باب: اللہ تعالیٰ کاارشاد پھر جب تم کھانا کھا چکو تو دعوت والے کے گھر سے اٹھ کر چلے جاؤ ۔
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: "And when you have taken your meal disperse.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5466.
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نزول حجاب کے متعلق لوگوں سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ سیدنا ابی بن لعب ؓ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ہوا یوں کہ سیدنا زینب بنت حجش ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی شادی کا موقع تھا آپ نے ان سے مدینہ طیبہ میں نکاح کیا تھا۔ دن چڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں کو کھانے کی دعوت دی۔ رسول اللہ ﷺ وہیں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ بھی بیٹھے تھے اس وقت دوسرے لوگ کھانے سے فارغ ہو کر جا چکے تھے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ اٹھنے اور چلنے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ چل رہا تھا۔ جب آپ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے پر پہنچے تو خیال آیا کہ شاید لوگ چلے گئے ہوں گے آپ وہیں سے واپس آئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا تو دیکھا کہ لوگ اب بھی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں، چنانچہ آپ پھر واپس ہوئے اور میں بھی آپ کے ہمراہ دوبارہ واپس آ گیا۔ جب دوسری مرتبہ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے تک پہنچے تو واپس آ گئے اور میں آپ کے ساتھ لوٹ آیا۔ اب وہ لوگ جا چکے تھے اس کے بعد آپ ﷺ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکایا اور آیت حجاب نازل ہوئی۔
تشریح:
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کھانے کے آداب میں سے ایک ادب بیان کیا ہے کہ کھانے سے فراغت کے بعد اٹھ کر چلے جانا چاہیے، وہاں باتوں میں مصروف رہنا، اہل خانہ کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ اگر وہ خود روکنا چاہیں تو اور بات ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5257
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5466
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5466
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5466
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نزول حجاب کے متعلق لوگوں سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ سیدنا ابی بن لعب ؓ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ہوا یوں کہ سیدنا زینب بنت حجش ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی شادی کا موقع تھا آپ نے ان سے مدینہ طیبہ میں نکاح کیا تھا۔ دن چڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں کو کھانے کی دعوت دی۔ رسول اللہ ﷺ وہیں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ بھی بیٹھے تھے اس وقت دوسرے لوگ کھانے سے فارغ ہو کر جا چکے تھے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ اٹھنے اور چلنے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ چل رہا تھا۔ جب آپ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے پر پہنچے تو خیال آیا کہ شاید لوگ چلے گئے ہوں گے آپ وہیں سے واپس آئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا تو دیکھا کہ لوگ اب بھی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں، چنانچہ آپ پھر واپس ہوئے اور میں بھی آپ کے ہمراہ دوبارہ واپس آ گیا۔ جب دوسری مرتبہ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے تک پہنچے تو واپس آ گئے اور میں آپ کے ساتھ لوٹ آیا۔ اب وہ لوگ جا چکے تھے اس کے بعد آپ ﷺ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکایا اور آیت حجاب نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کھانے کے آداب میں سے ایک ادب بیان کیا ہے کہ کھانے سے فراغت کے بعد اٹھ کر چلے جانا چاہیے، وہاں باتوں میں مصروف رہنا، اہل خانہ کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ اگر وہ خود روکنا چاہیں تو اور بات ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ میں پردہ کے حکم کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں۔ ابی بن کعب ؓ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ زینب بنت جحش ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی شادی کا موقع تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے نکاح مدینہ منورہ میں کیا تھا۔ دن چڑھنے کے بعد حضور اکرم ﷺ نے لوگوں کی کھانے کی دعوت کی تھی۔ آپ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بعض اور صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت تک دوسرے لوگ (کھانے سے فارغ ہو کر) جا چکے تھے۔ آخر آپ بھی کھڑے ہو گئے اورچلتے رہے۔ میں بھی آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ آپ عائشہ ؓ کے حجرے پر پہنچے پھر آپ نے خیال کیا کہ وہ لوگ (بھی جو کھانے کے بعد گھر بیٹھے رہ گئے تھے) جا چکے ہوں گے (اس لیے آپ واپس تشریف لائے) میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا لیکن وہ لوگ اب بھی اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ پھرواپس آ گئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ دوبارہ واپس آیا۔ آپ عائشہ ؓ کے حجرہ پر پہنچے پھر آپ وہاں سے واپس ہوئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ اب وہ لوگ جا چکے تھے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اپنے اور میرے درمیان پردہ لٹکایا اورپردہ کی آیت نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
سورۃ احزاب کا بیشتر حصہ ایسے ہی آداب سے متعلق نازل ہوا ہے جن کا ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو یہاں اس غرض سے لائے ہیں کہ اس میں نقل کردہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے کھانے کا ادب بیان فرمایا کہ جب کھانے سے فارغ ہوں تو اٹھ چلا جانا چاہیئے، وہیں جمے رہنا اور صاحب خانہ کو ایذا دینا گناہ ہے۔ (فتح الباری)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : I know (about) the Hijab (the order of veiling of women) more than anybody else. Ubai bin Ka'b (RA) used to ask me about it. Allah's Apostle (ﷺ) became the bridegroom of Zainab bint Jahsh whom he married at Medina. After the sun had risen high in the sky, the Prophet (ﷺ) invited the people to a meal. Allah's Apostle (ﷺ) remained sitting and some people remained sitting with him after the other guests had left. Then Allah's Apostle (ﷺ) got up and went away, and I too, followed him till he reached the door of 'Aisha's room. Then he thought that the people must have left the place by then, so he returned and I also returned with him. Behold, the people were still sitting at their places. So he went back again for the second time, and I went along with him too. When we reached the door of 'Aisha's room, he returned and I also returned with him to see that the people had left. Thereupon the Prophet (ﷺ) hung a curtain between me and him and the Verse regarding the order for (veiling of women) Hijab was revealed.