Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: To eat with right hand, and to start with the right side in doing other things)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عمر بن ابی سلمہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ داہنے ہاتھ سے کھا ۔
5381.
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا ابو طلحہ ؓ نے سیدنا ام سلیم ؓ سے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی آواز میں نقاہت محسوس کرتا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقے سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جوکی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ لیا اور اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹ دی، پھراسے میرے کپڑے کے نیچے میرى بغل میں چھپا دیا اور اس کا کچھ حصہ (چادر کی طرح) مجھے اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ جب وہ لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓم بھی تھے۔ میں ان حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا تجھے ابو طلحہ نے بھیجا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کھانے کے لیے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے سب ساتھیوں سے فرمایا: ”اٹھو۔“ چنانچہ آپ وہاں سے روانہ ہوئے اور میں ان کے آگے چلنے لگا۔ جب میں سیدنا ابو طلحہ ؓ کے پاس پہنچا تو انہوں نے سیدہ ام سلیم ؓ سے کہا: ام سلیم! رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھیوں سمیت تشریف لا رہے ہیں جبکہ ہمارے پاس کھانے کا اتنا انتظام نہیں جو سب کو کافی ہو سکے۔ سیدہ ام سلیم ؓ نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں اس کے بعد سیدنا ابو طلحہ ؓ استقبال کے لیے نکلے اور رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی۔ آخر کار ابو طلحہ ؓ اور رسول اللہ ﷺ چلتے چلتے گھر میں داخل ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ ام سلیم ؓ سے فرمایا: ”اے ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے لے آؤ۔“ چنانچہ وہ وہی روٹیاں لے آئیں پھر آپ ﷺ کے حکم سے ان کا چورا کر لیا گیا۔ سیدہ ام سلیم ؓ نے اپنے گھی کے ڈبے سے اس پر گھی نچوڑ کر اس کا ملیدہ بنالیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی توفیق سے اس پر جو پڑھنا تھا پڑھا، اس کے بعد فرمایا: ”دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلاؤ۔“ چنانچہ صحابہ کرام ؓ کو اجازت دی وہ آئے اور شکم سیر ہو کر کھایا اور واپس چلے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”دس اور بلاؤ۔“ وہ آئے اور شکم سیر ہو کر کھایا اور باہر چلے گئے، پھر آپ نے دس صحابہ کرام ؓ کو آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے بھی سیر ہو کر کھایا اور واپس چلے گئے۔ پھر دس صحابہ کرام ؓ کو بلایا، اس طرح تمام صحابہ کرام ؓ نے پیٹ بھر کر کھایا۔ اس وقت اسّی (80) کی تعداد میں صحابہ کرام ؓ میں موجود تھے۔
تشریح:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے پیٹ بھر کے کھانا کھانے کو ثابت کیا ہے اور یہ حدیث اپنے مقصود میں واضح ہے، اگرچہ ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو لوگ دنیا میں پیٹ بھر کے کھائیں گے وہ آخرت میں لمبی بھوک سے دوچار ہوں گے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الأطعمة، حدیث: 3550، 3551، و السلسلة الصحیحة للألباني، حدیث: 343) اس سے مراد وہ پیٹ بھرنا ہے جو انسان کو سست کر دے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رکاوٹ کا باعث بنے اور جس سے معدے میں گرانی آ جائے۔ (فتح الباري: 654/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5172
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5381
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5381
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5381
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
بعض شارحین کا خیال ہے کہ یہ عنوان مکرر ہے، لیکن ایسا نہیں کیونکہ پہلے عنوان نمبر: 2 کھانے کے عمل سے متعلق تھا کہ اسے دائیں ہاتھ سے کھایا جائے اور مذکورہ عنوان عام ہے جو تمام کاموں کو مشتمل ہے، خواہ ان کا تعلق کھانے سے ہو یا پینے سے، یا کوئی چیز دینے سے، تو اسے دائیں جانب سے شروع کیا جائے۔ (فتح الباری: 9/652)
