Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Superiority of the 'Asr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
554.
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے ایک رات ماہ کامل کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’بےشک تم اپنے پروردگار کو (روزِ قیامت) اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت نہیں ہو گی، لہٰذا اگر تم پابندی کر سکتے ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے (فجر کی) اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر کی) نمازوں سے مغلوب نہ ہو جاؤ، یعنی پابندی سے انہیں ادا کر سکو تو ضرور کرو۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، یعنی نماز پڑھو۔‘‘(حدیث کے راوی) اسماعیل بن ابی خالد نے کہا: افعلوا کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ نمازیں تم سے فوت نہ ہو جائیں، انہیں ضرور پڑھا کرو۔
تشریح:
(1) دوسری نمازوں کے مقابلے میں نماز عصر کی کچھ خصوصیات ہیں، مثلا: نماز عصر اس امت کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی فرض تھی۔ (مسند أحمد:397/6) نیز قرآن کریم میں اسے(الصلاة الوسطٰى) قرار دے کر اس کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ پھر اس کے فوت ہونے یا اس کے ترک کرنے پر احادیث میں سخت وعید آئی ہے۔ امام بخاری ؒ اب ایک دوسرے پہلو سے اس نماز کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں، پہلے ترہیب تھی، اب اس کی فضیلت بیان کر کے ترغیب کے پہلو کو نمایاں کیا جا رہا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کا مقصود نماز عصر کے متعلق فجر کے علاوہ دیگر نمازوں پر فضیلت ثابت کرنا ہے۔ (فتح الباري: 45/2) اگرچہ اس روایت سے فجر اور عصر دونوں کی فضیلت یکساں معلوم ہوتی ہے، کیونکہ رؤیت باری تعالیٰ کی نعمت کے حصول میں دونوں نمازیں مؤثر ہیں، تاہم اس مقام پر نماز عصر کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں نمازوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے سورۂ قٓ کی آیت تلاوت کرنے کے بجائے سورۂ طٰهٰ کی آیت:130 تلاوت فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث:573) جبکہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ راوئ حدیث حضرت جریر ؓ نے بطور تائید ان آیات کو تلاوت کیا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1434(633)) اس سے پتا چلتا ہے کہ روایت کے آخر میں ادراج (راوی کی طرف سے بطور توضیح اضافہ) واقع ہوا ہے۔ والله أعلم. (3) روایات میں وضاحت ہے کہ طلوع و غروب سے پہلے نماز سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔ (صحیح مسلم ، المساجد، حدیث 1434(633)) نماز فجر اور عصر کے متعلق خصوصی تاکید کی وجہ جہاں ان نمازوں کی دیگر خصوصیات ہیں وہاں یہ بھی ہے کہ ان میں فجر کی نماز اس وقت ادا کی جاتی ہے جب انسان کو نیند بہت پیاری ہوتی ہے اور نماز عصر کے وقت انسان اپنے کاروبار اور کام کاج میں مصروف ہوتا ہے، چنانچہ ان اسباب کے باوجود اگر کوئی ان نمازوں پر خصوصی توجہ دیتا ہے تو دیگر نمازوں کی بالاولیٰ حفاظت کرے گا۔ (4) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ان دونوں نمازوں کی حفاظت سے آخرت میں رؤیت باری تعالیٰ کی سعادت نصیب ہو گی۔ آخرت میں اہل ایمان کے لیے رؤیت باری تعالیٰ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے اثبات میں بے شمار آیات، متعدداحادیث اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع موجود ہے، لیکن معتزلہ، خوارج اور مرجیہ اس کے منکر ہیں۔ منکرین کے دلائل اور ان کے جوابات کتاب التوحید، حدیث:7434 میں بیان ہوں گے۔ بإذن الله.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
548
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
554
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
554
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
554
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے ایک رات ماہ کامل کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’بےشک تم اپنے پروردگار کو (روزِ قیامت) اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت نہیں ہو گی، لہٰذا اگر تم پابندی کر سکتے ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے (فجر کی) اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر کی) نمازوں سے مغلوب نہ ہو جاؤ، یعنی پابندی سے انہیں ادا کر سکو تو ضرور کرو۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، یعنی نماز پڑھو۔‘‘(حدیث کے راوی) اسماعیل بن ابی خالد نے کہا: افعلوا کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ نمازیں تم سے فوت نہ ہو جائیں، انہیں ضرور پڑھا کرو۔
