باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ بقرہ میں یہ فرمانا کہ بچے کے وارث (مثلاً بھائی چچا وغیرہ) پر بھی یہی لازم ہے
)
Sahi-Bukhari:
Supporting the Family
(Chapter: "And on the heir is incumbent the like of that...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ ” نحل “ میں فرمایا اللہ دوسروں کی مثال بیان کرتا ہے ایک تو گونگا جو کچھ بھی قدرت نہیں رکھتا آخر آیت صراط مستقیم تک ۔تشریح : یعنی دودھ پلانے والی کا نان نفقہ خرچ وغیرہ دینا یعنی جب بچہ کے پاس کچھ مال نہ ہو تو امام احمد کے نزدیک اس کے وارث خرچہ دیں گے اور حنفیہ کے نزدیک بچہ کے ہر محرم رشتہ دار اور جمہور کے نزدیک وارثوں کو یہ خرچہ دینا ضروری نہیں۔ وعلی الوارث مثل ذٰلک ( البقرۃ: 233 ) کے معنی انہوں نے یہ کئے ہیں کہ وارث بھی ہم کو نقصان نہ پہنچائے۔ زید بن ثابت نے کہا ہے کہ اگربچہ کی ماں اور چچا دونوں ہوں تو ہر ایک بقدر اپنے حصہ وراثت کے اس کا خرچہ اٹھائے گا۔ یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے زید کا قول رد کیا کہ عورت کی مثال گونگے کی سی ہے اور گونگے کی نسبت فرمایا لا یقدر علی شئی ( النحل : 75 ) تو عورت پر کوئی خرچہ واجب نہیں ہو سکتا ۔
5369.
سیدنا ام سلمہ ؓ سے روای ہے انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آیا ابو سلمہ ؓ کے بیٹوں پر خرچ کرنے سے مجھے کوئی ثواب ملے گا؟ میں انہیں بے یارو مددگار نہیں چھوڑ سکتی، آخر وہ میرے بیٹے ہی تو ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! تمہیں ہر اس چیز کا اجر ملے گا جو تم ان پر خرچ کروگی۔“
تشریح:
(1) بچے کی والدہ تو خود اس کے باپ پر بوجھ ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کی ذمہ داری میں ہوتی ہے، جب اس پر اپنا خرچہ واجب نہیں تو بچے کا خرچہ کیسے واجب ہو گا؟ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بیٹوں پر خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ آپ نے صرف یہ فرمایا کہ جو کچھ تو ان پر خرچ کرے گی تجھے اس کا اجروثواب ضرور ملے گا۔ (2) جب ماں پر بچے کا خرچہ واجب نہیں تو باپ پر ہو گا۔ جب تک وہ زندہ ہے خود اسے برداشت کرے گا، جب فوت ہو جائے گا تو اس کے ورثاء کے ذمے ہے کہ وہ بچے کے اخراجات برداشت کریں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5160
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5369
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5369
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5369
تمہید کتاب
عربی زبان میں نفقہ کی جمع نفقات ہے۔ اس سے مراد وہ اخراجات ہیں جو شوہر اپنی بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے برداشت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد حضرات کو "قوام" کہا ہے اور اس کی قوامیت اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی کمائی سے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مرد، عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں کیونکہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔" (النساء: 4/34) مہر کی ادائیگی کے بعد مرد کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے ضروریات زندگی فراہم کرے، یعنی وہ روٹی، کپڑے اور رہائش کا بندوبست کرے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "کشادگی والے کو اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے، اس میں سے حسب توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (الطلاق: 56/7) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر معروف طریقے کے مطابق ان عورتوں کو کھانا پلانا اور انہیں لباس مہیا کرنا ضروری ہے۔" (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خبردار! عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرو۔" (مسند احمد: 5/73) مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے اخراجات برداشت کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے مگر اس میں شوہر کی حیثیت کا خیال رکھا جائے گا لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ عورت کی حیثیت، مرضی اور خواہش کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "خوش حال انسان پر اس کی وسعت کے مطابق اور مفلس پر اس کی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہے۔" (البقرۃ: 2/236) اس آیت کے پیش نظر اگر شوہر مال دار ہو اور اس کی آمدنی اچھی خاصی ہو اور عورت بھی مال دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو شوہر کو اخراجات کے سلسلے میں اپنی حیثیت اور اس کے معیار زندگی کا خیال رکھنا ہو گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورت اپنے گھر تو اچھا کھاتی پیتی اور اچھا پہنتی ہو اور شوہر بھی مال دار ہو اور اس کے معیار زندگی کے مطابق اخراجات برداشت کر سکتا ہو مگر بخل کی وجہ سے سادہ کھانا دے اور عام سا پہنائے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عورت اس سے بذریعۂ عدالت اپنے معیار کا کھانا اور لباس طلب کر سکتی ہے۔ آرائش و زیبائش کی وہ چیزیں جو عورت کی صحت و صفائی کے لیے ضروری ہیں وہ اخراجات میں شامل ہیں اور ان کا فراہم کرنا بھی شوہر کے لیے ضروری ہے، مثلاً: تیل، کنگھی، صابن، نہانے دھونے کا سامان اور پانی وغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! عورتوں کے ہمارے ذمے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور جب تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ۔" (سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2142) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت مسلمہ کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پچیس (25) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور باقی بائیس (22) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں تین (3) کے علاوہ باقی تمام احادیث مکرر ہیں۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد آثار بھی پیش کیے ہیں اور ان احادیث و آثار پر سولہ (16) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند ایک کو ذکر کیا جاتا ہے: ٭ اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت۔ ٭ مرد کو بیوی بچوں کا خرچہ دینا ضروری ہے۔ ٭ عورت کو لباس دستور کے مطابق دینا چاہیے۔ ٭ مرد اپنے بیوی بچوں کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر سکتا ہے۔ ٭ جب خاوند گھر سے باہر جائے تو بیوی بچوں کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ بہرحال پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہیں بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، ہم نے چیدہ چیدہ حواشی لکھے ہیں جو فہم احادیث کے لیے ضروری تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پڑھنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تمہید باب
جس دودھ پیتے بچے کا والد فوت ہو جائے تو اسے دودھ پلانے والی عورت کی اجرت اس کے وارث کے ذمے ہے۔ فوت شدہ کی بیوی پر اجرت کے سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے آیت کریمہ سے ثابت کیا ہے کہ وہ عورت تو گونگے غلام کی طرح ہے جو مالک پر بوجھ ہوتا ہے۔ اس پر کوئی خرچہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا موقف ہے کہ اگر آدمی فوت ہو جائے اور اس کا بھائی اور بیوی زندہ ہو اور شیر خوار کا کوئی مال نہ ہو تو بیوی پر بھی بقدر حصہ بچے کا خرچہ ڈالا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف سے اختلاف کیا ہے کہ بیوی پر کچھ واجب نہیں ہے وہ تو عبدِ مملوک کی طرح بے بس ہے۔ (فتح الباری: 9/637)
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ ” نحل “ میں فرمایا اللہ دوسروں کی مثال بیان کرتا ہے ایک تو گونگا جو کچھ بھی قدرت نہیں رکھتا آخر آیت صراط مستقیم تک ۔تشریح : یعنی دودھ پلانے والی کا نان نفقہ خرچ وغیرہ دینا یعنی جب بچہ کے پاس کچھ مال نہ ہو تو امام احمد کے نزدیک اس کے وارث خرچہ دیں گے اور حنفیہ کے نزدیک بچہ کے ہر محرم رشتہ دار اور جمہور کے نزدیک وارثوں کو یہ خرچہ دینا ضروری نہیں۔ وعلی الوارث مثل ذٰلک ( البقرۃ: 233 ) کے معنی انہوں نے یہ کئے ہیں کہ وارث بھی ہم کو نقصان نہ پہنچائے۔ زید بن ثابت نے کہا ہے کہ اگربچہ کی ماں اور چچا دونوں ہوں تو ہر ایک بقدر اپنے حصہ وراثت کے اس کا خرچہ اٹھائے گا۔ یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے زید کا قول رد کیا کہ عورت کی مثال گونگے کی سی ہے اور گونگے کی نسبت فرمایا لا یقدر علی شئی ( النحل : 75 ) تو عورت پر کوئی خرچہ واجب نہیں ہو سکتا ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ام سلمہ ؓ سے روای ہے انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آیا ابو سلمہ ؓ کے بیٹوں پر خرچ کرنے سے مجھے کوئی ثواب ملے گا؟ میں انہیں بے یارو مددگار نہیں چھوڑ سکتی، آخر وہ میرے بیٹے ہی تو ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! تمہیں ہر اس چیز کا اجر ملے گا جو تم ان پر خرچ کروگی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) بچے کی والدہ تو خود اس کے باپ پر بوجھ ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کی ذمہ داری میں ہوتی ہے، جب اس پر اپنا خرچہ واجب نہیں تو بچے کا خرچہ کیسے واجب ہو گا؟ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بیٹوں پر خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ آپ نے صرف یہ فرمایا کہ جو کچھ تو ان پر خرچ کرے گی تجھے اس کا اجروثواب ضرور ملے گا۔ (2) جب ماں پر بچے کا خرچہ واجب نہیں تو باپ پر ہو گا۔ جب تک وہ زندہ ہے خود اسے برداشت کرے گا، جب فوت ہو جائے گا تو اس کے ورثاء کے ذمے ہے کہ وہ بچے کے اخراجات برداشت کریں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہیں ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے، انہیں زینب بنت ابی سلمہ ؓ نے کہ ام سلمہ ؓ نے بیان کیا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا مجھے ابو سلمہ ؓ (ان کے پہلے شوہر) کے لڑکوں کے بارے میں ثواب ملے گا اگر میں ان پر خرچ کروں۔ میں انہیں اس محتاجی میں دیکھ نہیں سکتی، وہ میرے بیٹے ہی تو ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ تمہیں ہر اس چیز کا ثواب ملے گا جو تم ان پر خرچ کرو گی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA) : I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall I get a reward (in the Hereafter) if I spend on the children of Abu Salama and do not leave them like this and like this (i.e., poor) but treat them like my children?" The Prophet (ﷺ) said, "Yes, you will be rewarded for that which you will spend on them."