باب: ( میدہ کی باریک ) چپاتیاں کھانا اور خوان ( دبیز ) اور دسترخوان پر کھانا
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: Thin bread and eating at a dining table)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5385.
سیدنا قتادہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم سیدنا انس ؓ کے پاس تھے۔ ان کے ہاں انکا باورچی بھی تھا انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے کبھی میدے سے تیار شدہ باریک چپاتی نہیں کھائی اور نہ کبھی بھونی ہوئی بکری ہی تناول فرمائی حتی کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے۔
تشریح:
(1) مُرقق، میدے کی پتلی روٹی کو کہتے ہیں۔ عربوں کے ہاں آٹا چھاننے کے لیے چھلنی نہیں ہوا کرتی تھی، اس لیے وہ بغیر چھانے آٹے کی روٹی تیار کرتے تھے، نیز سادگی کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا تھا۔ (2) ابن بطال نے کہا ہے کہ میدے کی پتلی روٹی جائز اور مباح ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی بنا پر میدے کی باریک چپاتی نہیں کھاتے تھے بلکہ آپ کو جو کچھ میسر ہوتا اسے ترجیح دیتے تھے۔ (عمدة القاري: 396/14) (3) حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو ان کے لیے بہترین کھانا تیار کرتا اور کئی قسم کا سالن بناتا، اس کے علاوہ گھی میں آٹا گوندھ کر روٹی تیار کرتا تھا، اس لیے چپاتی کا استعمال جائز ہے۔ (فتح الباري: 658/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5176
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5385
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5385
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5385
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
سیدنا قتادہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم سیدنا انس ؓ کے پاس تھے۔ ان کے ہاں انکا باورچی بھی تھا انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے کبھی میدے سے تیار شدہ باریک چپاتی نہیں کھائی اور نہ کبھی بھونی ہوئی بکری ہی تناول فرمائی حتی کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مُرقق، میدے کی پتلی روٹی کو کہتے ہیں۔ عربوں کے ہاں آٹا چھاننے کے لیے چھلنی نہیں ہوا کرتی تھی، اس لیے وہ بغیر چھانے آٹے کی روٹی تیار کرتے تھے، نیز سادگی کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا تھا۔ (2) ابن بطال نے کہا ہے کہ میدے کی پتلی روٹی جائز اور مباح ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی بنا پر میدے کی باریک چپاتی نہیں کھاتے تھے بلکہ آپ کو جو کچھ میسر ہوتا اسے ترجیح دیتے تھے۔ (عمدة القاري: 396/14) (3) حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو ان کے لیے بہترین کھانا تیار کرتا اور کئی قسم کا سالن بناتا، اس کے علاوہ گھی میں آٹا گوندھ کر روٹی تیار کرتا تھا، اس لیے چپاتی کا استعمال جائز ہے۔ (فتح الباري: 658/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، ان سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا کہ ہم حضرت انس ؓ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت ان کا روٹی پکانے والا خادم بھی موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی چپاتی (میدہ کی روٹی) نہیں کھائی اور نہ ساری دم پختہ بکری کھائی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں لفظ ''مسموطة'' ہے یعنی وہ بکری جس کے بال گرم پانی سے دور کيے جائیں، پھر چمڑے سمیت بھون لی جائے۔ یہ چھوٹے بچے کے ساتھ کرتے ہیں چونکہ اس کا گوشت نرم ہوتا ہے یہ دنیا دار مغرور لوگوں کا فعل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qatada (RA) : We were in the company of Anas whose baker was with him. Anas said, The Prophet (ﷺ) did not eat thin bread, or a roasted sheep till he met Allah (died).