Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: The distribution of the animals among the people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5547.
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ میں قربانیاں تقسیم کیں تو ایک یکسالہ سیدنا عقبہ ؓ کے حصے میں آیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے حصے میں تو یکسالہ آیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اسی کی قربانی کرلو۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں قربانیاں تقسیم کرنا، اس کے مؤکد ہونے کی دلیل ہے۔ (2) شارح صحیح بخاری ابن منیر نے کہا ہے کہ قربانیوں کی تقسیم سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حصے داروں کا آپس میں گوشت تقسیم کرنا جائز ہے اور یہ خریدوفروخت کی قسم نہیں جیساکہ مالکی حضرات کا خیال ہے۔ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہی ارادہ کیا ہو۔ (فتح الباری: 7/10) ابن بطال نے کہا ہے کہ بڑے عالم دین کے لیے یہی مناسب ہے کہ جب وہ عوام سے یہ اندیشہ محسوس کرے کہ وہ سنت کو فرض سمجھنے لگیں گے تو وہ سنت کو ترک کر دے تاکہ لوگوں پر ان کے دینی معاملات خلط ملط نہ ہو جائیں اور وہ فرض و نفل میں فرق کر سکیں۔ (عمدة القاري: 549/14)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5335
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5547
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5547
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5547
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ میں قربانیاں تقسیم کیں تو ایک یکسالہ سیدنا عقبہ ؓ کے حصے میں آیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے حصے میں تو یکسالہ آیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اسی کی قربانی کرلو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں قربانیاں تقسیم کرنا، اس کے مؤکد ہونے کی دلیل ہے۔ (2) شارح صحیح بخاری ابن منیر نے کہا ہے کہ قربانیوں کی تقسیم سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حصے داروں کا آپس میں گوشت تقسیم کرنا جائز ہے اور یہ خریدوفروخت کی قسم نہیں جیساکہ مالکی حضرات کا خیال ہے۔ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہی ارادہ کیا ہو۔ (فتح الباری: 7/10) ابن بطال نے کہا ہے کہ بڑے عالم دین کے لیے یہی مناسب ہے کہ جب وہ عوام سے یہ اندیشہ محسوس کرے کہ وہ سنت کو فرض سمجھنے لگیں گے تو وہ سنت کو ترک کر دے تاکہ لوگوں پر ان کے دینی معاملات خلط ملط نہ ہو جائیں اور وہ فرض و نفل میں فرق کر سکیں۔ (عمدة القاري: 549/14)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے اور ان سے بعجہ الجہنی نے اور ان سے عقبہ بن عامر جہنی ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کئے۔ حضرت عقبہ ؓ کے حصہ میں ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے حصہ میں تو ایک سال سے کم کا بچہ آیا ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم اسی کو قربانی کر لو۔
حدیث حاشیہ:
یہ حکم خاص حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ ہی کے لیے تھا۔ اب حکم یہی ہے کہ قربانی کا جانور دو دانتا ہونا چاہیئے۔ حضرت ہشام بن عروہ مدینہ کے مشہور تابعین اور بکثرت روایت کرنے والوں میں سے ہیں، سنہ146ھ میں بمقام بغداد انتقال فرمایا، رحمه اللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uqba bin 'Amir Al-Juhani (RA) : that the Prophet (ﷺ) distributed among his companions some animals for sacrifice (to be slaughtered on 'Id-al-Adha). 'Uqba's share was a Jadha'a (a six month old goat). 'Uqba said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I get in my share of Jadha'a (a six month old ram)." The Prophet (ﷺ) said, "Slaughter it as a sacrifice."