Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: About hunting with a bow)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور امام حسن بصری اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ جب کسی شخص نے بسم اللہ کہہ کر تیریا تلوار سے شکار کومارا اور اس کی وجہ سے شکار کا ہاتھ یا پاؤں جدا ہوگیا تو جو حصہ جدا ہو گیا وہ نہ کھاؤ اور باقی کھالو اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ جب شکار کی گردن پر یا اس کے درمیان میں مار و تو کھا سکتے ہو اور اعمش نے زید سے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی آل کے ایک شخص سے ایک نیل گائے بھڑک گئی تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ جہاں ممکن ہوسکے وہیں اسے زخم لگائیں ( اور کہاکہ ) گورخر کا جو حصہ ( مارتے وقت ) کٹ کرگر گیاہو اسے تم چھوڑ دو اور باقی کھا سکتے ہو ۔اس لیے کہ وہ کٹ کر گرنے والا حصہ زندہ جانورسے جدا کردیا گیااوردوسری حدیث میں ہے کہ جو عضو زندہ جانور سے کاٹ لیا جائے وہ عضو مردار ہے تو اس کا کھانا بھی حرام ہے۔
5478.
سیدنا ابو ثعلبہ خشنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے نبی! ہم اہل کتاب کے گاؤں میں رہتے ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا پی سکتے ہیں؟ اور ہم ایسی زمین میں رہتے ہیں جہاں شکار بکثرت ہوتا ہے وہاں میں اپنے تیر کمان سے شکار کرتا ہوں اور میں اپنے کتے سے جو بھی سکھایا ہوا ہوتا ہے ان میں سے کس کا کھانا میرے لیے جائز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو تو نے اہل کتاب کے برتنوں کا ذکر کیا ہے؟ تو اگر ان کے (برتنوں کے) علاوہ تمہیں دوسرے برتن دستیاب ہوں تو ان کے برتنوں میں مت کھاؤ پیو، اگر تمہیں کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو ان کے برتن دھو کر ان میں کھا پی سکتے ہو۔ اور جو شکار تم اپنے تیر کمان سے کرو اگر تم نے تیر چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو اس شکار کو کھا سکتے ہو اور جو شکار تم نے غیر کے سکھائے کتے سے کیا ہو اگر تمہیں اسے ذبح کرنے کا موقع ملے تو اسے ذبح کر کے کھا سکتے ہو۔“
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم اہل کتاب کے پڑوس میں رہتے ہیں، وہ اپنی ہانڈیوں میں خنزیر کا گوشت پکاتے ہیں اور اپنے برتنوں میں شراب پیتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم ان کے علاوہ برتن نہ پاؤ تو انہیں پانی سے اچھی طرح دھو کر استعمال کر لو۔‘‘(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3839) تیز سے شکار کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیر پھینکتے وقت بسم اللہ پڑھ لو، پھر اگر جانور مرا ہوا بھی پاؤ تو اسے کھا لو لیکن اگر پانی میں گرا ہوا پاؤ تو نہ کھاؤ کیونکہ تمہیں علم نہیں کہ اسے پانی نے قتل کیا ہے یا تمہارے تیر نے اسے مارا ہے۔‘‘(صحیح مسلم، الصید والذبائح ۔۔۔، حدیث: 4982 (1929)) (2) اس سے معلوم ہوا کہ تیر مارتے وقت بسم اللہ پڑھنی چاہیے، اس کے بغیر اگر تیر مارا ہے تو زندہ پانے کی صورت میں اسے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کر لیا جائے بصورت دیگر اس کا کھانا جائز نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5268
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5478
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5478
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5478
