باب: آزاد اور لونڈی دونوں انا ہو سکتی ہیں یعنی دودھ پلا سکتی ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Supporting the Family
(Chapter: Freed female slaves or any other women can be wet nurses)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5372.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ ام المومنین ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ میری بہن ابوسفیان کی بیٹی سے نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو اسے پسند کرتی ہے؟“ مٰیں نے کہا: ہاں اب بھی میں کوئی تنہا تو آپ عقد میں نہیں ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ اگر کوئی بھلائی ہو میں میرا شریک ہو تو وہ میری بہن ہو۔ آپ نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! واللہ! ہمیں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ابو سلمہ کی بیٹی ذرہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا : ”اللہ کی قسم! اگر وہ میرے زیر پرورش نہ ہوتی تو بھی میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے مجھے اور ابو سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا لہذا تم مجھ پر اپنی بیٹیاں اور بہنیں پیش نہ کیا کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ ثوبیہ کو ابو لہب نے آزاد کیا تھا۔
تشریح:
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ لونڈی دودھ پلا سکتی ہے اور اس کا دودھ پینے میں کوئی عار نہیں جیسا کہ حضرت ثوبیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5163
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5372
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5372
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5372
تمہید کتاب
عربی زبان میں نفقہ کی جمع نفقات ہے۔ اس سے مراد وہ اخراجات ہیں جو شوہر اپنی بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے برداشت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد حضرات کو "قوام" کہا ہے اور اس کی قوامیت اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی کمائی سے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مرد، عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں کیونکہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔" (النساء: 4/34) مہر کی ادائیگی کے بعد مرد کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے ضروریات زندگی فراہم کرے، یعنی وہ روٹی، کپڑے اور رہائش کا بندوبست کرے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "کشادگی والے کو اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے، اس میں سے حسب توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (الطلاق: 56/7) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر معروف طریقے کے مطابق ان عورتوں کو کھانا پلانا اور انہیں لباس مہیا کرنا ضروری ہے۔" (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خبردار! عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرو۔" (مسند احمد: 5/73) مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے اخراجات برداشت کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے مگر اس میں شوہر کی حیثیت کا خیال رکھا جائے گا لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ عورت کی حیثیت، مرضی اور خواہش کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "خوش حال انسان پر اس کی وسعت کے مطابق اور مفلس پر اس کی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہے۔" (البقرۃ: 2/236) اس آیت کے پیش نظر اگر شوہر مال دار ہو اور اس کی آمدنی اچھی خاصی ہو اور عورت بھی مال دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو شوہر کو اخراجات کے سلسلے میں اپنی حیثیت اور اس کے معیار زندگی کا خیال رکھنا ہو گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورت اپنے گھر تو اچھا کھاتی پیتی اور اچھا پہنتی ہو اور شوہر بھی مال دار ہو اور اس کے معیار زندگی کے مطابق اخراجات برداشت کر سکتا ہو مگر بخل کی وجہ سے سادہ کھانا دے اور عام سا پہنائے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عورت اس سے بذریعۂ عدالت اپنے معیار کا کھانا اور لباس طلب کر سکتی ہے۔ آرائش و زیبائش کی وہ چیزیں جو عورت کی صحت و صفائی کے لیے ضروری ہیں وہ اخراجات میں شامل ہیں اور ان کا فراہم کرنا بھی شوہر کے لیے ضروری ہے، مثلاً: تیل، کنگھی، صابن، نہانے دھونے کا سامان اور پانی وغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! عورتوں کے ہمارے ذمے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور جب تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ۔" (سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2142) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت مسلمہ کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پچیس (25) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور باقی بائیس (22) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں تین (3) کے علاوہ باقی تمام احادیث مکرر ہیں۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد آثار بھی پیش کیے ہیں اور ان احادیث و آثار پر سولہ (16) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند ایک کو ذکر کیا جاتا ہے: ٭ اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت۔ ٭ مرد کو بیوی بچوں کا خرچہ دینا ضروری ہے۔ ٭ عورت کو لباس دستور کے مطابق دینا چاہیے۔ ٭ مرد اپنے بیوی بچوں کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر سکتا ہے۔ ٭ جب خاوند گھر سے باہر جائے تو بیوی بچوں کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ بہرحال پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہیں بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، ہم نے چیدہ چیدہ حواشی لکھے ہیں جو فہم احادیث کے لیے ضروری تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پڑھنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ ام المومنین ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ میری بہن ابوسفیان کی بیٹی سے نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو اسے پسند کرتی ہے؟