باب: نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ کرام ؓ کی خوارک کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: What the Prophet (saws) and his Companions used to eat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5414.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہوا جن کے سامنے بھنی ہوئی بکری رکھی ہوئی تھی انہوں نے آپ کو دعوت دی تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا اور فرمایا: رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن کبھی جو کی روٹی بھی آپ نے پیٹ بھر کر نہ کھائی۔
تشریح:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ خیال کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی دنیوی معیشت میں کس قدر تنگی تھی، اس لیے آپ نے بھنی ہوئی بکری کھانے سے انکار کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یاد کر کے اسے کھانا گوارا نہ کیا۔ (2) چونکہ یہ دعوتِ ولیمہ نہ تھی، اس لیے اس کا قبول کرنا ضروری نہ تھا کیونکہ دعوت ولیمہ بلا وجہ رد کرنے کی ممانعت ہے۔ (فتح الباري: 681/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5205
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5414
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5414
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5414
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کے تحت وہ احادیث ذکر ہوں گی جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ حضرات خود بھی سادہ مزاج تھے اور خوراک بھی سادہ استعمال کرتے تھے۔ دنیا داروں کی طرح مزے دار اشیاء اور چٹخاروں سے کوسوں دور رہتے تھے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہوا جن کے سامنے بھنی ہوئی بکری رکھی ہوئی تھی انہوں نے آپ کو دعوت دی تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا اور فرمایا: رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن کبھی جو کی روٹی بھی آپ نے پیٹ بھر کر نہ کھائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ خیال کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی دنیوی معیشت میں کس قدر تنگی تھی، اس لیے آپ نے بھنی ہوئی بکری کھانے سے انکار کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یاد کر کے اسے کھانا گوارا نہ کیا۔ (2) چونکہ یہ دعوتِ ولیمہ نہ تھی، اس لیے اس کا قبول کرنا ضروری نہ تھا کیونکہ دعوت ولیمہ بلا وجہ رد کرنے کی ممانعت ہے۔ (فتح الباري: 681/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہیں روح بن عبادہ نے خبر دی، ان سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید بن مقبری نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ وہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ے جن کے سامنے بھنی ہوئی بکری رکھی تھی۔ انہوں نے ان کو کھانے پر بلایا لیکن انہوں نے کھانے سے انکار کر دیا اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور آپ نے کبھی جو کی روٹی بھی آسودہ ہو کرنہیں کھائی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یاد کر کے اس کا کھانا گوارا نہ کیا اورچونکہ یہ ولیمہ کی دعوت نہ تھی اس لیے اس کا قبول کرنا بھی ضروری نہ تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : that he passed by a group of people in front of whom there was a roasted sheep. They invited him but he refused to eat and said, "Allah's Apostle (ﷺ) left this world without satisfying his hunger even with barley bread."