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کے تحت مذکورہ آثار اس لیے بیان کیے ہیں کہ شکار کو قوس کے تیر سے مار ڈالنا ممکن ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ تیر لگنے سے اس کا بازو یا ٹانگ ٹوٹ کر جسم سے الگ ہو جائے، اگر ایسا ہو جائے تو کٹ کر گرنے والا حصہ نہ کھایا جائے کیونکہ وہ زندہ جانور سے علیحدہ کیا گیا ہے جو شرعاً حرام ہے۔ اس کے متعلق حدیث میں صراحت ہے کہ جو عضو زندہ جانور سے کاٹ لیا جائے وہ عضو مردار ہے۔ (مسند احمد: 5/218) تو اس کا کھانا بھی حرام ہے۔ آل عبداللہ کے اثر کی تفصیل اس طرح ہے کہ زید بن وہب کہتے ہیں: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آدمی کے بارے میں سوال ہوا جس نے جنگلی گدھے کو تیر مارا جس سے اس کی ٹانگ الگ ہو گئی تو انہوں نے فرمایا: جو عضو علیحدہ ہو جائے اسے چھوڑ دو اور باقی زندہ پر بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرو اور اسے کھا سکتے ہو۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اثر میں عبداللہ سے مراد حضرت ابن مسعود ہیں اور گدھے سے مراد جنگلی گدھا، یعنی نیل گائے ہے۔ (فتح الباری: 9/749)
اور امام حسن بصری اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ جب کسی شخص نے بسم اللہ کہہ کر تیریا تلوار سے شکار کومارا اور اس کی وجہ سے شکار کا ہاتھ یا پاؤں جدا ہوگیا تو جو حصہ جدا ہو گیا وہ نہ کھاؤ اور باقی کھالو اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ جب شکار کی گردن پر یا اس کے درمیان میں مار و تو کھا سکتے ہو اور اعمش نے زید سے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی آل کے ایک شخص سے ایک نیل گائے بھڑک گئی تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ جہاں ممکن ہوسکے وہیں اسے زخم لگائیں ( اور کہاکہ ) گورخر کا جو حصہ ( مارتے وقت ) کٹ کرگر گیاہو اسے تم چھوڑ دو اور باقی کھا سکتے ہو ۔اس لیے کہ وہ کٹ کر گرنے والا حصہ زندہ جانورسے جدا کردیا گیااوردوسری حدیث میں ہے کہ جو عضو زندہ جانور سے کاٹ لیا جائے وہ عضو مردار ہے تو اس کا کھانا بھی حرام ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ثعلبہ خشنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے نبی! ہم اہل کتاب کے گاؤں میں رہتے ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا پی سکتے ہیں؟ اور ہم ایسی زمین میں رہتے ہیں جہاں شکار بکثرت ہوتا ہے وہاں میں اپنے تیر کمان سے شکار کرتا ہوں اور میں اپنے کتے سے جو بھی سکھایا ہوا ہوتا ہے ان میں سے کس کا کھانا میرے لیے جائز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو تو نے اہل کتاب کے برتنوں کا ذکر کیا ہے؟ تو اگر ان کے (برتنوں کے) علاوہ تمہیں دوسرے برتن دستیاب ہوں تو ان کے برتنوں میں مت کھاؤ پیو، اگر تمہیں کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو ان کے برتن دھو کر ان میں کھا پی سکتے ہو۔ اور جو شکار تم اپنے تیر کمان سے کرو اگر تم نے تیر چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو اس شکار کو کھا سکتے ہو اور جو شکار تم نے غیر کے سکھائے کتے سے کیا ہو اگر تمہیں اسے ذبح کرنے کا موقع ملے تو اسے ذبح کر کے کھا سکتے ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم اہل کتاب کے پڑوس میں رہتے ہیں، وہ اپنی ہانڈیوں میں خنزیر کا گوشت پکاتے ہیں اور اپنے برتنوں میں شراب پیتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم ان کے علاوہ برتن نہ پاؤ تو انہیں پانی سے اچھی طرح دھو کر استعمال کر لو۔‘‘(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3839) تیز سے شکار کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیر پھینکتے وقت بسم اللہ پڑھ لو، پھر اگر جانور مرا ہوا بھی پاؤ تو اسے کھا لو لیکن اگر پانی میں گرا ہوا پاؤ تو نہ کھاؤ کیونکہ تمہیں علم نہیں کہ اسے پانی نے قتل کیا ہے یا تمہارے تیر نے اسے مارا ہے۔‘‘(صحیح مسلم، الصید والذبائح ۔۔۔، حدیث: 4982 (1929)) (2) اس سے معلوم ہوا کہ تیر مارتے وقت بسم اللہ پڑھنی چاہیے، اس کے بغیر اگر تیر مارا ہے تو زندہ پانے کی صورت میں اسے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کر لیا جائے بصورت دیگر اس کا کھانا جائز نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