“ مٰیں نے کہا: ہاں اب بھی میں کوئی تنہا تو آپ عقد میں نہیں ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ اگر کوئی بھلائی ہو میں میرا شریک ہو تو وہ میری بہن ہو۔ آپ نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! واللہ! ہمیں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ابو سلمہ کی بیٹی ذرہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا : ”اللہ کی قسم! اگر وہ میرے زیر پرورش نہ ہوتی تو بھی میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے مجھے اور ابو سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا لہذا تم مجھ پر اپنی بیٹیاں اور بہنیں پیش نہ کیا کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ ثوبیہ کو ابو لہب نے آزاد کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ لونڈی دودھ پلا سکتی ہے اور اس کا دودھ پینے میں کوئی عار نہیں جیسا کہ حضرت ثوبیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے خبر دی، ان کو ابو سلمہ کی صاحبزادی زینب نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری بہن (عزہ) بنت ابی سفیان سے نکاح کر لیجئے۔ آپ نے فرمایا اورتم اسے پسند بھی کروگی (کہ تمہاری بہن تمہاری سوکن بن جائے) میں نے عرض کیا جی ہاں، اس سے خالی تو میں اب بھی نہیں ہوں اور میں پسند کرتی ہوں کہ اپنی بہن کو بھی بھلائی میں اپنے ساتھ شریک کرلوں۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ یہ میرے لیے جائز نہیں ہے۔ (دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ)! واللہ اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا، ام سلمہ کی بیٹی۔ جب میں نے عرض کیا، جی ہاں تو آپ نے فرمایا اگر وہ میری پرورش میں نہ ہوتی جب بھی وہ میرے لیے حلال نہیں تھی وہ تو میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔ مجھے اور ابو سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ پس تم میرے لیے اپنی لڑکیوں اور بہنوں کو نہ پیش کیا کرو۔ اور شعیب نے بیان کیا، ان سے زہری نے اور ان سے عروہ نے، کہا کہ ثوبیہ کو ابو لہب نے آزاد کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب نکالا کہ لونڈی آیا ہو سکتی ہے یعنی آزاد مردوں کو دودھ پلا سکتی ہے۔ جیساکہ ثوبیہ (لونڈی) نے آنحضرت کو دودھ پلایا تھا۔ ثوبیہ کو ابو لہب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں آزاد کیا تھا۔ الحمد للہ کتا ب النفقات کا بیان ختم ہوا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں مسائل کو جس تفصیل سے کتاب و سنت کی روشنی میں بیان فرمایا ہے وہ حضرت امام ہی جیسے مجتہد مطلق و محدث کامل کا حق تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو امت کی طرف سے بے شمار جزائیں عطا کرے اور قیامت کے دن بخاری شریف کے جملہ قدر دانوں کو آپ کے ساتھ دربار رسالت میں شرف باریانی نصیب ہو اور مجھ ناچیز کو میرے اہل و عیال اور جملہ قدر دانوں کے ساتھ جوار رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جگہ مل سکے۔ ورحم اللہ عبدا قال آمینا۔ ثوبیہ کی آزادی سے متعلق مزید تشریح یہ ہے۔وذکر السھیل أن العباس قال لما مات أبو لھب في منامي بعد حول في شر حال فقال ما لقیت بعدکم راحة إلا أن العذاب یخلف عني کل یوم اثنین قال وذالك أن النبي صلی اللہ علیه وسلم ولد یوم الاثنین و کانت ثوبیة بشرت أبا لھب بمولدہ فأعتقھا(الحادی والعشرون، ض: 47) سہیل نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابولہب کو مرنے کے ایک سال بعد خواب میں بری حالت میں دیکھا اور اس نے کہا کہ میں نے تم سے جدا ہونے کے بعد کوئی آرام نہیں دیکھا ۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ ہر سوموار کے دن میرے عذاب میں کچھ تخفیف ہو جاتی ہے اور یہ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوموار ہی کے دن پیدا ہوئے تھے اور ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے ابو لہب کو آپ کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی ، جسے سن کر خوشی میں ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا تھا۔ یہی ابو لہب ہے جو بعد میں ضد اور ہٹ دھرمی میں اتنا سخت ہو گیا کہ اس کے متعلق قرآن کریم میں سورہ ﴿تَبت یَدَا أبي لَھب﴾ نازل ہوئی۔ معلوم ہوا کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر کسی صحیح حدیث کا انکار کرنا بہت ہی بری حر کت ہے۔ جیسا کہ آج کل اکثر عوام کا حال ہے کہ بہت سی اسلامی باتوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو حق و ثابت جانتے ہوئے بھی ان کا انکار کئے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ نیک ہدایت دے اور ضد اور ہٹ دھرمی سے بچائے (آمین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Habiba (RA) : (the wife of the Prophet) I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Will you marry my sister, the daughter of Abu Sufyan (RA) ." The Prophet (ﷺ) said, "Do you like that?" I said, "Yes, for I am not your only wife, and the person I like most to share the good with me, is my sister." He said, "That is not lawful for me." I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We have heard that you want to marry Durra, the daughter of Abu Salama." He said, "You mean the daughter of Um Salama?" I said, "Yes." He said, "Even if she were not my step-daughter, she is unlawful for me, for she is my foster niece. Thuwaiba suckled me and Abu Salama. So you should not present to me your daughters and sisters." Narrated 'Ursa: Thuwaiba had been a slave girl whom Abu Lahab had emancipated.