Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: Fresh dates and dry dates)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ مریم میں ) حضرت مریم کو خطاب ” اوراپنی طرف کھجور کی شاخ کو ہلا تو تم پر تازہ تر کھجور گریں گے “ ۔
5443.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ میں ایک یہودی تھا جو کھجوروں کی تیاری تک قرض دیا کرتا تھا۔ رومہ کے راستے میں سیدنا جابر ؓ کی زمین تھی، ایک سال کھجور کے باغات پھل نہ لائے۔ کھجوریں توڑنے کے موسم میں یہودی میرے پاس آیا جبکہ میں نے کھجوروں سے کچھ نہ توڑا تھا، چنانچہ میں نے اس سے دوسرے سال تک مہلت طلب کی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ نبی ﷺ کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے اپنے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: وہ کھجوروں کے باغ میں میرے پاس تشریف لائے، نبی ﷺ نے یہودی سے گفتگو کی تو وہ کہنے لگا: ابو القاسم! میں اسے مزید مہلت نہیں دون گا۔ جب نبی ﷺ نے اس صورت حال کو دیکھا تو وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور باغ کا چکر لگایا پھر یہودی کے پاس آ کر اس سے بات چیت کی تو اس نے پھر انکار کر دیا۔ اس دوران میں اٹھا اور تھوڑی سی تازہ کھجوریں لا کر نبی ﷺ کے آگے رکھ دیں۔ آپ ﷺ نے انہیں تناول فرمایا: اس کے بعد مجھے کہنے لگے: ”اے جابر! تمہاری جھونپڑی کہاں ہے؟“ میں نے اس کی نشاندہی کی تو فرمایا: ”وہاں میرے لیے ایک بستر بچھا دو۔“ میں نے وہاں ایک بستر لگا دیا۔ آپ ﷺ وہاں گئے اور محواستراحت ہوئے، جب بیدار ہوئے تو میں نے پھر مٹھی پھر کھجوریں آپ کو پیش کیں، آپ نے ان میں سے کچھ کھائیں پھر کھڑے ہوئے اور یہودی سے گفتگو کی، لیکن اس پھر انکار کر دیا، آپ دوسری مرتبہ تازہ کھجوروں کے باغ میں کھڑے ہوئے پھر فرمایا: ”اے جابر! ان کو خوشوں سے الگ کر کے اپنا قرض ادا کرو۔“ چنانچہ آپ باڑے کھڑے ہوگئے اور میں نے باغ میں سے اتنی کھجوریں توڑ لیں جب سے میں نے قرض ادا کر دیا اور اس میں سے کچھ کھجوریں بچ گئیں۔ پھر میں وہاں سے روانہ ہوا اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ بشارت دی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔“ (امام بخاری ؓ نے فرمایا: ) عرش اور عریش عمارت کی چھت کو کہتے ہیں، سیدنا ابن عباس ؓ نے فرمایا: معروشات سے مراد انگور وغیرہ کی چھتیں ہیں، اور عروشھا سے مراد بھی چھتیں ہیں محمد بن اسماعیل (امام بخاری ؓ ) نے کہا: اس حدیث میں فخلا کا لفظ میرے نزدیک مضبوط نہیں بلکہ میرے نزدیک وشبہ یہ لفظ نخلاً ہے یعنی وہ باغ ایک سال کھجوروں کا پھل لانے سے بیٹھ گیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث کی وضاحت ہم کسی دوسرے مقام پر کر چکے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے تمام کھجوریں توڑ لیں اور ان کے ڈھیر لگا دیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’وزن کر کے یہودی کا قرض ادا کرو۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی برکت سے سارا قرض اتر گیا اور بہت سی کھجوریں بچ گئیں۔ (2) اس حدیث میں تازہ اور خشک کھجوروں کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5234
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5443
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5443
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5443
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