امام حسن بصری اور امام ابراہیم نخعی نے کہا: جب کوئی شکار کرے اور اس شکار کا پاؤں یا ہاتھ الگ ہوجائے تو جو حصہ جدا ہوا ہے وہ نہ کھائے اور باقی چکار کھالے، نیز ابراہیم نخعی نے کہا: جب تم نے شکار کی گردن یا اس کے درمیان تیر مارا تو اسے کھا سکتے ہواعمش نے حضرت زید سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ کی اولاد میں سے کسی کے سامنے ایک (جنگلی) گدھا بھاگ نکلا تو انہوں نے کہا: جہاں ممکن ہو اس گدھے کو زخم لگائیں، اس کے بعد جو حصہ کٹ کر گر جائے اسے چھوڑ دو اور باقی ماندہ کھا سکتے ہو
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یزید مقبری نے بیان کیا، کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ربیعہ بن یزید دمشقی نے خبر دی، انہیں ابو ادریس عائذ اللہ خولانی نے، انہیں حضرت ابو ثعلبہ خشنی ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! ہم اہل کتاب کے گاؤں میں رہتے ہیں توکیا ہم ان کے برتن میں کھا سکتے ہیں؟ اور ہم ایسی زمین میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ہوتا ہے۔ میں تیر کمان سے بھی شکار کرتا ہوں اور اپنے اس کتے سے بھی جو سکھایا ہوا نہیں ہے اور اس کتے سے بھی جو سکھایا ہوا ہے تو اس میں سے کس کا کھانا میرے لیے جائز ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے جو اہل کتاب کے برتن کا ذکر کیا ہے تو اگر تمہیں اس کے سوا کوئی اور برتن مل سکے تو اس میں نہ کھاؤ لیکن تمہیں کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو ان کے برتن کو خوب دھو کر اس میں کھا سکتے ہو اور جو شکار تم اپنی تیر کمان سے کرو اور (تیر پھینکتے وقت) اللہ کا نام لیا ہو تو (اس کا شکار) کھا سکتے ہو اور جو شکار تم نے غیر سدھائے ہوئے کتے سے کیا ہو اور شکار خود ذبح کیا ہو تو اسے کھا سکتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
اگر بغیر سکھلایا ہوا کتا کوئی شکار تمہارے پاس لائے بشرطیکہ وہ شکار زندہ تم کو مل جائے اور تم اسے خود ذبح کرو تو وہ تمہارے لیے حلال ہے ورنہ حلال نہیں اور غیر مسلموں کے برتنوں میں اگر کھانا ہی پڑے تو ان کو خوب دھو کر پاک صاف کر لینا ضروری ہے تب وہ برتن مسلمانوں کے استعمال کے لیے جائز ہو سکتا ہے ورنہ ان کے برتنوں کا کام میں لانا جائز نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Tha'laba Al-Khushani (RA) : I said, "O Allah's Prophet! We are living in a land ruled by the people of the Scripture; Can we take our meals in their utensils? In that land there is plenty of game and I hunt the game with my bow and with my hound that is not trained and with my trained hound. Then what is lawful for me to eat?" He said, "As for what you have mentioned about the people of the Scripture, if you can get utensils other than theirs, do not eat out of theirs, but if you cannot get other than theirs, wash their utensils and eat out of it. If you hunt an animal with your bow after mentioning Allah's Name, eat of it. and if you hunt something with your trained hound after mentioning Allah's Name, eat of it, and if you hunt something with your untrained hound (and get it before it dies) and slaughter it, eat of it."