باب: نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ کرام ؓ کی خوارک کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: What the Prophet (saws) and his Companions used to eat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5413.
سیدنا ابو حازم ست روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے سیدنا سہل بن سعد ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی میدے کی روٹی کھائی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: جب اللہ تعالٰی نے آپکو مبعوث کیا ہے آپ نے میدے کی روٹی دیکھی تک نہیں حتیٰ کہ آپ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پھر میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں چھانٹنیاں ہوتی تھیں؟سیدنا سہل نے فرمایا: زمانہ بعثت سے لے کر مرتے دم تک رسول اللہ ﷺ نے چھانٹی نہیں دیکھی۔ ابو حازم کہتے ہیں پھر میں نے سوال کیا: پھر تم چنے جوکا آٹا کیسے کھاتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم انہیں پیتے تھے پھر اسے پھونک لیا کرتے تھے اس سے جو کچھ اڑتا ہوتا اڑ جاتا جو باقی رہتا اسے پانی سے گوندھ لیتے اور اس کی روٹی پکا کر لیتے تھے۔
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانۂ بعثت سے پہلے تو شام کے علاقوں کا سفر کیا جہاں بہت خوشحالی تھی اور میدے کی روٹی بھی وہاں بکثرت دستیاب تھی اور چھانیناں بھی ہوتی تھیں لیکن بعثت کے بعد آپ مکے، طائف اور مدینے کے علاوہ اور کہیں نہیں گئے۔ آپ نے تبوک کا سفر کیا ہے جو شام کے قریب تھا۔ وہاں بھی چند دن پڑاؤ کیا اور واپس آ گئے۔ ان علاقوں میں نہ چھانیناں موجود تھیں اور نہ آٹا ہی ملتا تھا۔ بہرحال حضرت سہل رضی اللہ عنہ کے بقول جو کے آٹے میں پھونک مارتے، اس سے جو اڑنا ہوتا وہ اڑ جاتا، باقی ماندہ آٹے کو بطور ستو استعمال کرتے یا گوندھ کر روٹی پکا لیتے۔ ان حضرات کی یہی خوراک تھی۔ بہرحال آج کل بھی سادہ زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ اس میں دین و دنیا دونوں کا بھلا اور خیروبرکت ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5204
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5413
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5413
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5413
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کے تحت وہ احادیث ذکر ہوں گی جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ حضرات خود بھی سادہ مزاج تھے اور خوراک بھی سادہ استعمال کرتے تھے۔ دنیا داروں کی طرح مزے دار اشیاء اور چٹخاروں سے کوسوں دور رہتے تھے۔
سیدنا ابو حازم ست روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے سیدنا سہل بن سعد ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی میدے کی روٹی کھائی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: جب اللہ تعالٰی نے آپکو مبعوث کیا ہے آپ نے میدے کی روٹی دیکھی تک نہیں حتیٰ کہ آپ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پھر میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں چھانٹنیاں ہوتی تھیں؟سیدنا سہل نے فرمایا: زمانہ بعثت سے لے کر مرتے دم تک رسول اللہ ﷺ نے چھانٹی نہیں دیکھی۔ ابو حازم کہتے ہیں پھر میں نے سوال کیا: پھر تم چنے جوکا آٹا کیسے کھاتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم انہیں پیتے تھے پھر اسے پھونک لیا کرتے تھے اس سے جو کچھ اڑتا ہوتا اڑ جاتا جو باقی رہتا اسے پانی سے گوندھ لیتے اور اس کی روٹی پکا کر لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانۂ بعثت سے پہلے تو شام کے علاقوں کا سفر کیا جہاں بہت خوشحالی تھی اور میدے کی روٹی بھی وہاں بکثرت دستیاب تھی اور چھانیناں بھی ہوتی تھیں لیکن بعثت کے بعد آپ مکے، طائف اور مدینے کے علاوہ اور کہیں نہیں گئے۔ آپ نے تبوک کا سفر کیا ہے جو شام کے قریب تھا۔ وہاں بھی چند دن پڑاؤ کیا اور واپس آ گئے۔ ان علاقوں میں نہ چھانیناں موجود تھیں اور نہ آٹا ہی ملتا تھا۔ بہرحال حضرت سہل رضی اللہ عنہ کے بقول جو کے آٹے میں پھونک مارتے، اس سے جو اڑنا ہوتا وہ اڑ جاتا، باقی ماندہ آٹے کو بطور ستو استعمال کرتے یا گوندھ کر روٹی پکا لیتے۔ ان حضرات کی یہی خوراک تھی۔ بہرحال آج کل بھی سادہ زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ اس میں دین و دنیا دونوں کا بھلا اور خیروبرکت ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب نے بیان کیا، ان سے ابو حازم نے بیان کیا کہ میں نے سہل بن سعد ؓ سے پوچھا، کیا نبی کریم ﷺ نے کبھی میدہ کھایا تھا؟ انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو نبی بنایا اس وقت سے وفات تک آنحضرت ﷺ نے میدہ دیکھا بھی نہیں تھا۔ میں نے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں آپ کے پاس چھلنیاں تھیں۔ کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو نبی بنایا اس وقت سے آپ کی وفات تک آنحضرت ﷺ نے چھلنی دیکھی بھی نہیں۔ بیان کیا کہ میں نے پوچھا آپ لوگ پھر بغیر چھنا ہوا جو کس طرح کھاتے تھے؟ بتلایا ہم اسے پیس لیتے تھے پھر اسے پھونکتے تھے جو کچھ اڑنا ہوتا اڑ جاتا اورجو باقی رہ جاتا اسے گوندھ لیتے (اور پکا کر) کھا لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
سنت نبوی کا تقاضا یہی ہے کہ ہر مسلمان اب بھی ایسی ہی سادہ زندگی پر صابر و شاکر رہے جس میں دین و دنیا ہر دو کا بھلا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hazim (RA) : I asked Sahl bin Sad, "Did Allah's Apostle (ﷺ) ever eat white flour?" Sahl said, "Allah's Apostle (ﷺ) never saw white flour since Allah sent him as an Apostle (ﷺ) till He took him unto Him." I asked, "Did the people have (use) sieves during the lifetime of Allah's Apostle?" Sahl said, "Allah's Apostle (ﷺ) never saw (used) a sieve since Allah sent him as an Apostle (ﷺ) until He took him unto Him," I said, "How could you eat barley unsifted?" he said, "We used to grind it and then blow off its husk, and after the husk flew away, we used to prepare the dough (bake) and eat it."