باب: اگر مرد خرچ نہ کرے تو عورت اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اتنے لے سکتی ہے جو دستور کے مطابق اس کے لیے اور اس کے بچوں کے لیے کافی ہو
)
Sahi-Bukhari:
Supporting the Family
(Chapter: If a man does not provide for his family)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5364.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ ہند بنت عتبہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! بلاشبہ ابو سفیان ؓ بخیل آدمی ہیں اور مجھے اتنا مال نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کو کافی ہو الا یہ کہ میں کچھ مال ان کی بے علمی میں لے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”د ستور کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو۔“
تشریح:
(1) حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ وہ جب معاہدے کی اس شق پر پہنچیں کہ تم چوری نہیں کرو گی تو انہوں نے کہا: میں تو ابو سفیان کے مال سے چوری کرتی رہی ہوں۔ اس وقت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بول اٹھے: پہلے جو چوری ہو چکی وہ تمہیں معاف ہے۔ اب دوسری مرتبہ حاضر خدمت ہوئیں تو حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ نہیں تھے۔ اس وقت انہوں نے کہا: میرے شوہر انتہائی بخیل ہیں۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بخیل شوہر کی بیوی کو جائز طور پر اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اتنا لے لینا حلال ہے جس سے اس کی اور اس کی اولاد کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ (فتح الباري: 632/9)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5155
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5364
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5364
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5364
تمہید کتاب
عربی زبان میں نفقہ کی جمع نفقات ہے۔ اس سے مراد وہ اخراجات ہیں جو شوہر اپنی بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے برداشت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد حضرات کو "قوام" کہا ہے اور اس کی قوامیت اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی کمائی سے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مرد، عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں کیونکہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔" (النساء: 4/34) مہر کی ادائیگی کے بعد مرد کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے ضروریات زندگی فراہم کرے، یعنی وہ روٹی، کپڑے اور رہائش کا بندوبست کرے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "کشادگی والے کو اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے، اس میں سے حسب توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (الطلاق: 56/7) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر معروف طریقے کے مطابق ان عورتوں کو کھانا پلانا اور انہیں لباس مہیا کرنا ضروری ہے۔" (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خبردار! عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرو۔" (مسند احمد: 5/73) مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے اخراجات برداشت کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے مگر اس میں شوہر کی حیثیت کا خیال رکھا جائے گا لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ عورت کی حیثیت، مرضی اور خواہش کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "خوش حال انسان پر اس کی وسعت کے مطابق اور مفلس پر اس کی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہے۔" (البقرۃ: 2/236) اس آیت کے پیش نظر اگر شوہر مال دار ہو اور اس کی آمدنی اچھی خاصی ہو اور عورت بھی مال دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو شوہر کو اخراجات کے سلسلے میں اپنی حیثیت اور اس کے معیار زندگی کا خیال رکھنا ہو گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورت اپنے گھر تو اچھا کھاتی پیتی اور اچھا پہنتی ہو اور شوہر بھی مال دار ہو اور اس کے معیار زندگی کے مطابق اخراجات برداشت کر سکتا ہو مگر بخل کی وجہ سے سادہ کھانا دے اور عام سا پہنائے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عورت اس سے بذریعۂ عدالت اپنے معیار کا کھانا اور لباس طلب کر سکتی ہے۔ آرائش و زیبائش کی وہ چیزیں جو عورت کی صحت و صفائی کے لیے ضروری ہیں وہ اخراجات میں شامل ہیں اور ان کا فراہم کرنا بھی شوہر کے لیے ضروری ہے، مثلاً: تیل، کنگھی، صابن، نہانے دھونے کا سامان اور پانی وغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! عورتوں کے ہمارے ذمے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور جب تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ۔" (سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2142) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت مسلمہ کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پچیس (25) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور باقی بائیس (22) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں تین (3) کے علاوہ باقی تمام احادیث مکرر ہیں۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد آثار بھی پیش کیے ہیں اور ان احادیث و آثار پر سولہ (16) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند ایک کو ذکر کیا جاتا ہے: ٭ اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت۔ ٭ مرد کو بیوی بچوں کا خرچہ دینا ضروری ہے۔ ٭ عورت کو لباس دستور کے مطابق دینا چاہیے۔ ٭ مرد اپنے بیوی بچوں کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر سکتا ہے۔ ٭ جب خاوند گھر سے باہر جائے تو بیوی بچوں کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ بہرحال پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہیں بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، ہم نے چیدہ چیدہ حواشی لکھے ہیں جو فہم احادیث کے لیے ضروری تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پڑھنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تمہید باب