آیت کریمہ میں تازہ کھجور کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ کا حوالہ دیا ہے۔ سیدہ مریم علیہا السلام حالت زچگی میں کھجور کے نیچے غمگین اور پریشان بیٹھی تھیں اور آپ کو زچگی کی تکلیف بھی تھی، ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلایا اور تازہ کھجوروں سے ان کی وضافت فرمائی، نیز اطباء نے لکھا ہے کہ زچگی کے دوران میں تازہ کھجور کا استعمال انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ مریم میں ) حضرت مریم کو خطاب ” اوراپنی طرف کھجور کی شاخ کو ہلا تو تم پر تازہ تر کھجور گریں گے “ ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ میں ایک یہودی تھا جو کھجوروں کی تیاری تک قرض دیا کرتا تھا۔ رومہ کے راستے میں سیدنا جابر ؓ کی زمین تھی، ایک سال کھجور کے باغات پھل نہ لائے۔ کھجوریں توڑنے کے موسم میں یہودی میرے پاس آیا جبکہ میں نے کھجوروں سے کچھ نہ توڑا تھا، چنانچہ میں نے اس سے دوسرے سال تک مہلت طلب کی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ نبی ﷺ کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے اپنے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: وہ کھجوروں کے باغ میں میرے پاس تشریف لائے، نبی ﷺ نے یہودی سے گفتگو کی تو وہ کہنے لگا: ابو القاسم! میں اسے مزید مہلت نہیں دون گا۔ جب نبی ﷺ نے اس صورت حال کو دیکھا تو وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور باغ کا چکر لگایا پھر یہودی کے پاس آ کر اس سے بات چیت کی تو اس نے پھر انکار کر دیا۔ اس دوران میں اٹھا اور تھوڑی سی تازہ کھجوریں لا کر نبی ﷺ کے آگے رکھ دیں۔ آپ ﷺ نے انہیں تناول فرمایا: اس کے بعد مجھے کہنے لگے: ”اے جابر! تمہاری جھونپڑی کہاں ہے؟“ میں نے اس کی نشاندہی کی تو فرمایا: ”وہاں میرے لیے ایک بستر بچھا دو۔“ میں نے وہاں ایک بستر لگا دیا۔ آپ ﷺ وہاں گئے اور محواستراحت ہوئے، جب بیدار ہوئے تو میں نے پھر مٹھی پھر کھجوریں آپ کو پیش کیں، آپ نے ان میں سے کچھ کھائیں پھر کھڑے ہوئے اور یہودی سے گفتگو کی، لیکن اس پھر انکار کر دیا، آپ دوسری مرتبہ تازہ کھجوروں کے باغ میں کھڑے ہوئے پھر فرمایا: ”اے جابر! ان کو خوشوں سے الگ کر کے اپنا قرض ادا کرو۔“ چنانچہ آپ باڑے کھڑے ہوگئے اور میں نے باغ میں سے اتنی کھجوریں توڑ لیں جب سے میں نے قرض ادا کر دیا اور اس میں سے کچھ کھجوریں بچ گئیں۔ پھر میں وہاں سے روانہ ہوا اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ بشارت دی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔“ (امام بخاری ؓ نے فرمایا: ) عرش اور عریش عمارت کی چھت کو کہتے ہیں، سیدنا ابن عباس ؓ نے فرمایا: معروشات سے مراد انگور وغیرہ کی چھتیں ہیں، اور عروشھا سے مراد بھی چھتیں ہیں محمد بن اسماعیل (امام بخاری ؓ ) نے کہا: اس حدیث میں فخلا کا لفظ میرے نزدیک مضبوط نہیں بلکہ میرے نزدیک وشبہ یہ لفظ نخلاً ہے یعنی وہ باغ ایک سال کھجوروں کا پھل لانے سے بیٹھ گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کی وضاحت ہم کسی دوسرے مقام پر کر چکے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے تمام کھجوریں توڑ لیں اور ان کے ڈھیر لگا دیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’وزن کر کے یہودی کا قرض ادا کرو۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی برکت سے سارا قرض اتر گیا اور بہت سی کھجوریں بچ گئیں۔ (2) اس حدیث میں تازہ اور خشک کھجوروں کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”(اے مریم!) تم اپنی طرف کھجور کی شاخ کو بلاؤ تو تم پر تازہ کھجوریں گریں گی۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو غسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو حازم نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی ربیعہ نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا اور وہ مجھے قرض اس شرط پر دیا کرتا تھا کہ میری کھجوریں تیار ہونے کے وقت لے لے گا۔ حضرت جابر ؓ کی ایک زمین بئر رومہ کے راستہ میں تھی۔ ایک سال کھجور کے باغ میں پھل نہیں آئے۔ پھل چنے جانے کا جب وقت آیا تو وہ یہودی میرے پاس آیا لیکن میں نے تو باغ سے کچھ بھی نہیں توڑا تھا۔ اس لیے میں آئندہ سال کے لیے مہلت مانگنے لگا لیکن اس نے مہلت دینے سے انکار کیا۔ اس کی خبر جب رسول اللہ ﷺ کو دی گئی تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ چلو، یہودی سے جابر ؓ کے لیے ہم مہلت مانگیں گے۔ چنانچہ یہ سب میرے باغ میں تشریف لائے۔ آنحضرت ﷺ اس یہودی سے گفتگو فرماتے رہے لیکن وہ یہی کہتا رہا کہ ابو القاسم میں مہلت نہیں دے سکتا۔ جب آنحضرت ﷺ نے یہ دیکھا تو آپ کھڑے ہو گئے اورکھجور کے باغ میں چاروں طرف پھرے پھر تشریف لائے اوراس سے گفتگو کی لیکن اس نے اب بھی انکار کیا پھر میں کھڑا ہوا اور تھوڑی سی تازہ کھجور لا کر آنحضرت ﷺ کے سامنے رکھی۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو تناول فرمایا پھر فرمایا جابر! تمہاری جھونپڑی کہاں ہے؟ میں نے آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں میرے لیے کچھ فرش بچھا دو۔ میں نے بچھا دیا تو آپ داخل ہوئے اور آرام فرمایا پھر بیدار ہوئے تو میں ایک مٹھی اورکھجور لایا۔ آنحضرت ﷺ نے اس میں سے بھی تناول فرمایا پھر آپ کھڑے ہوئے اور یہودی سے گفتگو فرمائی۔ اس نے اب بھی انکار کیا۔ آنحضرت ﷺ دوبارہ باغ میں کھڑے ہوئے پھر فرمایا، جابر! جاؤ اب پھل توڑو اور قرض ادا کر دو۔ آپ کھجوروں کے توڑ ے جانے کی جگہ کھڑے ہوگئے اور میں نے باغ میں سے اتنی کھجوریں توڑ لیں جن سے میں نے قرض ادا کر دیا اور اس میں سے کھجوریں بچ بھی گئی پھر میں وہاں سے نکلا اورحضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خوشخبری سنائی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہو ں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ حضرت ابو عبداللہ امام بخاری ؓ نے کہا کہ اس حدیث میں جو عروش کا لفظ ہے۔ عروش ”اور عریش“ عمارت کی چھت کو کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ (سورۃ انعام میں لفظ) ”معروشات“ سے مراد انگور وغیرہ کی ٹٹیاں ہیں۔ دوسری آیت (سورۃ بقرہ) ''خاویة علی عروشھا'' یعنی اپنی چھتوں پر گرے ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں خشک وتر کھجوروں کا ذکر ہے۔ یہی وجہ مطابقت ہے آپ کی دعا کی برکت سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قرض ادا ہو گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA) : There was a Jew in Madinah who used to lend me money up to the season of plucking dates. (Jabir had a piece of land which was on the way to Ruma). That year the land was not promising, so the payment of the debt was delayed one year. The Jew came to me at the time of plucking, but gathered nothing from my land. I asked him to give me one year respite, but he refused. This news reached the Prophet (ﷺ) whereupon he said to his companions, "Let us go and ask the Jew for respite for Jabir." All of them came to me in my garden, and the Prophet (ﷺ) started speaking to the Jew, but he Jew said, "O Abu Qasim! I will not grant him respite." When the Prophet (ﷺ) saw the Jew's attitude, he stood up and walked all around the garden and came again and talked to the Jew, but the Jew refused his request. I got up and brought some ripe fresh dates and put it in front of the Prophet. He ate and then said to me, "Where is your hut, O Jabir?" I informed him, and he said, "Spread out a bed for me in it." I spread out a bed, and he entered and slept. When he woke up, I brought some dates to him again and he ate of it and then got up and talked to the Jew again, but the Jew again refused his request. Then the Prophet (ﷺ) got up for the second time amidst the palm trees loaded with fresh dates, and said, "O Jabir! Pluck dates to repay your debt." The Jew remained with me while I was plucking the dates, till I paid him all his right, yet there remained extra quantity of dates. So I went out and proceeded till I reached the Prophet (ﷺ) and informed him of the good news, whereupon he said, "I testify that I am Allah's Apostle."