور خادم کی حاجت نہ رہے گی ۔ جب لخت جگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہے تو دوسری عورتوں کی کیا حقیقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی خاندانی سمجھ کر گھریلو کام کاج کو اپنے لیے عار سمجھیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ali (RA) : Fatima went to the Prophet (ﷺ) complaining about the bad effect of the stone hand-mill on her hand. She heard that the Prophet (ﷺ) had received a few slave girls. But (when she came there) she did not find him, so she mentioned her problem to 'Aisha (RA). When the Prophet (ﷺ) came, 'Aisha (RA) informed him about that. 'Ali added, "So the Prophet (ﷺ) came to us when we had gone to bed. We wanted to get up (on his arrival) but he said, 'Stay where you are." Then he came and sat between me and her and I felt the coldness of his feet on my abdomen. He said, "Shall I direct you to something better than what you have requested? When you go to bed say 'Subhan Allah' thirty-three times, 'Alhamdulillah' thirty three times, and Allahu Akbar' thirty four times, for that is better for you than a servant."