Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: The musk)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5534.
سیدناابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اچھے اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری اٹھانے والا تجھے ہدیہ دے گا یا تو اس سے خرید کر ہے گا یا کم ازکم اس کی عمدہ خوشبو سے محظوظ ہو گا۔ اور بھٹی دھونکنے والا تیرے کپڑے جلا دے گا یا کم ازکم تجھے اس کے پاس بیٹھنے سے ناگوار بو اور دھواں پہینچے گا۔“
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کستوری کی تعریف کی ہے اور اسے اچھے دوست سے تشبیہ دی ہے اگر مشک پلید ہوتا تو خباثت سے ہوتا، اسے قدر کی نگاہ سے نہ دیکھا جاتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے کستوری کے پاک ہونے پر استدلال کیا ہے، اس لیے آپ نے اچھے اور نیک ساتھی کو کستوری اٹھانے والے سے تشبیہ دی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5322
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5534
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5534
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5534
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
مِسک ایک معرب لفظ ہے جو اصل میں مشک تھا۔ عرب لیگ جب کسی عجمی لفظ کو استعمال کرتے ہیں تو اس میں کمی بیشی کر دیتے ہیں۔ اسے کتاب الصید میں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ مسک (کستوری) ہرن کے نافے سے برآمد ہوتا ہے اور ہرن شکار ہے۔ علماء نے اس کی طہارت پر اتفاق کیا ہے۔ واللہ اعلم
سیدناابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اچھے اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری اٹھانے والا تجھے ہدیہ دے گا یا تو اس سے خرید کر ہے گا یا کم ازکم اس کی عمدہ خوشبو سے محظوظ ہو گا۔ اور بھٹی دھونکنے والا تیرے کپڑے جلا دے گا یا کم ازکم تجھے اس کے پاس بیٹھنے سے ناگوار بو اور دھواں پہینچے گا۔“
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کستوری کی تعریف کی ہے اور اسے اچھے دوست سے تشبیہ دی ہے اگر مشک پلید ہوتا تو خباثت سے ہوتا، اسے قدر کی نگاہ سے نہ دیکھا جاتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے کستوری کے پاک ہونے پر استدلال کیا ہے، اس لیے آپ نے اچھے اور نیک ساتھی کو کستوری اٹھانے والے سے تشبیہ دی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے بردہ نے اور ان سے حضرت ابو موسیٰ ؓ نے کہ بنی کریم ﷺ نے فرمایا نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے (جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک نا گوار بد بو دار دھواں پہنچے گا۔
حدیث حاشیہ:
مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے بھی مشک کا پاک اور بہتر ہونا ثابت فرمایا ہے اور اسے اچھے اور صالح دوست سے تشبیہ دی ہے بے شک صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالع ترا طالع کند حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں مسلمان ہو ئے تھے۔ یہ حافظ قرآن اور سنت رسول کے حامل تھے۔ کلام الٰہی خاص انداز اور لحن داؤد علیہ السلام سے پڑھا کرتے تھے۔ تمام سامعین محو رہتے تھے۔ ان کی تلاوت پر خوش ہو کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بصرہ کا حاکم بنایا۔ سنہ52ھ میں وفات پائی، رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA) : The Prophet (ﷺ) said, 'The example of a good pious companion and an evil one is that of a person carrying musk and another blowing a pair of bellows. The one who is carrying musk will either give you some perfume as a present, or you will buy some from him, or you will get a good smell from him, but the one who is blowing a pair of bellows will either burn your clothes or you will get a bad smell from him."