Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The time of Zuhr prayer is when the sun declines (just after mid-day))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت جابر ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ دوپہر کی گرمی میں ( ظہر کی ) نماز پڑھتے تھے۔
540.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سورج ڈھلنے پر تشریف لائے، ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر منبر پر کھڑے ہوئے، قیامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں بڑے بڑے حوادث ہوں گے۔ پھر فرمایا: ’’اگر کوئی شخص کسی چیز کی بابت کوئی سوال کرنا چاہتا ہے تو دریافت کرے۔ جب تک میں اس مقام پر ہوں مجھ سے جو بات دریافت کرو گے میں تمہیں اس کے متعلق بتاؤں گا۔‘‘ لوگ بکثرت گریہ کرنے لگے لیکن آپ بار بار یہ فرماتے: ’’مجھ سے پوچھو۔‘‘ اس دوران میں حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی ؓ کھڑے ہوئے اور دریافت کیا: میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تمہارا باپ حذافہ ہے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’مجھ سے پوچھو۔‘‘ آخر کار حضرت عمر ؓ (ادب سے) کھڑے ہوئے، دوزانو بیٹھ کر عرض کرنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں، چنانچہ آپ خاموش ہو گئے۔ پھر فرمایا: ’’ابھی ابھی دیوار کے اس کنارے سے میرے سامنے جنت اور دوزخ کو پیش کیا گیا تو میں نے جنت کی طرح بہتر اور جہنم کی طرح بدتر کوئی چیز نہیں دیکھی۔‘‘
تشریح:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود نماز ظہر کا اول وقت بتانا ہے کہ وہ زوال آفتاب کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے، نیز اس میں اہل کوفہ کا رد ہے۔ ان کے ہاں نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب کے فورا بعد شروع نہیں ہوتا، حالانکہ مذکورہ حدیث واضح طور پر ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ اہل کوفہ اپنے موقف پر اصرار کرتے ہوئے ان احادیث کو منسوخ یا مرجوح قرار دیتے ہیں، حالانکہ نسخ یا ترجیح کا معاملہ اس وقت ہوتا ہے جب احادیث آپس میں متعارض ہوں، لیکن ابراد اور اول وقت نماز پڑھنے کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ مذکورہ حدیث میں نماز ظہر کا اول وقت بیان ہوا ہے جبکہ ابراد (ٹھنڈے وقت میں پڑھنے) کا حکم شدت گرمی کے ساتھ خاص ہے۔ (فتح الباري: 30/2) (2) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک میں یہاں ہوں تمھارے سوالوں کا جواب دوں گا۔ یہ ایک وقتی چیز تھی، لہٰذا اس سے رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کلی پر استدلال کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ صفت صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ﴾’’کہہ دیجیے! آسمانوں اور زمین کے غیب کو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔‘‘(النمل: 27: 65) قرآن کریم کی متعدد آیات سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ غیب دان نہیں بلکہ یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خاص ہے، نیز حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاضرین کی طرف سے کیے گئے سوالات کے جوابات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ سائلین کی ذہنی پرواز جہاں تک ہوسکتی تھی، اتنے ہی علوم عطا فرمائے گئے تھے۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ سائلین کا علم محدود ہے، اس کا علم غیب سے کوئی تعلق نہیں، پھر نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ ’’جب تک میں اس مقام پر ہوں سوال کرو‘‘ بھی دلالت کرتا ہے کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا۔ (3) حضرت عبداللہ بن حذافہ کولوگ نسب کے سلسلے میں طعنے دیتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنے باپ کے متعلق سوال کیا تاکہ طعنوں کا سلسلہ بند ہوجائے۔ اس وضاحت کے بعد طعن وتشنیع کا سلسلہ تو بند ہو گیا لیکن ان کی والدہ نے اس سوال پر انہیں بہت سرزنش کی، چنانچہ دیگر روایات میں ہے کہ والدہ نے بایں الفاظ نوٹس لیا کہ میں نے تجھ جیسا نافرمان بیٹا نہیں دیکھا۔ کیا تجھے یقین تھا کہ تیری والدہ نے جاہلیت کی عورتوں کی طرح کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی زبان پر کسی اور کانام آجاتا تو کس قدر رسوائی ہوتی!تونے مجمع عام میں اس طرح کا سوال کرکے بڑی نادانی کا ثبوت دیا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! اگر رسول اللہ ﷺ میرا نسب کسی سیاہ غلام سے بھی ملا دیتے تو میں اسے قبول کرلیتا۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6121(2359))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