لیکن یہ خرچہ ضروریات کے لیے ہونا چاہیے فضولیات کے لیے نہیں۔ اگر فیشن اور فضول کاموں کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر کچھ رقم لی اور اسے خرچ کیا تو اسے امانت میں خیانت خیال کیا جائے گا۔
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ ہند بنت عتبہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! بلاشبہ ابو سفیان ؓ بخیل آدمی ہیں اور مجھے اتنا مال نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کو کافی ہو الا یہ کہ میں کچھ مال ان کی بے علمی میں لے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”د ستور کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ وہ جب معاہدے کی اس شق پر پہنچیں کہ تم چوری نہیں کرو گی تو انہوں نے کہا: میں تو ابو سفیان کے مال سے چوری کرتی رہی ہوں۔ اس وقت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بول اٹھے: پہلے جو چوری ہو چکی وہ تمہیں معاف ہے۔ اب دوسری مرتبہ حاضر خدمت ہوئیں تو حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ نہیں تھے۔ اس وقت انہوں نے کہا: میرے شوہر انتہائی بخیل ہیں۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بخیل شوہر کی بیوی کو جائز طور پر اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اتنا لے لینا حلال ہے جس سے اس کی اور اس کی اولاد کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ (فتح الباري: 632/9)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، کہا کہ مجھے میرے والد (عروہ نے) خبر دی اور انہیں عائشہ ؓ نے کہ ہند بنت عتبہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ابو سفیان (ان کے شوہر) بخیل ہیں اور مجھے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو سکے۔ ہاں اگر میں ان کی لا علمی میں ان کے مال میں سے لے لوں (تو کام چلتا ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم دستور کے موافق اتنا لے سکتی ہو جو تمہارے اور تمہارے بچوں کے لیے کافی ہو سکے۔
حدیث حاشیہ:
بخیل مرد کی عورت کوجائز طور پر اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اپنا اور بچوں کا گزران لے لینا جائز ہے۔ یہی ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا ہیں جن کے متعلق مزید تفصیل یہ ہے۔ وَكَانَتْ هِنْدٌ لَمَّا قُتِلَ أَبُوهَا عُتْبَةُ وَعَمُّهَا شَيْبَةُ وَأَخُوهَا الْوَلِيدُ يَوْمَ بَدْرٍ شَقَّ عَلَيْهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَقُتِلَ حَمْزَةُ فَرِحَتْ بِذَلِكَ وَعَمَدَتْ إِلَى بَطْنِهِ فَشَقَّتْهَا وَأَخَذَتْ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا ثُمَّ لَفَظَتْهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْفَتْحِ وَدَخَلَ أَبُو سُفْيَانَ مَكَّةَ مُسْلِمًا بَعْدَ أَنْ أَسَرَتْهُ خَيْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَأَجَارَهُ الْعَبَّاسُ غَضِبَتْ هِنْدٌ لِأَجْلِ إِسْلَامِهِ وَأَخَذَتْ بِلِحْيَتِهِ ثُمَّ إِنَّهَا بَعْدَ اسْتِقْرَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ جَاءَتْ فَأَسْلَمَتْ وَبَايَعَتْ وَقَدْ تَقَدَّمَ فِي أَوَاخِرِ الْمَنَاقِبِ أَنَّهَا قَالَتْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ وَمَا عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ الْيَوْمَ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ فَقَالَ أَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ(فتح)(پارہ: 22ص: 238) یہ اس لیے ہوا کہ جنگ بدر میں جب ہند کا باپ عتبہ اور اس کا چچا شیبہ اور اس کا بھائی ولید مقتول ہوئے تو یہ اس پر بہت بھاری گزرا اور اس غصہ کی بنا پر اس نے وحشی کو لالچ دے کر اس سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کروایا۔ اس سے وہ بہت خوش ہوئی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پیٹ کو اس نے چاک کیا اور آپ کے کلیجہ کو نکال کر چبا کر پھینک دیا۔ جب فتح مکہ کا دن ہوا اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ مکہ میں مسلمان ہو کر داخل ہوا کیونکہ اسے اسلامی لشکر نے قید کر لیا تھا۔ پس اسے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پناہ دی تو اس کے اسلام پر ہندہ بہت غصہ ہوئی اور اس کی داڑھی کو پکڑ لیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مستقل طور پر قابض ہو گئے تو ہندہ حاضر دربار رسالت ہو کر مسلمان ہو گئی اور کہا کہ یا رسول اللہ! دنیا میں کوئی گھرانہ میری نظروں میں آپ کے گھرانے سے زیادہ ذلیل نہ تھا مگر آج اسلام کی بدولت دنیا میں کوئی گھرانہ میرے نزدیک آپ کے گھرانے سے زیادہ معزز نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرے نزدیک بھی یہی معاملہ ہے۔ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ایسی دشمن عورت کے لیے بھی آپ کے دل میں کتنی گنجائش ہو جاتی ہے جبکہ وہ اسلام قبول کر لیتی ہے۔ آپ اس کی ساری مخالفانہ حرکتوں کو فراموش فرما کر اسے اپنے دربارعالیہ میں شرف باریابی عطا فرما کر سرفراز فرما دیتے ہیں۔ صلی اللہ علیه و سلم ألف ألف مرة و عدد کل ذرة و علیٰ آله و أصحابه أجمعین آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Hind bint 'Utba said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Abu Sufyan (RA) is a miser and he does not give me what is sufficient for me and my children. Can I take of his property without his knowledge?" The Prophet (ﷺ) said, "Take what is sufficient for you and your children, and the amount should be just and reasonable.