Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: Al-Khazira (dish prepared with while flour and fat))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اورنضر بن شمیل نے کہا کہ خزیرہ بھو سی سے بنتا ہے اور حریرہ دودھ سے ۔اکثر نے کہا کہ حریرہ آٹا سے بنایا جاتا ہے اور خزیرہ جو کے آٹے اور گوشت کے ٹکڑوں سے پتلا پتلا حریرہ کی طرح بنایا جاتا ہے اگر گوشت نہ ہو خالی آٹا ہو تو وہ حریرہ ہے۔
5401.
سیدنا محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عتبان بن مالک ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ صاحب نبی ﷺ کے انصاری صحابہ میں سے ہیں انہوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری نظر کمزور ہو چکی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں موسم برسات میں یہ نالا بہہ پڑتا ہے جو میری لیے ان کی مسجد میں جانا اور انہیں نماز پڑھانا ممکن نہیں رہتا۔ اللہ کے رسول! میری انہتائی خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تو میں اس جگہ کو اپنے لیے ”جائے نماز“ قرار دے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں إن شاء اللہ جلد ہی ایسا کروں گا حضرت عتبان ؓ نے کہا کہ ایک دن چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہوا تو رسول اللہ ﷺ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ نبی ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو بیٹھے بغیر ہی آپ نے فرمایا: ”تم اپنے گھر میں کس جگہ کو پسند کرتے ہو کہ میں وہاں نماز پڑھوں؟“ میں نے گھر کے ایک کونے کی نشاندہی کی۔ نبی ﷺ نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر کہی۔ ہم نے آپ کے پیچھے صف بنا لی۔ آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیر دیا۔ ہم نے آپ ﷺ کو خزیرہ پیش کرنے کے لیے روک لیا جو ہم نے خود تیار کیا تھا گھر میں قبیلے کے بہت سے لوگ جمع ہو گئے، ان میں سے کسی نے کہا: مالک بن دخشن کہاں ہیں؟ کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے، اسے اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کہو، کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے لا إله إلا اللہ کا اقرار کیا ہے اور اس اقرار سے اس کا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔“ (صحابی) نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ہم نے تو اس لیے یہ بات کہی تھی کہ ہم اس کی توجہ اور اس کا لگاؤ منافقین کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص لا إله إلا اللہ کا اقرار کرے اور اس سے مقصود اللہ کی خوشنودی ہو تو اللہ تعالٰی نے دوزخ کی آگ ایسے شخص پر حرام کر دی ہے۔“ (راوئ حدیث) حضرت ابن شہاب کہتے ہیں: پھر میں قبیلہ بنو سالم کے ایک فرد ان کے سردار سیدنا حصین بن محمد انصاری ؓ سے محمود بن ربیع ؓ کی بیان کردہ حدیث کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں ہے کہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مہمانوں کو خزیرہ پیش کیا جو خصوصی طور پر تیار کیا گیا تھا۔ یہ ایک بہترین، زود ہضم اور لذیذ پکوان ہے۔ گوشت کا باریک قیمہ کر کے دیگ میں ڈال دیا جاتا ہے، پھر اس میں پانی ڈال کر نیچے آگ جلاتے ہیں، جب قیمہ پک جاتا ہے تو اس پر جو کا آٹا ڈالتے ہیں، اس طرح وہ لذت میں بے مثال ہوتا ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کے پکوان مہمانوں کو پیش کیے جا سکتے ہیں، اس میں کسی قسم کی فضول خرچی یا اسراف نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5192
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5401
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5401
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5401
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
خزیرہ، جو کے آٹے اور گوشت کے ٹکڑوں سے تیار کیا جاتا ہے اور اگر گوشت نہ ہو خالی آٹا ہو تو اسے حریرہ کہتے ہیں جو پتلا پتلا ہوتا ہے۔ یہ دونوں کھانے عربوں کے ہاں عام تھے۔
