Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: What have been said about hunting)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5488.
سیدنا ابو ثعلبہ خشنی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! ہم لوگ اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں اور ان کے برتنوں میں کھاتے پیتے ہیں اور وہاں شکار بہت ہوتا ہے، میں اپنے تیر کمان اور سدھائے ہوئے کتوں سے شکار کرتا ہوں اور اس کتے کو بھی شکار میں استعمال کرتا ہوں جو سدھایا ہوا نہیں ہوتا آپ میری رہنمائی کریں کہ اس میں میرے لیے کیا حلال ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے جو یہ کہا ہے ”کہ تم اہل کتاب کی سر زمین میں رہتے ہو اور ان کے برتنوں میں کھاتے پیتے ہو، اگر تمہیں ان کے برتن دستیاب ہوں تو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ۔ اگر ان کے علاوہ دوسرے برتن نہ ملیں تو انہیں خوب دھو کر اپنے استعمال میں لا سکتے ہو۔ اور تم نے جو شکار کی سر زمین کا ذکر کیا ہے تو جو شکار تم اپنے تیر سے مارو اور تیر چلاتے وقت اگر تم نے اللہ کا نام لیا تھا تو اس شکار کو کھا سکتے ہو اور جو شکار تم نے اپنے سدھائے ہوئے کتے سے کہا ہو اور چھوڑتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا تھا وہ شکار کھاؤ اور جو شکار بغیر سدھائے کتے سے کہا ہو اگر اس شکار کو خود ذبح کر سکو کو خود ذبح کر سکو تو اسے بھی کھاؤ۔“
تشریح:
(1) حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بڑے مال دار خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور خوش حال تھے جبکہ حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ مفلس اور غریب انسان تھے۔ ان دونوں حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انہیں شکار کی اجازت دی بلکہ شکار کے سلسلے میں ان کی مناسب رہنمائی بھی فرمائی۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ جس کا ذریعۂ معاش شکار نہیں بلکہ وہ تفریح طبع کے طور پر شکار کرتا ہے جیسا کہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کرتے تھے تو ایسا کرنا جائز اور مباح ہے۔ اگر کسی کا ذریعۂ معاش شکار ہو اور گزر اوقات کے لیے دوسرا کوئی ذریعہ نہ ہو تو اسے بھی یہ مشغلہ اختیار کرنے کی اجازت ہے جیسا کہ اس حدیث سے حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے متعلق معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال کھیل کود کے طور پر شکار کے پیچھے پڑا رہنا انتہائی معیوب ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5277
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5488
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5488
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5488
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
سیدنا ابو ثعلبہ خشنی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! ہم لوگ اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں اور ان کے برتنوں میں کھاتے پیتے ہیں اور وہاں شکار بہت ہوتا ہے، میں اپنے تیر کمان اور سدھائے ہوئے کتوں سے شکار کرتا ہوں اور اس کتے کو بھی شکار میں استعمال کرتا ہوں جو سدھایا ہوا نہیں ہوتا آپ میری رہنمائی کریں کہ اس میں میرے لیے کیا حلال ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے جو یہ کہا ہے ”کہ تم اہل کتاب کی سر زمین میں رہتے ہو اور ان کے برتنوں میں کھاتے پیتے ہو، اگر تمہیں ان کے برتن دستیاب ہوں تو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ۔ اگر ان کے علاوہ دوسرے برتن نہ ملیں تو انہیں خوب دھو کر اپنے استعمال میں لا سکتے ہو۔ اور تم نے جو شکار کی سر زمین کا ذکر کیا ہے تو جو شکار تم اپنے تیر سے مارو اور تیر چلاتے وقت اگر تم نے اللہ کا نام لیا تھا تو اس شکار کو کھا سکتے ہو اور جو شکار تم نے اپنے سدھائے ہوئے کتے سے کہا ہو اور چھوڑتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا تھا وہ شکار کھاؤ اور جو شکار بغیر سدھائے کتے سے کہا ہو اگر اس شکار کو خود ذبح کر سکو کو خود ذبح کر سکو تو اسے بھی کھاؤ۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بڑے مال دار خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور خوش حال تھے جبکہ حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ مفلس اور غریب انسان تھے۔ ان دونوں حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انہیں شکار کی اجازت دی بلکہ شکار کے سلسلے میں ان کی مناسب رہنمائی بھی فرمائی۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ جس کا ذریعۂ معاش شکار نہیں بلکہ وہ تفریح طبع کے طور پر شکار کرتا ہے جیسا کہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کرتے تھے تو ایسا کرنا جائز اور مباح ہے۔ اگر کسی کا ذریعۂ معاش شکار ہو اور گزر اوقات کے لیے دوسرا کوئی ذریعہ نہ ہو تو اسے بھی یہ مشغلہ اختیار کرنے کی اجازت ہے جیسا کہ اس حدیث سے حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے متعلق معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال کھیل کود کے طور پر شکار کے پیچھے پڑا رہنا انتہائی معیوب ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو عاصم نبیل نے بیان کیا، ان سے حیوہ بن شریح نے (دوسری سند) اور امام بخاری ؒ نے کہا، مجھ سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن المبارک نے بیان کیا، ان سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا کہ میں نے ربیعہ بن یزید دمشقی سے سنا، کہا کہ مجھے ابو ادریس عائذ اللہ نے خبر دی، کہا کہ میں حضرت ابو ثعلبہ خشنی ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں اور ان کے برتن میں کھاتے ہیں اور ہم شکار کی زمین میں رہتے ہیں، جہاں میں اپنے تیر سے شکار کرتا ہوں اور اپنے سدھائے ہوئے کتے سے تو اس میں سے کیا چیز ہمارے لیے جائز ہے؟ آپ نے فرمایا تم نے جو یہ کہا ہے کہ تم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہو اور ان کے برتن میں بھی کھاتے ہو تو اگر تمہیں ان کے برتنوں کے سوا دوسرے برتن مل جائيں تو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ لیکن ان کے برتنوں کے سوا دوسرے برتن نہ ملیں تو انہیں دھو کر پھر ان میں کھاؤ اور تم نے شکار کی سرزمین کا ذکر کیا ہے تو جو شکار تم اپنے تیر سے مارو اور تیر چلاتے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے سدھائے ہوئے کتے سے کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے بلا سدھائے کتے سے کیا ہو اور اسے ذبح بھی خود ہی کیا ہو تو اسے بھی کھاؤ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Tha'laba Al-Khushani (RA) : I came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We are living in the land of the people of the Scripture and we take our meals in their utensils, and in the land there is game and I hunt with my bow and trained or untrained hounds; please tell me what is lawful for us of that." He said, "As for your saying that you are living in the land of the people of the Scripture and that you eat in their utensils, if you can get utensils other than theirs, do not eat in their utensils, but if you do not find (other than theirs), then wash their utensils and eat in them. As for your saying that you are in the land of game, if you hung something with your bow, and have mentioned Allah's Name while hunting, then you can eat (the game). And if you hunt something with your trained hound, and have mentioned Allah's Name on sending it for hunting then you can eat (the game). But if you hunt something with your untrained hound and you were able to slaughter it before its death, you can eat of it."