Sahi-Bukhari:
Supporting the Family
(Chapter: A man's serving his family)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5363.
سیدنا اسود بن یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی ﷺ گھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ گھر کے کام کیا کرتے تھے پھر جب آپ اذان سنتے تو فوراً باہر چلے جاتے۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام انسانوں جیسے ایک انسان تھے، اپنے کپڑوں کو سی لیتے، بکری کا دودھ نکالتے اور اپنے کام کرتے تھے۔ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان: 490/12، رقم: 5676، و فتح الباري: 212/2) ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ اپنے جوتے کو خود ٹانکا لگا لیتے اور پھٹا ہوا ڈول درست کر لیتے۔ (الشمائل للترمذي: 335، و صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان: 489/12، رقم: 5675) (2) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گھریلو زندگی میں انسان کو اپنے اہل خانہ کی مدد کرنی چاہیے۔ یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ جو لوگ گھر میں بچھے بچھائے بستر پر بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں کہ ہمارے حضور تیار شدہ کھانا پیش کیا جائے اور ہر کام میں دوسروں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں وہ زیرک اور دانا نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کی صحت بھی خراب رہتی ہے اور دوران سفر میں انہیں سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپاہج اور سست بننے کی بجائے اپنے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ تعاون کرے اور ان کا ہاتھ بٹائے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5154
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5363
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5363
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5363
تمہید کتاب
عربی زبان میں نفقہ کی جمع نفقات ہے۔ اس سے مراد وہ اخراجات ہیں جو شوہر اپنی بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے برداشت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد حضرات کو "قوام" کہا ہے اور اس کی قوامیت اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی کمائی سے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مرد، عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں کیونکہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔" (النساء: 4/34) مہر کی ادائیگی کے بعد مرد کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے ضروریات زندگی فراہم کرے، یعنی وہ روٹی، کپڑے اور رہائش کا بندوبست کرے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "کشادگی والے کو اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے، اس میں سے حسب توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (الطلاق: 56/7) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر معروف طریقے کے مطابق ان عورتوں کو کھانا پلانا اور انہیں لباس مہیا کرنا ضروری ہے۔" (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خبردار! عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرو۔" (مسند احمد: 5/73) مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے اخراجات برداشت کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے مگر اس میں شوہر کی حیثیت کا خیال رکھا جائے گا لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ عورت کی حیثیت، مرضی اور خواہش کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "خوش حال انسان پر اس کی وسعت کے مطابق اور مفلس پر اس کی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہے۔" (البقرۃ: 2/236) اس آیت کے پیش نظر اگر شوہر مال دار ہو اور اس کی آمدنی اچھی خاصی ہو اور عورت بھی مال دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو شوہر کو اخراجات کے سلسلے میں اپنی حیثیت اور اس کے معیار زندگی کا خیال رکھنا ہو گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورت اپنے گھر تو اچھا کھاتی پیتی اور اچھا پہنتی ہو اور شوہر بھی مال دار ہو اور اس کے معیار زندگی کے مطابق اخراجات برداشت کر سکتا ہو مگر بخل کی وجہ سے سادہ کھانا دے اور عام سا پہنائے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عورت اس سے بذریعۂ عدالت اپنے معیار کا کھانا اور لباس طلب کر سکتی ہے۔ آرائش و زیبائش کی وہ چیزیں جو عورت کی صحت و صفائی کے لیے ضروری ہیں وہ اخراجات میں شامل ہیں اور ان کا فراہم کرنا بھی شوہر کے لیے ضروری ہے، مثلاً: تیل، کنگھی، صابن، نہانے دھونے کا سامان اور پانی وغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! عورتوں کے ہمارے ذمے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور جب تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ۔" (سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2142) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت مسلمہ کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پچیس (25) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور باقی بائیس (22) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں تین (3) کے علاوہ باقی تمام احادیث مکرر ہیں۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد آثار بھی پیش کیے ہیں اور ان احادیث و آثار پر سولہ (16) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند ایک کو ذکر کیا جاتا ہے: ٭ اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت۔ ٭ مرد کو بیوی بچوں کا خرچہ دینا ضروری ہے۔ ٭ عورت کو لباس دستور کے مطابق دینا چاہیے۔ ٭ مرد اپنے بیوی بچوں کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر سکتا ہے۔ ٭ جب خاوند گھر سے باہر جائے تو بیوی بچوں کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ بہرحال پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہیں بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، ہم نے چیدہ چیدہ حواشی لکھے ہیں جو فہم احادیث کے لیے ضروری تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پڑھنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سیدنا اسود بن یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی ﷺ گھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ گھر کے کام کیا کرتے تھے پھر جب آپ اذان سنتے تو فوراً باہر چلے جاتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام انسانوں جیسے ایک انسان تھے، اپنے کپڑوں کو سی لیتے، بکری کا دودھ نکالتے اور اپنے کام کرتے تھے۔ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان: 490/12، رقم: 5676، و فتح الباري: 212/2) ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ اپنے جوتے کو خود ٹانکا لگا لیتے اور پھٹا ہوا ڈول درست کر لیتے۔ (الشمائل للترمذي: 335، و صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان: 489/12، رقم: 5675) (2) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گھریلو زندگی میں انسان کو اپنے اہل خانہ کی مدد کرنی چاہیے۔ یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ جو لوگ گھر میں بچھے بچھائے بستر پر بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں کہ ہمارے حضور تیار شدہ کھانا پیش کیا جائے اور ہر کام میں دوسروں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں وہ زیرک اور دانا نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کی صحت بھی خراب رہتی ہے اور دوران سفر میں انہیں سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپاہج اور سست بننے کی بجائے اپنے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ تعاون کرے اور ان کا ہاتھ بٹائے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود بن یزید نے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ گھر میں نبی کریم ﷺ کیا کیا کرتے تھے؟ ام المؤمنین ؓ نے بیان کیا کہ حضور اکرم ﷺ گھر کے کام کیا کرتے تھے، پھر آپ جب اذان کی آواز سنتے تو باہر چلے جاتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
گھر کے کام کاج کرنا اوراپنے گھر والوں کی مدد کرنا ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور جو لوگ گھر میں اپاہج بنے رہتے ہیں اور ہر کام کے لیے دوسروں کا سہارا ڈھونڈھتے ہیں وہ محض بے عقل ہیں، ان کی صحت بھی ہمیشہ خراب رہ سکتی ہے اور سفر وغیرہ میں ان کو اور بھی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ إلا ما شاءاللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Aswad bin Yazid (RA) : I asked 'Aisha (RA) "What did the Prophet (ﷺ) use to do at home?" She said, "He used to work for his family, and when he heard the Adhan (call for the prayer), he would go out."