عمر بن ابی سلمہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ داہنے ہاتھ سے کھا ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا ابو طلحہ ؓ نے سیدنا ام سلیم ؓ سے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی آواز میں نقاہت محسوس کرتا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقے سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جوکی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ لیا اور اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹ دی، پھراسے میرے کپڑے کے نیچے میرى بغل میں چھپا دیا اور اس کا کچھ حصہ (چادر کی طرح) مجھے اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ جب وہ لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓم بھی تھے۔ میں ان حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا تجھے ابو طلحہ نے بھیجا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کھانے کے لیے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے سب ساتھیوں سے فرمایا: ”اٹھو۔“ چنانچہ آپ وہاں سے روانہ ہوئے اور میں ان کے آگے چلنے لگا۔ جب میں سیدنا ابو طلحہ ؓ کے پاس پہنچا تو انہوں نے سیدہ ام سلیم ؓ سے کہا: ام سلیم! رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھیوں سمیت تشریف لا رہے ہیں جبکہ ہمارے پاس کھانے کا اتنا انتظام نہیں جو سب کو کافی ہو سکے۔ سیدہ ام سلیم ؓ نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں اس کے بعد سیدنا ابو طلحہ ؓ استقبال کے لیے نکلے اور رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی۔ آخر کار ابو طلحہ ؓ اور رسول اللہ ﷺ چلتے چلتے گھر میں داخل ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ ام سلیم ؓ سے فرمایا: ”اے ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے لے آؤ۔“ چنانچہ وہ وہی روٹیاں لے آئیں پھر آپ ﷺ کے حکم سے ان کا چورا کر لیا گیا۔ سیدہ ام سلیم ؓ نے اپنے گھی کے ڈبے سے اس پر گھی نچوڑ کر اس کا ملیدہ بنالیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی توفیق سے اس پر جو پڑھنا تھا پڑھا، اس کے بعد فرمایا: ”دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلاؤ۔“ چنانچہ صحابہ کرام ؓ کو اجازت دی وہ آئے اور شکم سیر ہو کر کھایا اور واپس چلے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”دس اور بلاؤ۔“ وہ آئے اور شکم سیر ہو کر کھایا اور باہر چلے گئے، پھر آپ نے دس صحابہ کرام ؓ کو آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے بھی سیر ہو کر کھایا اور واپس چلے گئے۔ پھر دس صحابہ کرام ؓ کو بلایا، اس طرح تمام صحابہ کرام ؓ نے پیٹ بھر کر کھایا۔ اس وقت اسّی (80) کی تعداد میں صحابہ کرام ؓ میں موجود تھے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے پیٹ بھر کے کھانا کھانے کو ثابت کیا ہے اور یہ حدیث اپنے مقصود میں واضح ہے، اگرچہ ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو لوگ دنیا میں پیٹ بھر کے کھائیں گے وہ آخرت میں لمبی بھوک سے دوچار ہوں گے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الأطعمة، حدیث: 3550، 3551، و السلسلة الصحیحة للألباني، حدیث: 343) اس سے مراد وہ پیٹ بھرنا ہے جو انسان کو سست کر دے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رکاوٹ کا باعث بنے اور جس سے معدے میں گرانی آ جائے۔ (فتح الباري: 654/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابو طلحہ ؓ نے اپنی بیوی ام سلیم ؓ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز میں ضعف و نقاہت کو محسوس کیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقہ سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دو پٹہ نکالا اور اس کے ایک حصہ میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے (یعنی انس ؓ کے) کپڑے کے نیچے چھپا دیا اور ایک حصہ مجھے چادر کی طرح اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا، بیان کیا کہ میں جب حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو مسجد میں پایا اور آپ کے ساتھ صحابہ تھے۔ میں ان سب حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا، اے انس! تمہیں ابو طلحہ نے بھیجا ہوگا۔ میں نے عرض کی جی ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کھانے کے ساتھ ؟ میں نے عرض کی، جی ہاں۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ کھڑے ہو جاؤ۔ چنانچہ آپ روانہ ہوئے۔ میں سب کے آگے آگے چلتا رہا۔ جب ابو طلحہ ؓ کے پاس واپس پہنچا تو انہوں نے کہا ام سلیم! حضور اکرم ﷺ صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لائے ہیں، حالانکہ ہمارے پاس کھانے کا اتنا سامان نہیں جو سب کو کافی ہو سکے۔ ام سلیم ؓ اس پربولیں کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ابو طلحہ ؓ (استقبال کے لیے) نکلے اور آنحضرت ﷺ سے ملاقات کی۔ اس کے بعد ابو طلحہ ؓ اور حضور اکرم ﷺ گھر کی طرف متوجہ ہوئے اور گھر میں داخل ہو گئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ یہاں لاؤ۔ ام سلیم ؓ روٹی لائیں، آنحضرت ﷺ نے حکم دیا اوراس کا چورا کر لیا گیا۔ ام سلیم ؓ نے اپنے گھی کے ڈبہ میں سے گھی نچوڑ کر اس کا ملیدہ بنا لیا، پھر حضور اکرم ﷺ نے دعاکی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دعا کرانی چاہی، اس کے بعد فرمایا ان دس دس آدمی کو کھانے کے لیے بلالو۔ چنانچہ دس صحابہ کو بلایا۔ سب نے کھایا اورشکم سیر ہو کر باہر چلے گئے۔ پھر فرمایا کہ دس کو اور بلالو، انہیں بلایا گیا اور سب نے شکم سیر ہو کر کھایا اور باہر چلے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دس صحابہ کو اور بلا لو، پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اور ان لوگوں نے بھی خوب پیٹ بھرکر کھایا اور باہر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اس طرح تمام صحابہ نے پیٹ بھر کر کھایا، اس وقت اسی (80) صحابہ کی جماعت وہاں موجود تھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سمجھ گئی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اتنے لوگوں کو ہمراہ تشریف لا رہے ہیں تو کھانے میں ضرور آپ کی دعا سے بر کت ہوگی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر تشریف لائے تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے چپ سے کہا کہ یا رسول اللہ! گھر میں اتنے آدمیوں کے کھانے کا انتظام نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ چلو اندر گھر میں چلو اللہ برکت کرے گا۔ چنانچہ یہی ہوا، حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کویہاں اس لیے لائے کہ اس میں سب کا شکم سیر ہو کر کھانا مذکور ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Abu Talha said to Um Sulaim, "I have heard the voice of Allah's Apostle (ﷺ) which was feeble, and I think that he is hungry. Have you got something (to eat)?" She took out some loaves of barley bread, then took her face-covering sheet and wrapped the bread in part of it, and pushed it under my garment and turned the rest of it around my body and sent me to Allah's Apostle (ﷺ) . I went with that, and found Allah's Apostle (ﷺ) in the mosque with some people. I stood up near them, and Allah's Apostle (ﷺ) asked me, "Have you been sent by Abu Talha?" I said, "Yes." He asked, "With some food (for us)?" I said, "Yes." Then Allah's Apostle (ﷺ) said to all those who were with him, "Get up!" He set out (and all the people accompanied him) and I proceeded ahead of them till I came to Abu Talha. Abu Talha then said, "O Um Sulaim! Allah's Apostle (ﷺ) has arrived along with the people, and we do not have food enough to feed them all." She said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." So Abu Talha went out till he met Allah's Apostle. Then Abu Talha and Allah's Apostle (ﷺ) came and entered the house. Allah's Apostle (ﷺ) said, "Um Sulaim ! Bring whatever you have." She brought that very bread. The Prophet (ﷺ) ordered that it be crushed into small pieces, and Um Sulaim pressed a skin of butter on it. Then Allah's Apostle (ﷺ) said whatever Allah wished him to say (to bless the food) and then added, "Admit ten (men)." So they were admitted, ate their fill and went out. The Prophet (ﷺ) then said, "Admit ten (more)." They were admitted, ate their full, and went out. He then again said, "Admit ten more!" They were admitted, ate their fill, and went out. He admitted ten more, and so all those people ate their fill, and they were eighty men.