اورنضر بن شمیل نے کہا کہ خزیرہ بھو سی سے بنتا ہے اور حریرہ دودھ سے ۔اکثر نے کہا کہ حریرہ آٹا سے بنایا جاتا ہے اور خزیرہ جو کے آٹے اور گوشت کے ٹکڑوں سے پتلا پتلا حریرہ کی طرح بنایا جاتا ہے اگر گوشت نہ ہو خالی آٹا ہو تو وہ حریرہ ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عتبان بن مالک ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ صاحب نبی ﷺ کے انصاری صحابہ میں سے ہیں انہوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری نظر کمزور ہو چکی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں موسم برسات میں یہ نالا بہہ پڑتا ہے جو میری لیے ان کی مسجد میں جانا اور انہیں نماز پڑھانا ممکن نہیں رہتا۔ اللہ کے رسول! میری انہتائی خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تو میں اس جگہ کو اپنے لیے ”جائے نماز“ قرار دے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں إن شاء اللہ جلد ہی ایسا کروں گا حضرت عتبان ؓ نے کہا کہ ایک دن چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہوا تو رسول اللہ ﷺ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ نبی ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو بیٹھے بغیر ہی آپ نے فرمایا: ”تم اپنے گھر میں کس جگہ کو پسند کرتے ہو کہ میں وہاں نماز پڑھوں؟“ میں نے گھر کے ایک کونے کی نشاندہی کی۔ نبی ﷺ نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر کہی۔ ہم نے آپ کے پیچھے صف بنا لی۔ آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیر دیا۔ ہم نے آپ ﷺ کو خزیرہ پیش کرنے کے لیے روک لیا جو ہم نے خود تیار کیا تھا گھر میں قبیلے کے بہت سے لوگ جمع ہو گئے، ان میں سے کسی نے کہا: مالک بن دخشن کہاں ہیں؟ کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے، اسے اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کہو، کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے لا إله إلا اللہ کا اقرار کیا ہے اور اس اقرار سے اس کا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔“ (صحابی) نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ہم نے تو اس لیے یہ بات کہی تھی کہ ہم اس کی توجہ اور اس کا لگاؤ منافقین کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص لا إله إلا اللہ کا اقرار کرے اور اس سے مقصود اللہ کی خوشنودی ہو تو اللہ تعالٰی نے دوزخ کی آگ ایسے شخص پر حرام کر دی ہے۔“ (راوئ حدیث) حضرت ابن شہاب کہتے ہیں: پھر میں قبیلہ بنو سالم کے ایک فرد ان کے سردار سیدنا حصین بن محمد انصاری ؓ سے محمود بن ربیع ؓ کی بیان کردہ حدیث کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ہے کہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مہمانوں کو خزیرہ پیش کیا جو خصوصی طور پر تیار کیا گیا تھا۔ یہ ایک بہترین، زود ہضم اور لذیذ پکوان ہے۔ گوشت کا باریک قیمہ کر کے دیگ میں ڈال دیا جاتا ہے، پھر اس میں پانی ڈال کر نیچے آگ جلاتے ہیں، جب قیمہ پک جاتا ہے تو اس پر جو کا آٹا ڈالتے ہیں، اس طرح وہ لذت میں بے مثال ہوتا ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کے پکوان مہمانوں کو پیش کیے جا سکتے ہیں، اس میں کسی قسم کی فضول خرچی یا اسراف نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت نضر نے کہا کہ خزیرہ آٹے کے چھان سے بنتا ہے جبکہ حریرہ دودھ سے تیا ہوتا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے امام لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں محمود بن ربیع انصاری نے خبر دی کہ عتبان بن مالک ؓ جو نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے تھے اور قبیلہ انصار کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بدر کی لڑائی میں شرکت کی تھی۔ آپ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری آنکھ کی بصارت کمزور ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں۔ برسات میں وادی جو میرے اور ان کے درمیان حائل ہے۔ بہنے لگتی ہے اورمیرے لیے ان کی مسجد میں جانا اور ان میں نماز پڑھنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے یا رسول اللہ! میری یہ خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور میرے گھر میں آپ نماز پڑھیں تاکہ میں اسی جگہ کو نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ إن شاءاللہ میں جلدی ہی ایسا کروں گا۔ حضرت عتبان ؓ نے بیان کیا کہ پھر حضور اکرم ﷺ حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہو گیا تشریف لائے اورآنحضرت ﷺ نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے آپ کو اجازت دے دی ۔ آپ بیٹھے نہیں بلکہ گھر میں داخل ہو گئے اور دریافت فرمایا کہ اپنے گھر میں کس جگہ تم پسند کرتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ آنحضرت ﷺ وہاں کھڑے ہو گئے اور (نماز کے لیے) تکبیر کہی۔ ہم نے بھی (آپ کے پیچھے) صف بنالی۔ آنحضرت ﷺ کوخزیرہ (حریرہ کی ایک قسم) کے لیے جو آپ کے لیے ہم نے بنایا تھا روک لیا۔ گھر میں قبیلہ کے بہت سے لوگ آ آ کر جمع ہو گئے۔ ان میں سے ایک صاحب نے کہا مالک بن دخشن ؓ کہا ں ہیں؟ اس پر کسی نے کہا کہ وہ تو منافق ہے اللہ اور اس کے رسول سے اسے محبت نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، یہ نہ کہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ انہوں نے اقرار کیا ہے کہ لا إله إلا اللہ یعنی اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اوراس سے ان کا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ ان صحابی نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا (یا رسول اللہ!) لیکن ہم ان کی توجہ اوران کا لگاؤ منافقین کے ساتھ ہی دیکھتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا لیکن اللہ نے دوزخ کی آگ کو اس شخص پر حرام کر دیا ہے جس نے کلمہ لا إله إلا اللہ کا اقرار کر لیا ہو اوراس سے اس کا مقصد اللہ کی خوشنودی ہو۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر میں نے حصین بن محمد انصاری سے جو بنی سالم کے ایک فرد اور ان کے سردار تھے۔ محمود کی حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے۔ دوزخ حرام ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ طبقہ مومن پر حرام ہے جس میں کافر اور منافق رہیں گے یا دوزخ میں ہمیشہ کے لیے رہنا مسلمان پر حرام ہے ۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی معقول شرعی وجہ کے بغیر کافر قرار دینا جائز نہیں ہے۔ اس صورت میں وہ کفر خود کہنے والے کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urban bin Malik (RA) : who attended the Badr battle and was from the Ansar, that he came to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have lost my eyesight and I lead my people in the prayer (as an Imam). When it rains, the valley which is between me and my people, flows with water, and then I cannot go to their mosque to lead them in the prayer. O Allah's Apostle (ﷺ) ! I wish that you could come and pray in my house so that I may take it as a praying place. The Prophet (ﷺ) said, "Allah willing, I will do that." The next morning, soon after the sun had risen, Allah's Apostle (ﷺ) came with Abu Bakr. The Prophet (ﷺ) asked for the permission to enter and I admitted him. The Prophet (ﷺ) had not sat till he had entered the house and said to me, "Where do you like me to pray in your house?" I pointed at a place in my house whereupon he stood and said, "Allahu Akbar." We lined behind him and he prayed two Rakat and finished it with Taslim. We then requested him to stay for a special meal of Khazira which we had prepared. A large number of men from the adjoining area gathered in the house. One of them said, "Where is Malik bin Ad-Dukhshun?" Another man said, "He is a hypocrite and does not love Allah and His Apostle." The Prophet (ﷺ) said, "Do not say so. Do you not think that he has said: "None has the right to be worshipped but Allah," seeking Allah's pleasure? The man said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better, but we have always seen him mixing with hypocrites and giving them advice." The Prophet (ﷺ) said, "Allah has forbidden the (Hell) Fire for those who testify that none has the right to be worshipped but Allah, seeking Allah's pleasure. "