534
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
540
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
540
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
540
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے مصولا بیان کیا ہے۔دیکھیے:(حدیث 560) (هَاجِرَه) کے لغوی معنی چھوڑ دینا ہیں اور اصطلاحی طور پر عین دوپہر کے وقت کو کہتے ہیں۔اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عین دوپہر کے وقت گرمی کی شدت کی بنا پر لوگ کام کاج چھوڑ دیتے ہیں اور قیلولہ کرتے ہیں۔(فتح الباری: 2/30)
اور حضرت جابر ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ دوپہر کی گرمی میں ( ظہر کی ) نماز پڑھتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سورج ڈھلنے پر تشریف لائے، ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر منبر پر کھڑے ہوئے، قیامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں بڑے بڑے حوادث ہوں گے۔ پھر فرمایا: ’’اگر کوئی شخص کسی چیز کی بابت کوئی سوال کرنا چاہتا ہے تو دریافت کرے۔ جب تک میں اس مقام پر ہوں مجھ سے جو بات دریافت کرو گے میں تمہیں اس کے متعلق بتاؤں گا۔‘‘ لوگ بکثرت گریہ کرنے لگے لیکن آپ بار بار یہ فرماتے: ’’مجھ سے پوچھو۔‘‘ اس دوران میں حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی ؓ کھڑے ہوئے اور دریافت کیا: میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تمہارا باپ حذافہ ہے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’مجھ سے پوچھو۔‘‘ آخر کار حضرت عمر ؓ (ادب سے) کھڑے ہوئے، دوزانو بیٹھ کر عرض کرنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں، چنانچہ آپ خاموش ہو گئے۔ پھر فرمایا: ’’ابھی ابھی دیوار کے اس کنارے سے میرے سامنے جنت اور دوزخ کو پیش کیا گیا تو میں نے جنت کی طرح بہتر اور جہنم کی طرح بدتر کوئی چیز نہیں دیکھی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود نماز ظہر کا اول وقت بتانا ہے کہ وہ زوال آفتاب کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے، نیز اس میں اہل کوفہ کا رد ہے۔ ان کے ہاں نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب کے فورا بعد شروع نہیں ہوتا، حالانکہ مذکورہ حدیث واضح طور پر ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ اہل کوفہ اپنے موقف پر اصرار کرتے ہوئے ان احادیث کو منسوخ یا مرجوح قرار دیتے ہیں، حالانکہ نسخ یا ترجیح کا معاملہ اس وقت ہوتا ہے جب احادیث آپس میں متعارض ہوں، لیکن ابراد اور اول وقت نماز پڑھنے کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ مذکورہ حدیث میں نماز ظہر کا اول وقت بیان ہوا ہے جبکہ ابراد (ٹھنڈے وقت میں پڑھنے) کا حکم شدت گرمی کے ساتھ خاص ہے۔ (فتح الباري: 30/2) (2) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک میں یہاں ہوں تمھارے سوالوں کا جواب دوں گا۔ یہ ایک وقتی چیز تھی، لہٰذا اس سے رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کلی پر استدلال کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ صفت صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ﴾’’کہہ دیجیے! آسمانوں اور زمین کے غیب کو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔‘‘(النمل: 27: 65) قرآن کریم کی متعدد آیات سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ غیب دان نہیں بلکہ یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خاص ہے، نیز حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاضرین کی طرف سے کیے گئے سوالات کے جوابات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ سائلین کی ذہنی پرواز جہاں تک ہوسکتی تھی، اتنے ہی علوم عطا فرمائے گئے تھے۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ سائلین کا علم محدود ہے، اس کا علم غیب سے کوئی تعلق نہیں، پھر نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ ’’جب تک میں اس مقام پر ہوں سوال کرو‘‘ بھی دلالت کرتا ہے کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا۔ (3) حضرت عبداللہ بن حذافہ کولوگ نسب کے سلسلے میں طعنے دیتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنے باپ کے متعلق سوال کیا تاکہ طعنوں کا سلسلہ بند ہوجائے۔ اس وضاحت کے بعد طعن وتشنیع کا سلسلہ تو بند ہو گیا لیکن ان کی والدہ نے اس سوال پر انہیں بہت سرزنش کی، چنانچہ دیگر روایات میں ہے کہ والدہ نے بایں الفاظ نوٹس لیا کہ میں نے تجھ جیسا نافرمان بیٹا نہیں دیکھا۔ کیا تجھے یقین تھا کہ تیری والدہ نے جاہلیت کی عورتوں کی طرح کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی زبان پر کسی اور کانام آجاتا تو کس قدر رسوائی ہوتی!تونے مجمع عام میں اس طرح کا سوال کرکے بڑی نادانی کا ثبوت دیا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! اگر رسول اللہ ﷺ میرا نسب کسی سیاہ غلام سے بھی ملا دیتے تو میں اسے قبول کرلیتا۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6121(2359))
ترجمۃ الباب:
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں: نبی ﷺ نماز ظہر عین دوپہر کے وقت ادا فرماتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے زہری کی روایت سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک ؓ نے خبر دی کہ جب سورج ڈھلا تو نبی ﷺ حجرہ سے باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر منبر پر تشریف لائے۔ اور قیامت کا ذکر فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت میں بڑے عظیم امور پیش آئیں گے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی کو کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لے۔ کیونکہ جب تک میں اس جگہ پر ہوں تم مجھ سے جو بھی پوچھو گے۔ میں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ لوگ بہت زیادہ رونے لگے۔ آپ ﷺ برابر فرماتے جاتے تھے کہ جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ سہمی کھڑے ہوئے اور دریافت کیا کہ حضور ﷺ میرے باپ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے باپ حذافہ تھے۔ آپ اب بھی برابر فرما رہے تھے کہ پوچھو کیا پوچھتے ہو۔ اتنے میں عمر ؓ ادب سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور انھوں نے فرمایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد (ﷺ) کے نبی ہونے سے راضی اور خوش ہیں۔ (پس اس گستاخی سے ہم باز آتے ہیں کہ آپ سے جا اور بے جا سوالات کریں) اس پر آنحضرت ﷺ خاموش ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ابھی ابھی میرے سامنے جنت اور جہنم اس دیوار کے کونے میں پیش کی گئی تھی۔ پس میں نے نہ ایسی کوئی عمدہ چیز دیکھی (جیسی جنت تھی) اور نہ کوئی ایسی بری چیز دیکھی (جیسی دوزخ تھی)۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث مختصرکتاب العلم میں بھی گزر چکی ہے۔ لفظ خرج حین زاغت الشمس سے ترجمہ باب نکلتاہے کہ ظہر کی نماز کا وقت سورج ڈھلتے ہی شروع ہوجاتاہے۔ اس حدیث میں کچھ سوال وجواب کا بھی ذکر ہے۔ آپ ﷺ کو خبر لگی تھی کہ منافق لوگ امتحان کے طور پر آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ ﷺ کو غصہ آیا اورفرمایا کہ جو تم چاہو مجھ سے پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ ؓ کو لوگ کسی اورکا بیٹا کہتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے تحقیق چاہی اورآپ ﷺ کے جواب سے خوش ہوئے۔ لوگ آپ کی خفگی دیکھ کر خوف سے رونے لگے کہ اب خدا کا عذاب آئے گا یا جنت ودوزخ کا ذکر سن کر رونے لگے۔ حضرت عمرؓ نے آپ کا غصہ معلوم کرکے وہ الفاظ کہے جن سے آپ کا غصہ جاتا رہا۔ (صلی اللہ علیه وسلم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) came out as the sun declined at mid-day and offered the Zuhr prayer. He then stood on the pulpit and spoke about the Hour (Day of Judgment) and said that in it there would be tremendous things. He then said, "Whoever likes to ask me about anything he can do so and I shall reply as long as I am at this place of mine. Most of the people wept and the Prophet (ﷺ) said repeatedly, "Ask me." Abdullah bin Hudhafa As-Sahmi stood up and said, "Who is my father?" The Prophet (ﷺ) said, "Your father is Hudhafa." The Prophet (ﷺ) repeatedly said, "Ask me." Then Umar knelt before him and said, "We are pleased with Allah as our Lord, Islam as our religion, and Muhammad as our Prophet." The Prophet (ﷺ) then became quiet and said, "Paradise and Hell-fire were displayed in front of me on this wall just now and I have never seen a better thing (than the former) and a worse thing (than the latter)."