Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: The meat of chickens)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5518.
سیدنا زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے جبکہ ہمارے اور جرم کے اس قبیلے کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ تھا۔ ہمارے سامنے ایک کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغی کا گوشت تھا۔ حاضرین میں سے ایک شخص سرخ رنگ کا بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اس کھانے کے قریب نہ آیا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسے کہا کہ تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے، اس نے کہا میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا تھا، اسی وقت سے مجھے اس سے گھن آنے لگی ہے۔ میں نے قسم اٹھائی ہے کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ تم شریک ہو جاؤ میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث بیان کرتا ہوں، وہ یہ کہ میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ہمراہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں آپ کے سامنے آیا تو آپ اس پر خفا تھے اور آپ صدقے کے اونٹ تقسیم کر رہے تھے، اسی وقت ہم نے آپ ﷺ سے سواری کے لیے اونٹوں کا سوال کیا تو آپ نے قسم اٹھائی کہ آپ ہمیں سواریوں کے لیے اونٹ نہیں دیں گے۔ آپ نے فرمایا: اس وقت پاس تمہارے لیے سواری کا کوئی جانور نہیں ہے پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس مال غنیمت کے اونٹ کاٹے گئے تو آپ نے فرمایا: اشعری کہاں ہیں؟ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ہمیں سفید کوہانوں والے پانچ اونٹ دیے۔ تھوڑی دیر تک تو ہم خاموش رہے، پھر میں اپنے ساتھیوں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بھول گئے ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر ہم نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی قسم سے غافل رکھا تو ہمیں کبھی فلاح نصیب نہ ہوگی چنانچہ ہم آپ کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! ہم نےآپ سے سواری کے اونٹ طلب کیے تھے تو آپ نے ہمیں سواری کے لیے کوئی جانور نہ دینے کی قسم اٹھائی تھی، ہمارے خیال کے مطابق آپ اپنی قسم بھول گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی ہی نے تمہیں سواری فراہم کی ہے۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ نے چاہا تو کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں قسم اٹھاؤں، پھر اس کے علاوہ کوئی چیز بہتر دیکھوں پھر وہی کرتا ہوں جو بہتر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں۔“
تشریح:
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ تم بھی اپنی قسم توڑ کر ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاؤ اور مرغی کا گوشت کھاؤ، مرغی ایسا جانور نہیں ہے جس کی مطلق غذا گندگی ہو، وہ اگر کبھی گندگی کھاتی ہے تو پاکیزہ اشیاء بھی بکثرت کھاتی ہے اس بنا پر اس کے حلال ہونے میں ذرا بھر شبہ نہیں ہے۔ اگرچہ ہمارے بعض اسلاف گندگی کھانے والی مرغی کو اپنے گھر تین دن تک خوراک کھلاتے، پھر اسے ذبح کر کے کھاتے تھے جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 147/5، رقم: 24598) بہرحال یہ ان کی احتیاط تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے حلال ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔ (فتح الباري: 802/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5307
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5518
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5518
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5518
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
سیدنا زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے جبکہ ہمارے اور جرم کے اس قبیلے کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ تھا۔ ہمارے سامنے ایک کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغی کا گوشت تھا۔ حاضرین میں سے ایک شخص سرخ رنگ کا بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اس کھانے کے قریب نہ آیا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسے کہا کہ تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے، اس نے کہا میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا تھا، اسی وقت سے مجھے اس سے گھن آنے لگی ہے۔ میں نے قسم اٹھائی ہے کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ تم شریک ہو جاؤ میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث بیان کرتا ہوں، وہ یہ کہ میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ہمراہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں آپ کے سامنے آیا تو آپ اس پر خفا تھے اور آپ صدقے کے اونٹ تقسیم کر رہے تھے، اسی وقت ہم نے آپ ﷺ سے سواری کے لیے اونٹوں کا سوال کیا تو آپ نے قسم اٹھائی کہ آپ ہمیں سواریوں کے لیے اونٹ نہیں دیں گے۔ آپ نے فرمایا: اس وقت پاس تمہارے لیے سواری کا کوئی جانور نہیں ہے پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس مال غنیمت کے اونٹ کاٹے گئے تو آپ نے فرمایا: اشعری کہاں ہیں؟ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ہمیں سفید کوہانوں والے پانچ اونٹ دیے۔ تھوڑی دیر تک تو ہم خاموش رہے، پھر میں اپنے ساتھیوں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بھول گئے ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر ہم نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی قسم سے غافل رکھا تو ہمیں کبھی فلاح نصیب نہ ہوگی چنانچہ ہم آپ کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! ہم نےآپ سے سواری کے اونٹ طلب کیے تھے تو آپ نے ہمیں سواری کے لیے کوئی جانور نہ دینے کی قسم اٹھائی تھی، ہمارے خیال کے مطابق آپ اپنی قسم بھول گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی ہی نے تمہیں سواری فراہم کی ہے۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ نے چاہا تو کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں قسم اٹھاؤں، پھر اس کے علاوہ کوئی چیز بہتر دیکھوں پھر وہی کرتا ہوں جو بہتر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ تم بھی اپنی قسم توڑ کر ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاؤ اور مرغی کا گوشت کھاؤ، مرغی ایسا جانور نہیں ہے جس کی مطلق غذا گندگی ہو، وہ اگر کبھی گندگی کھاتی ہے تو پاکیزہ اشیاء بھی بکثرت کھاتی ہے اس بنا پر اس کے حلال ہونے میں ذرا بھر شبہ نہیں ہے۔ اگرچہ ہمارے بعض اسلاف گندگی کھانے والی مرغی کو اپنے گھر تین دن تک خوراک کھلاتے، پھر اسے ذبح کر کے کھاتے تھے جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 147/5، رقم: 24598) بہرحال یہ ان کی احتیاط تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے حلال ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔ (فتح الباري: 802/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب بن ابی تمیمہ نے بیان کیا، ان سے قاسم نے، ان سے زہدم جرمی نے بیان کیا کہ ہم سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے ہم میں اور اس قبیلہ جرم ميں بھائی چارہ تھا پھر کھانا لایا گیا جس میں مرغی کا گوشت بھی تھا، حاضرین میں ایک شخص سرخ رنگ کا بیٹھا ہوا تھا لیکن وہ کھانے میں شریک نہیں ہوا، ابو موسیٰ ؓ نے اس سے کہا کہ تم بھی شریک ہو جاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تھا اسی وقت سے مجھے اس سے گھن آنے لگی ہے اور میں نے قسم کھا لی ہے کہ اب اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ابو موسیٰ ؓ نے کہا کہ شریک ہو جاؤ میں تمہیں خبر دیتا ہوں یا انہوں نے کہا کہ میں تم سے بیان کرتا ہوں کہ میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر حاضر ہوا، میں آنحضرت ﷺ کے سامنے آیا تو آپ خفا تھے آپ صدقہ کے اونٹ تقسیم فرما رہے تھے، اسی وقت ہم نے آنحضرت ﷺ سے سواری کے لیے اونٹ کا سوال کیا آنحضرت ﷺ نے قسم کھا لی کہ آپ ہمیں سواری کے لیے اونٹ نہیں دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس تمہارے لیے سواری کا کوئی جانور نہیں ہے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ کے پاس غنیمت کے اونٹ لائے گئے تو آپ نے فرمایا کہ اشعری کہا ں ہیں، اشعری کہاں ہیں؟ بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں پانچ سفید کوہان والے اونٹ دے دیئے۔ تھوڑی دیر تک تو ہم خاموش رہے لیکن پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آنحضرت ﷺ اپنی قسم بھول گئے ہیں اور اگر ہم نے آنحضرت ﷺ کو آپ کی قسم کے بارے میں غافل رکھا تو ہم کبھی فلاح نہیں پا سکیں گے۔ چنانچہ ہم آپ کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے آپ سے سواری کے اونٹ ایک مرتبہ مانگے تھے تو آ پ نے ہمیں سواری کے لیے کوئی جانور نہ دینے کی قسم کھا لی تھی ہمارے خیال میں آپ اپنی قسم بھول گئے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بلا شبہ اللہ ہی کی وہ ذات ہے جس نے تمہیں سواری کے لیے جانور عطا فرمایا۔ اللہ کی قسم اگر خدا نے چاہا تو کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں کوئی قسم کھا لوں اور پھر بعد میں مجھ پر واضح ہو جائے کہ اس کے سوا دوسری چیز اس سے بہتر ہے اور پھر وہی میں نہ کروں جو بہتر ہے، میں قسم توڑ دوں گا اور وہی کروں گا جو بہتر ہوگا اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کر دوں گا۔
حدیث حاشیہ:
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا دلی مطلب یہ تھا کہ تم بھی اپنی قسم توڑ کر مرغی کھانے میں شریک ہوجاؤ۔ مرغی ایسا جانور نہیں ہے جس کی مطلق غذا گندگی ہو وہ اگر گندگی کھاتی ہے تو پاکیزہ اشیاءبھی بکثرت کھاتی ہے پس اس کی حلت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zahdam (RA) : We were in the company of Abu Musa Al-Ash'ari (RA) and there were friendly relations between us and this tribe of Jarm. Abu Musa (RA) was presented with a dish containing chicken. Among the people there was sitting a red-faced man who did not come near the food. Abu Musa (RA) said (to him), "Come on (and eat), for I have seen Allah's Apostle (ﷺ) eating of it (i.e. chicken)." He said, "I have seen it eating something (dirty) and since then I have disliked it, and have taken an oath that I shall not eat it ' Abu Musa (RA) said, "Come on, I will tell you (or narrate to you). Once I went to Allah s Apostle (ﷺ) with a group of Al-Ash'ariyin, and met him while he was angry, distributing some camels of Rakat. We asked for mounts but he took an oath that he would not give us any mounts, and added, 'I have nothing to mount you on' In the meantime some camels of booty were brought to Allah's Apostle (ﷺ) and he asked twice, 'Where are Al-Ash'ariyin?" So he gave us five white camels with big humps. We stayed for a short while (after we had covered a little distance), and then I said to my companions, "Allah's Apostle (ﷺ) has forgotten his oath. By Allah, if we do not remind Allah's Apostle (ﷺ) of his oath, we will never be successful." So we returned to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We asked you for mounts, but you took an oath that you would not give us any mounts; we think that you have forgotten your oath.' He said, 'It is Allah Who has given you mounts. By Allah, and Allah willing, if I take an oath and later find something else better than that. Then I do what is better and expiate my oath.' "