حدیث حاشیہ:
(1) دوسری نمازوں کے مقابلے میں نماز عصر کی کچھ خصوصیات ہیں، مثلا: نماز عصر اس امت کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی فرض تھی۔ (مسند أحمد:397/6) نیز قرآن کریم میں اسے(الصلاة الوسطٰى) قرار دے کر اس کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ پھر اس کے فوت ہونے یا اس کے ترک کرنے پر احادیث میں سخت وعید آئی ہے۔ امام بخاری ؒ اب ایک دوسرے پہلو سے اس نماز کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں، پہلے ترہیب تھی، اب اس کی فضیلت بیان کر کے ترغیب کے پہلو کو نمایاں کیا جا رہا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کا مقصود نماز عصر کے متعلق فجر کے علاوہ دیگر نمازوں پر فضیلت ثابت کرنا ہے۔ (فتح الباري: 45/2) اگرچہ اس روایت سے فجر اور عصر دونوں کی فضیلت یکساں معلوم ہوتی ہے، کیونکہ رؤیت باری تعالیٰ کی نعمت کے حصول میں دونوں نمازیں مؤثر ہیں، تاہم اس مقام پر نماز عصر کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں نمازوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے سورۂ قٓ کی آیت تلاوت کرنے کے بجائے سورۂ طٰهٰ کی آیت:130 تلاوت فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث:573) جبکہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ راوئ حدیث حضرت جریر ؓ نے بطور تائید ان آیات کو تلاوت کیا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1434(633)) اس سے پتا چلتا ہے کہ روایت کے آخر میں ادراج (راوی کی طرف سے بطور توضیح اضافہ) واقع ہوا ہے۔ والله أعلم. (3) روایات میں وضاحت ہے کہ طلوع و غروب سے پہلے نماز سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔ (صحیح مسلم ، المساجد، حدیث 1434(633)) نماز فجر اور عصر کے متعلق خصوصی تاکید کی وجہ جہاں ان نمازوں کی دیگر خصوصیات ہیں وہاں یہ بھی ہے کہ ان میں فجر کی نماز اس وقت ادا کی جاتی ہے جب انسان کو نیند بہت پیاری ہوتی ہے اور نماز عصر کے وقت انسان اپنے کاروبار اور کام کاج میں مصروف ہوتا ہے، چنانچہ ان اسباب کے باوجود اگر کوئی ان نمازوں پر خصوصی توجہ دیتا ہے تو دیگر نمازوں کی بالاولیٰ حفاظت کرے گا۔ (4) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ان دونوں نمازوں کی حفاظت سے آخرت میں رؤیت باری تعالیٰ کی سعادت نصیب ہو گی۔ آخرت میں اہل ایمان کے لیے رؤیت باری تعالیٰ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے اثبات میں بے شمار آیات، متعدداحادیث اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع موجود ہے، لیکن معتزلہ، خوارج اور مرجیہ اس کے منکر ہیں۔ منکرین کے دلائل اور ان کے جوابات کتاب التوحید، حدیث:7434 میں بیان ہوں گے۔ بإذن الله.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے۔ انھوں نے جریر بن عبداللہ بجلی ؓ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ ﷺ نے چاند پر ایک نظر ڈالی پھر فرمایا کہ تم اپنے رب کو (آخرت میں) اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو اب دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہو گی، پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز (فجر) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز (عصر) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ ’’پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔‘‘ اسماعیل (راوی حدیث) نے کہا کہ (عصر اور فجر کی نمازیں) تم سے چھوٹنے نہ پائیں۔ ان کا ہمیشہ خاص طور پر دھیان رکھو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qais (RA): Jarir said, "We were with the Prophet (ﷺ) and he looked at the moon--full-moon--and said, 'Certainly you will see your Lord as you see this moon and you will have no trouble in seeing Him. So if you can avoid missing (through sleep or business, etc.) a prayer before the sun-rise (Fajr) and a prayer before sunset ('Asr), you must do so.' He then recited Allah's Statement: And celebrate the praises of your Lord before The rising of the sun and before (its) setting." (50.39) Isma'il said, "Offer those prayers and do not miss them."